او خدایا ! عید پھر آگئی

Eid Mubarakh

Eid Mubarakh

تحریر: شاہ فیصل نعیم
“امی ! ابھی پچھلے سال ہی تو آپ نے مجھے نئے کپڑے لے کر دیئے تھے ۔ وہ ابھی بالکل نئے ہیں میں نے اس عید پر اور کپڑے نہیں لینے یہ ایک دس گیارہ سال کی بچی کے الفاظ تھے جو اپنی بیوہ ماں کی تنگدستی کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔میں جب بھی کہیں سے ایسے الفاظ سنتا ہوں تو میں سوچتا ہوں کہ حالات و ضروریات کچھ اس انداز سے غریبوں پر یورش کرتے ہیں کہ اُن کے بچے وقت سے پہلے سیانے ہوجاتے ہیں۔ وقت بعد لوگوں کو خستہ حالی میں جینے اور حالات سے سمجھوتا کرنے کے ہنر سے آگاہ کر دیتا ہے۔

جب بھی کوئی تہوار آتا ہے غریب والدین کی پریشانیوں میں اور اضافہ ہو جاتا ہے ۔ یہ سوچ اندر ہی اندر ان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے کہ اس تہوار پر بچوں کے کپڑے اورجوتے لینے ہیں تو پیسے کہاں سے آئیں گے؟وہ سوچتے ہیں کہ کیا کوئی قرض دے کر ہماری ضرورت پوری کرے گا؟ لوگو! کیا تم جانتے ہو ؟ایسے لوگ کبھی اپنے بچوں کو بازار لے کرنہیں جاتے اور جائیں بھی کس منہ سے بچے تو بچے ہوتے ہیں اور جب باپ ساتھ ہو تو وہ پھر کچھ بھی مانگ لیتے ہیں ایسے میں اگر باپ وہ ضرورت پوری نا کر سکے توتن من میں جو آگ لگتی ہے اس کی حدت ایک باپ ہی محسوس کر سکتا ہے۔

لوگو! کیا تم نے عید کے موقع پر ایسے بچوں کو دیکھا ہے جو دکانوں کے شیشوں سے چمٹے چیزوں کو دیکھتے رہتے ہیں اور جب دیکھ دیکھ کر تھک جاتے ہیں تو ناجانے کیا سوچ کر گھروں کو لوٹ جاتے لوگو! کیا تم نے اُس ماں کا حال کبھی جانا ہے،کیا اُس کے دل میں جھانک کر دیکھا ہے کہ اُس کی کیا کیفیت ہوتی ہے جب وہ بچوں کو “عید کا کیا ہے عید تو ہر سال آتی ہے ۔ میں اگلے سال اپنے لعل کونئے کپڑے لے کر دوں گی۔میں اپنی گڑیا کے لیے سوہنا سوٹ سلواؤں گی”۔ لوگو! کیا تم نے گلی کی نکڑ پر موجود دروازے کی اوٹ سے جھانکتے اُس بچے کو دیکھا ہے جو عید والے دن بھی گھر سے باہر کیا تم ایسے لوگوں کو جانتے ہو جو چاند رات کو بازار جاتے تو ہیں مگر چیزوں کی قیمتیں پوچھ کر واپس لوٹ آتے ہیں؟

Poor Children

Poor Children

وہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے جو نئے کپڑے ناملنے کے باعث گھروالوں سے ناراض گندے کپڑوں میں ملبوس، برہنہ پا حسرت و یاس کی تصویر بنے گھر کی دہلیز پر بیٹھے رہتے ہیں اس بار اگر ہو سکے تو کچھ پل ان کے پاس ضرور ٹھہرنا اُن کے سر پر ہاتھ رکھنا اور ہو سکے تو اُن کی کہانی جاننے کی کوشش کرنا۔ عید پر کسی سٹال پر کھڑے ہو جانا جہاں اعلیٰ ملبوسات میں لپٹے ہوئے بچوں کا رش ہو جو عید کی خوشیاں دوبالا کرنے کے مختلف چیزیں خرید رہے ہوں وہاں تمہیں کچھ خستہ حال بچے زمیں پر گری استعمال شدہ اور کچھ بچی ہوئی چیزیں اٹھاتے نظر آئیں گے اگر تم میں انسانیت زندہ ہے تو آنکھوں سے گرتے آنسو اس کی تصدیق ضرور میں آج پھر اسلام کی بات کروں گا یہ کلمہ، نماز، روزہ، حج ، زکوۃ، عیدیں اور دیگر تہوار یہ سب کوئی کھیل تماشا نہیں ہے۔

اسلام ایک مکمل دین ہے اس کے ہر پہلو میں کوئی نا کوئی راز پنہاں ہے جس کا مقصد صرف اور صرف انسانیت کی بہتری ہے ۔ تہواروں کا مقصد خوشیاں بانٹنا،امیر اور غریب کے درمیان موجود فرق کو مٹانا، انسانوں میں احساسِ خدا زندہ رکھنا اور اپنے اردگرد موجود انسانوں کو انسان لوگو! اگرآپ کے کچھ پل کسی کو دینے سے اسے خوشی مل سکتی ہے تو اپنی مصروفیات میں سے چند لمحے نکال لینا، اگر تمہاری دولت کسی کی خوشی کا باعث بن سکتی ہے تو یہ موقع ہاتھ سے جانے مت دینا اور ہاں! اگر تمہارا مسکرانا کسی کے چہرےپر مسکراہٹ بکھیر سکتا ہے تو اس نیکی کو ضرور سمیٹ لینا۔

Shah Faisal Naeem

Shah Faisal Naeem

تحریر: شاہ فیصل نعیم