گولن کا اردوان پر جمہوری حکومت کے خلاف ’خاموش بغاوت‘ کا الزام

Golan

Golan

واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکہ میں مقیم عالم دین نے صدر رجب طیب اردوان پر الزام لگایا ہے کہ ترکی کی ناکام بغاوت کی آڑ میں ترک صدر نے’’اپنی آئینی حکومت کے خلاف خاموش بغاوت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

’نیو یارک ٹائمز‘ میں منگل کو تحریر کردہ ایک مضمون میں، فتح اللہ گولن نے اس ماہ کے اوائل میں ترکی کی فوج کے عناصر کی جانب سے بغاوت کی کوشش میں اُنھیں ملوث کرنے کی کوشش کو ’’غیر ذمہ دارانہ اور غلط‘‘ قرار دیا ہے۔

پچہتر برس کے عالم دین اردوان کے ایک سابق ساتھی رہ چکے ہیں۔ وہ سنہ 1999 سے خودساختہ جلاوطنی پر امریکہ کی مشرقی ریاست پنسلنوانیا میں مقیم ہیں۔ بقول اُن کے، ’’میرا فلسفہ سب کی شراکت داری اور اسلام کی اجتماعیت ہے جس کا مقصد سارے مذاہب کے ماننے والوں کی خدمت ہے، جو مسلح بغاوت کے خلاف ہے‘‘۔

ترکی نے کشیدہ حالات کا ذمہ دار گولن کو قرار دیا ہے، جس میں 290 افراد ہلاک ہوئے اور اُن کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ گولن کی بغاوت میں ملوث ہونے کے مبینہ معاملے کے بارے میں ترکی کی جانب سے بھیجی گئی دستاویزات پر غور کیا جا رہا ہے۔ لیکن، اُنھوں نے اُن کی واپسی سے متعلق کوئی وعدہ نہیں کیا۔

نیو یارک ٹائمز کے ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے اپنے مضمون میں گولن نے اردوان پر الزام لگایا ہے کہ وہ ترکی کے پارلیمانی جمہوری نظام کو منتظمہ صدارت میں بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں، ’’اپنے اختیارات پر کوئی قدغن برداشت نہیں کرنا چاہتے‘‘۔

گولن نے ترک صدر پر الزام لگایا ہے کہ اُنھوں نے تقریباً 70000 افراد کو سرکاری اداروں سے فارغ کر دیا ہے، جب کہ متمدن معاشرے کی تنظیموں پر مزید سخت کارروائی جاری ہے؛ اور یوں، مطلق العنان اختیارات کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو پھلانگنا چاہتے ہیں‘‘۔

تین ماہ کی ہنگامی حالت کا نفاذ گذشتہ ہفتے کیا گیا جس کے بعد گولن سے منسلک ہزاروں نجی تعلیمی اداروں، اسپتالوں، کلینکس اور تنظیموں کو بند کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔

ہفتے کے روز جاری ہونے والے ایک حکم نامے میں ججوں، وکلائے استغاثہ اور سول ملازمین کو عدالت میں چیلنج کرنے کے حق سے محروم کرتے ہوئے عہدے سے برطرف کیا جاسکتا ہے، جب کہ پولیس کو اختیار حاصل ہے کہ کسی بھی مشتبہ شخص کو 30 دِن تک حراست میں رکھا جا سکتا ہے، جب کہ زیر حراست فرد کو کسی جج کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکے گا۔

نیو یارک میں قائم، ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے منگل کے روز اِن احکامات کو ’’ظالمانہ، امتیازی سلوک پر مبنی اور بلاجواز‘‘ قرار دیا ہے۔