جانتے ہو

load Shedding

load Shedding

تحریر : امتیاز علی شاکر: لاہور
کسی نے پوچھا جانتے ہو؟ میں نے کہا نہیں کچھ نہیں جانتا، اس نے کہا کاش تم جان پاتے کہ حرام کھانے والے اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں، اس نے پھر کہا جانتے ہو؟ میں نے ایک بار پھر وہی جواب دیا نہیں میں کچھ نہیں جانتا، اُس نے کہا کاش تم جان پاتے کہ یہ جو حکمران ہیں یہ بھی ہم میں سے ہیں، اُس کایہ کہنا تھا کہ میں شروع ہو گیا، حکمرانوں کے بلند و بالا دعوئوں کے باوجود عوام جانتے تھے کہ سخت گرمی کے مہینوں میں لوڈ شیڈنگ کاسانپ ہمیں ضرورڈسے گا۔

لوڈشیڈنگ کے ستائے عوام ایک بارپھر سڑکوں پر نکلیں گے، نہ تھی تواس بات کی خبرنہ تھی کے حکمران اللہ تعالیٰ کا حکم کہہ کرصبرکی تلقین کریںگے ،ہمارے یہاںرواج ہے کہ جب کوئی پسندیدہ کام پورا ہو جائے تولوگ اپنی تعریفیں کرتے تھکتے نہیں اورجب کوئی تکلیف دہ معاملہ پیش آجائے تواللہ کاحکم یاد آجاتاہے،چھ مہینے ،ایک سال، ڈیڑھ سال، دوسال اورپھرتین سال کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اورگرمی شروع ہوتے ہی لوڈ شیڈنگ کا جن بے قابو ہو چکا ، نیلم پاور ہائیڈرو پراجیکٹ کھربوں روپے کھانے کے باوجود بجلی پیداکرنے کے قابل نہیں ہوسکا،ہرسوال کے جواب میں موٹروے،میٹروبس سروس یالال بس سروس تھالی میں سجاکرپیش کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا،موٹروے بنائی اچھاکیا،میٹروبس سروس چلائی اچھاکیا،لال بس چلائی اچھاکیا، بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کردیتے تواوربھی اچھاہوتا،بے روزگاری کم ہوجاتی ،مزدورکے گھرکاچولہہ ایک کی بجائے تین وقت جلتاتو مہنگائی کی چکی میں پساعام آدمی حکمرانوں کیخلاف کسی کی نہ سنتا،جب بات کی جاتی ہے۔

حق کی توفوراکہہ دیاجاتاہے کہ تم ن لیگ کے مخالف ہو،تمہاراتعلق پی ٹی آئی سے ہے،تم پیپلزپارٹی کے حمائتی ہو،ارے نہیں باباہماراکسی کے ساتھ کوئی ذاتی اختلاف ہے ناکسی سیاسی جماعت کے ذاتی مفادات کارشتہ،ہم بات کرتے ہیں بلاامتیازحق کی ،دیکھوآج مزدورکی حالت یہ ہوچکی ہے کہ وہ سارادن مزدوری کی تلاش میں دھکے کھاتاہے پرمزدوری نہیں ملتی،جانتے ہوجب صبح کانکلاباپ شام کوخالی ہاتھ گھرلوٹتاہے توبھوکے بچوں پرکیاگزرتی ہے؟جانتے ہواس وقت دکھی باپ کے دل سے حکمرانوں کیلئے کیسی کیسی بدعائیں نکلتی ہیں؟جانتے ہو،نہیں ہرگزنہیں جانتے ،حکمرانوں تمہارے بچوں کے کتوں اور بلیوں کے کھانے کوقیمتی غذائیں دستیاب ہیں تم کیاجانوجب کسی غریب کابچہ بھوک سے مرتاہے تواُس کادل کرتاہے ساری دنیاجلادے،زیادہ کھاکرپیٹ کم کرنے کیلئے ورزش کرنے والوں کے جسم سے گوشت نوچ لینے والی کیفیت طاری ہوتی ہے،ایک وقت میں چار ،پانچ بڑے پیالے سرپائے،نہاری،سات سات نان کھانے،دو،تین لسی کے بڑے گلاس پینے والے کیاجانیں غریب کوجب مزدوری نہیں ملتی تووہ اپنے رب سے کتنی شکائتیں کرتا ہے،دے لوآج جتنے چکردینے ہیں۔

ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاکر،چکنی چوپڑی سناکر،سبز باغ دیکھا کر جتنالوٹ سکتے ہولوٹ لوپریاد رکھناجس دن بھوکے ننگے عوام کے ہتھے چڑگئے نہ تمہاری اولادکام آئے گی،نہ بیرون ملک آف شورکمپنی،نہ فلیٹ،نہ محل،نہ بینک بیلنس،کروڑوں لوگ جب تمہارے جسم سے اپناحصہ نکالیں گے توسوچوں کیابنے گا،آج اندربیٹھ کربندربانٹ اور باہر آ کرایک دوسرے پرکیچڑاوچھال کرعوام کی آنکھوں میںدھول جھونکنے والے یہ نہ سمجھیں وہ جوچاہیں کرلیں انہیں کوئی پوچھنے والانہیں ،یہ جوپبلک ہے یہ سب جانتی ہے،لوگ سمجھ چکے ہیں کہ جھوٹوں کوجھوٹے ثابت کرنے کیلئے عدالتی نظام سالوں لگادیتاپھربھی نتیجہ سفر آتا، میڈیا کا دور ہے سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں ایک شخص جھوٹ بولتا ہے۔

ویڈیوبنتی ہے پھربھی عدالت اُسے جھوٹام،ماننے کیلئے مزیدتحقیق کرواتی ہے،واہ جی واہ کیازمانہ آگیا،بیس کرروڈ عوام ہی نہیں بلکہ پوری دنیانے سناایک شخص کہاکرتاتھامجھے ووٹ دوچھ ماہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم نہ کی تومیرانام شہبازشریف نہیں ،چھ ماہ توکیااب پانچواں سال گزررہاہے نہ لوڈشیڈنگ ختم ہوئی نہ اُس نے اپنانام تبدیل کیااوراب کہتاہے سال 2018ء کے آخرمیں اتنی بجلی پیداکروں گاکہ ہمسایہ ملک کوبھی فراہم کرسکیں گے،اب اس بندے کوکون سی عدالت میں صادق و امین ثابت کریں ؟شفافیت،میرٹ ،گڈگورنس کے نعرے سن سن کرکان پک چکے جبکہ ہرطرف اندھیرنگری مچی ہوئی ہے،کل ہی روزنامہ نوائے وقت میں اپنے ہی علاقے کی خبرپڑھ کرمعلوم ہواکہ اندھرنگری چوپٹ راج کسے کہتے ہیں،خبریہ ہے کہ کاہنہ میں نشتر ٹائون کے افسران کی ملی بھگت سے چالیس لاکھ کا منصوبہ فائلوں میں مکمل اور ٹھیکیدار رقم لے کر رفو چکر ہو گیا ، کاہنہ کے علاقہ ونگاں والے باغ میں نشتر ٹائون انتظامیہ نے چالیس لاکھ روپے کی لاگت سے روڈ تعمیر کرنے کے منصوبے پر کا م شروع کرنے کاڈرامہ کیا اور بلدیاتی نظام کی تبدیلی سے قبل افسران نے کمیشن کھری کرنے کیلئے منصوبہ مکمل ہو نے سے قبل ہی ٹھیکیدار کو ادائیگی کر دی جس کی وجہ سے چار ماہ گزر جانے کے باوجود ٹھیکیدار منصوبہ چھوڑ کر غائب ہے۔

نامہ نگارکاہنہ نوائے وقت مریدحسین سیال ایک ذمہ دارصحافی ہے جوبغیرتحقیق کے خبرنہیں لگاتانے لکھاکہ اور سیر رائو ارشد سے رابطہ کیا تو انہوں موقف اختیارکیاکہ کسی ٹھیکیدار کو منصوبے کی تکمیل سے قبل رقم کی ادائیگی کیسے کی جا سکتی ہے منصوبہ جلد مکمل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ اہل علاقہ نے ڈپٹی کمشنر لا ہور سے اپیل کی ہے کہ نشتر ٹائون کے افسران اور ٹھیکیدار کی چالیس لاکھ روپے کی رقم خر د برد کر نے کا فوری نو ٹس لیں،اس خبر کی تصدیق کرنے پرمعلوم ہواکہ خبرمیں نرمی رکھی گئی ،موجودہ حقائق یہ ہیں کہ اسی روڈ کی تعمیرکیلئے نئے ٹینڈرکی باتیں ہورہی ہیں جنہیں مقامی بلدیاتی نمائندوں کی مداخلت کے باعث روک دیاگیاہے،چاروں طرف کرپشن ہی کرپشن ،عام آدمی بدسے بدترین حالات میں زندگی بسرکرنے پرمجبورہے، حکمرانوں اور انہیں قیمتی مشورے دینے والے مشیروں وزیروں کو دیکھ کربھی نظرنہیں آتا؟اپنی آخرت سے بے فکرے حکمران، حکومت بھی کر رہے ہیں۔

کرپشن بھی اور بڑے بڑے عوامی جلسوں میں خوب جھوٹے دعوے بھی، جیساکہ 2018ء میں لوڈشیڈنگ ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کا اعلان، لوگ اس قدربے زارنظر آتے ہیں کہ انہیں اس قسم کے مذاق سے بھی نفرت ہوچکی ہے، لوگ جانتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا، الیکشن 2018ء سے چند دن قبل لوڈشیڈنگ بندکرکے ووٹ مانگیں گے اورپھرپانچ سال وہی طرزحکمرانی،وہی دعوے،وہی لارے لپے،راقم نہ تومایوس ہے اور نہ کسی کی ذات پرتنقید کرنے کاشوق رکھتاہے ،موجودہ نظام پر تنقید کر ناثواب کاکام سمجھ کرمنفی پہلوکوسامنے رکھنامجبوری ہے،میری تقریر ابھی جاری تھی کہ اُس نے پھرکہاجانتے ہو؟میرے پاس ایک ہی جواب تھاکہ نہیں میں کچھ نہیں جانتا،اُس نے کہاحکمران کوئی الگ مخلوق نہیں ،جو عوام کرتے ہیں وہی حکمران کرتے ہیں فرق اتناہے کہ عام آدمی کا وہاں ہاتھ نہیں پہنچتاجہاں حکمرانوں کاپہنچتاہے،جس کاجہاں دائو چلتا ہے وہاں بے ایمانی کرتا ہے۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com
03134237099