سرکاری ملازمین کی پوسٹنگ، ٹرانسفر اور دیگر اصلاحات

Government Employees

Government Employees

تحریر : ظہیر حسین شاہ
رہائش کے قریب پوسٹنگ
اکثر انتظامیہ نت نئی استحصا ل اور ظلم پر مبنی پالیسیز بناتی رہتی ہے۔جبکہ اسے عدل وانصاف اورمیر ٹ پر مبنی پالیسیز بنانی چاہیے۔ایک بندا جو اپنے علاقہ کو بہتر جانتا ہے۔جس تک ہر بندے کی رسائی ہے۔اسے دورتعینات کیا جاتا ہے ۔اورمنطق اقر باپروری ہے۔ لیکن اقرباپروری کاجن ہے کہ قابو میں آہی نہیں رہا۔سرکاری ملا زم ریاست کا ملازم ہو نے کے سا تھ ساتھ کسی کا بیٹا ہے،کسی کا شوہر ہے،کسی کا باپ ہے اور کسی کا بھا ئی ۔ اور ارشاد خدا وندِعا لم اپنے والدین سے بہتر سلوک کرو۔ اپنے اہل کو دوزخ سے بچائو۔ جبکہ ہم کیا کرتے ہیںملازم کو اس کے ماں باپ اہل و عیال سے دور کر تے ہیں۔اگر ایک بند ہ اپنے ما ںباپ کے اور اہل وعیال کے پاس رہے گاہی نہیںتو ما ںباپ کی خدمت کیسے کرے گا اپنے اہل اور اولاد کی تربیت کیسے کرے گا ریا ست اور حکومت کا کام ہے اس بندہ سے احسن طر یقے سے کام لینا ناکہ اسکو کبھی اِدھر اور اُدھر پھینکنا اور ٹرانسفر آرڈر کے اوپر لکھنا

”عوامی مفاد”
پتہ نہیں بیچا رے سے کون سا عوامی مفاد لینا ہے۔ہاں وہ ملا زمتیں جن کی سیلیر یز اچھی ہیںرہائش اور ٹیلی فو ن کی سہولت موجود ہے ٹرانسپو ر ٹ کی سہولت موجود ہے۔وہاںتو ٹھیک ہے۔کہ انسان اپنے اہل وعیال کو ساتھ رکھ سکتا ہے۔لیکن وہ ملازمین جن کا ہاوس رینٹ ہی1000/2000روپے ہے۔ جن کو رہا ئش کی سہولت میسر نہیں۔جن کے پاس اپنی ٹرانسپورٹ نہیں وہ کیا کریں۔ لہذا ضروری ہے کہ ان ملازمین کی پوسٹنگ ان کی رہائش کے قریب کی جائیں۔ بڑے افسران مو جیں مارتے ہیں اور چھوٹے ملازمین کبھی کسی کے دروازے پر اور کبھی کسے کے دروازے پراور کبھی تبادلہ کروانے کے لیے اور کبھی تبادلہ رکوانے کے لیئے ذلیل ہوتے رہتے ہیں۔ُ پھر ایسے ایسے غریب اور بیچارے ملازم جن کو جان بوجھ کر انتقامی کارروائی کے تحت کئی کئی بار ٹرانسفر کیا گیا اور کتنے ایسے نواب ملاز م ہیں کہ جہاں لگ گئے لگ گئے کوئی ہٹانے والا نہیں ایک ملازم بیچارہ جو١٠٠ کلو میٹرکا سفر طے کرے گا اور وہ بھی لوکل ٹرانسپورٹ میں وہ بیچارہ تو بس اسی کام کے لیے رہ گیا۔

لہذا پوسٹنگ اور تبادلہ کی پالیسی عدل وانصاف پر مبنی اور واضح ہو بعض دفعہ ایسا ہو تا ہے کہ جس کا ہا تھ پڑتا ہے جسے پنجابی میں کہتے ہیں”ڈاڈا”( Strong)ہوتا ہے۔ وہ سکون وآرام سے اپنی سیٹ پر بر جمان رہتے ہیں جبکہ کمزوراور بیچارے ملازم بس برداشت کرتے رہتے ہیں اور وہ کر ہی کیا سکتے ہیںکیوں کہ انہیں اپنے ساتھ لگے ہوئے پیٹ کی آگ ببجھانے کے لیے اپنے بچے کے دودھ کے لیے نوکری کرنی ہے اور وہ کرتے ہیں۔ لیکن کیوں کہ یہ استحصال ہے اور اسلا می ملک کسی بھی صورت استحصال نہ کر سکتی ہے نہ کسی کو استحصال کرنے دے گی۔اور نہ کسی کے ساتھ استحصال ہو نے دے گی ۔ چاہے ایک ملازم100کلو میٹر فاصلہ طے کر ے یا 0کلو میٹر دو نو ں کا سفر ی خر چ ایک جیسا ہی ملتا ہے اس طر ح اگر ایک سر کار ی ملازم 100کلو میٹر کا فاصلہ طے کر ے روزانہ 300روپیہ خر چ کرے۔

Salary

Salary

ماہا نہ 9000اور سالانہ 108000روپیہ بنتا ہے یعنی اس ملازم کو 108000کا خر چہ کرنا پڑا جبکہ دو سرا ملازم جس کی پو سٹنگ رہا ئش کے قر یب ہے اسکو سالانہ 0روپیہ خر چ کر نا پڑے گا اسی طر ح دور جانے والے ملازم کو مو سمی اثر ات سے بھی لڑنا پڑے گا لہذا ضر ور ی ہے کہ اس تفر یق کو ختم کیا جانا چاہیے لہذا عدل و انصاف کے اصو لو ں کے تحت رہائش کے قر یب ملازمین کی پو سٹنگ کی جائے۔اگر رہائش کے قر یب صرف ایک سیٹ ہے اور امید وار ذیادہ ہیں تو مناسب وقتوں سے سب کو اس سے مستفید ہو نے کی سہو لت دی جانی چاہئے ۔ عام طو ر پر ہر 3سال کے بعد ٹر انسفر کی جانی چاہیے اور ہر 3سال کے بعد نئے امید وار کو اپنی رہائش کے قر یب نو کر ی کرنے کا مو قع فر اہم کیا جانا چاہیے یہ قانون مردو خواتین دونوں ملازمین پر یکساں طور پر لاگو ہونا چاہیے۔

ملازمین کو چھٹی کے بدلے چھٹی دی جائے
انسانی زندگی سے ہر روز طلو ع ہو نے والا سو ر ج ایک دن ختم کردیتا ہے جائز انسانی خو شی ہی انسانیت کی معراج ہو نی چاہیے انسان تھک جاتا ہے خصو صی طو ر پر ما تحت ملازمین جنہیں دفتر و ں کی ٹینشن کے ساتھ گھر یلو اور معاشی مسائل کا بھی سامنا کر نا پڑتا ہے بیچارو ں کو جو چھٹی میسر آتی ہے اسے بعض دفعہ حیل و بہانوں کے ساتھ چھین لیا جاتا ہے جو کہ سراسر استحصال اور ظلم ہے ضر وری ہے کہ اگر ایمر جنسی کی صو رت میں ملازمین کو چھٹی والے دِن کام پر بلایا جائے تو اگلے دن یا ایمر جنسی کے خاتمہ کے بعد لازمی طو ر پر اتنی چھٹیا ں دی جائے جتنی انکی چھٹیا ں ختم کی گئی ہے ۔بعض دفعہ کو ئی ڈے اتو ار کو منایا جاتا ہے تو پھر ملازمین کو سوموار کو چھٹی دی جانی چاہیے کیو نکہ ان میں سے کتنو ں نے کچن سلنڈر میں گیس بھر وانی ہے کتنو ں نے کھانے کے لیئے اناج پسو انا ہے ان کو بھی اپنے بیو ی بچو ں کے ساتھ آرام کر نے کا مو قع دینا چاہیے ۔وہ بھی سکو ن اور فرصت کے کمحو ں کے حق دار ہیں ۔لہذا ملازمین کو چھٹی کے بدلے ہر صور ت میں چھٹی دی جائے جو کہ عین انسانی شر ف کے مساوی ہے۔

ملازمین کو بلاوجہ تنگ نہ کیا جائے
ٹیکنالو جی انسانی سہو لت کے لیئے بنی ہے اور اسے انسانی سہو لت کے لیئے ہی استعمال کیا جائے یا واقعی کو ئی ایمر جنسی ہو تو ملازمین کوبلایا جائے بعض دفعہ ملازمین کو بلاوجہ تنگ کیا جا تاہے جس سے ملازمین کی حو صلہ شکنی ہو تی ہے اکثر آفیسر خود معاملات نہیں دیکھتے ان کے کلرک معاملات دیکھتے ہیں اور وہ ملازمین سے(چر ا غی ) روپے بٹورنے کے نت نئے طر یقے ڈھو نڈ تے ہیں اور پھر سب اچھا ۔ یہ رو یہ ہی تمام بر ائیو ں کی جڑ ہے اس رویہ کو ختم کر نا پڑے گا یہ رو یہ استحصال و ظلم پر مبنی ہے اور ایک اسلامی اور فلاحی ریاست میں اس رو یہ کی کو ئی جگہ نہیں ہے اگر کسی ملازم کو فو ن پر کو ئی کام کہا جاتا ہے تو ایک مخصو ص و قت کے اندر 24گھنٹو ں کے اندر اندر ملازم کو اس کام کو کر نے کے لیئے تحر یر ی حکم دیا جانا ضر و ری ہو ناچاہیے ان تمام کالز کا ر یکار ڈ ملازمین کے پاس ہو نا ضر ور ی ہے اگر کو ئی آفیسر صر ف زبانی یا فو ن s.m.s/کے ذریعے حکم دیتا ہے لیکن تحریری حکم نہیں دیتا تو اس کے خلاف سخت کار وائی ہو نی چاہیے

Boss and Employee

Boss and Employee

اسی طر ح اکثر آفیسر جان بو جھ کر 4,4,3,3دفعہ رپو ر ٹس ایک ہی معاملہ کی مانگتے ہیں جو کہ سر ا سر ظلم و ذیا دتی ہے اور بعض دفعہ پتہ نہیں کو نسی ایمر جنسی آجاتی ہے کو ئی فر ضی ہی ایمر جنسی ہو تی ہے ۔پہلے اس Topicپر کام نہیں ہو تا بعد میں ایک ہی دن میں چھو ٹے ملازمین کو تنگ کیا جاتا ہے ”ابھی ،فو ر ا ً ،جلدی ” کر و جو کہ سر ا سر ماتحت ملازمین کے استحصال کے زمر ے میں آتا ہے اور بعض دفعہ آفیسر ان اپنی کسی تقر یب کو چار چاند لگانے کے لئے جان بوجھ کر ملازمین کو تقر یب میں بلاتے ہیں اور کمال بہانہ ”ضر وری میٹنگ ” ہے یہ رویہ سراسر استحصال پر مبنی ہے اسکو فو راً تبدیل کیا جانا چاہیے تمام کام کر یں احسن طر یقے ، خو بصو ر ت اور پائیدار طر یقے سے کر یں اور وقت سے پہلے کریں ہمار ی پلاننگ پہلے سے تیا ر ہو نی چاہیے جس ملازم سے جو Additionalکام لینا ہے وہ کم ازکم اس کو 4,3دن پہلے بتائیں تاکہ وہ خو ش اسلو بی اور بہتر طر یقے سے کر یں ناکہ بھاگم بھاگ اور مکھی پر مکھی مار نے کی رو ش ہو جو کہ غلط ہے اس سے ریا ست ،حکو مت اور عوام کا بہت زیا دہ نقصان ہو تا ہے ایسے تمام آفیسران جو ماتحت ملازمین کا استحصال کر یں اور انہیں نذرانے لینے کے لیے جان بو جھ کر تنگ کر یں انہیں سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے۔

عوام اور ماتحت عملہ کے ساتھ شرف انسانی سلو ک
شر ف انسانی ہی ایک ایسی خو بی ہیں جو انسان کو خدا کی طر ف سے خا ص طو ر پر دی گئی ہے شر ف انسانیت سلو ک ہم سب پر فر ض ہے بعض دفعہ کو ئی مسائل کسی آفیسر کے پاس جاتا ہے تو وہ فر عو نو ں جیسا سلو ک کرتا ہے جو کہ سراسر عوام کا استحصال ہے تمام آفیسران اور انسانوں پر شر ف انسانیت فر ض ہے لہذا یہ قانو نی طور پر تمام آفیسران اور ماتحت عملہ پر فر ض ہے کہ سب سے پہلے سائل کو بیٹھنے کے لئے کر سی دیں اور سلام دعا کے بعد سائل کو بٹھائے پھر اس سے اسکا مسئلہ پو چھیں ر خصت ہو تے ہو ئے سائل آفیسر اور آفیسر سائل کا شکر یہ ادا کر یں Thank You کہنے کاروائج لانا ہو گا ۔ جو بھی آفیسر ، ماتحت عملہ سائل کو عزت سے نہ بٹھائے اس کے خلا ف سخت کار وائی ہو نی چاہیے لیکن ساتھ عوام پر بھی فر ض ہے کہ وہ بھی ماتحت عملہ اور آفیسران کے ساتھ خو ش اخلاقی سے پیش آئیں جو بندہ بھی بدتمیزی سے بات کر ے اسکے خلاف بھی کا ر وائی ہو نی چاہیے کیو نکہ احترام انسانیت ہم سب پر فر ض ہے یہ خداوندِعالم کی طر ف سے ہم پر فر ض ہے اسی طر ح بعض دفعہ آفیسران اپنے ماتحت عملہ کے ساتھ خو ش اخلاقی سے پیش نہیں آتے یہ بھی قابل تعزیر جرم ہونا چاہیے اگر آفیسر کسی ماتحت ملازم کو اپنے دفتر بلاتا ہے تو سب سے پہلے اسے باعزت طر یقے سے بٹھائے اس کے بعد جو کام ہے وہ کہا جائے لیکن کسی بھی صو ر ت میں احترام انسانیت مجر وح نہیں ہو نی چاہیے۔

ٹر انسفر بطو ر سزا نہیں ہو نا چاہیے
انتظامیہ نظام کو بہتر طورسے چلانے کے لیے افرادی قوت کو بھر تی کر تی ہے اور ان کی پو سٹنگ کر تی ہے ٹر انسفر بھی ملازمت کا حصہ ہے لیکن ٹر انسفر بطو ر سزا نہیں ہو نی چاہیے اکثر افسران نے اسکو چراغی ، منتھلی لینے کا ذر یعہ بنا لیا ہے ایک بندہ جو ایک جگہ جس پو سٹ پر ہے دو سر ی جگہ بھی اسی پو سٹ پر جائے گا یعنی اسکا عہدہ نہیں بدلتا تو پھر ٹر انسفر کا کیا فائدہ ہے اگر کو ئی ایک جگہ اسسٹنٹ ڈائر یکٹر ہے وہ دو سر ی جگہ بھی اسسٹنٹ ڈائر یکٹر ہی رہے گا جو ایک ایک جگہ انکم ٹیکس آفیسر ہے دو سر ی جگہ بھی انکم ٹیکس آفیسر ہی رہے گا جو ایک جگہ جو نیئر کلر ک ہے وہ دو سر ی جگہ بھی جو نیئر کلر ک ہی رہے گا تو پھر ٹر انسفر کا کیا فائدہ سو ائے ملازم کوتنگ کر نے کے لہذا اگر کو ئی سر کا ر ی ملازم اپنے فر ائض منصبی در ست طو ر پر سر انجام نہیں دہ رہا ہے تو اسکو دو سر ی سزا انکریمنٹ رو کنا، تر قی رو کنا یا سر و س کو ضبط کر نا ہو نی چاہیے ٹر انسفر صر ف اور صر ف سر کا ر ی ملازم کے فائدے کے لیے ہو نی چاہیے اور افسران سے یہ چراغی منتھلی لینے کا ہتھیا ر ختم ہو نا چاہیے مجھے امید ہے کہ ان اصلاحات پر عمل ہو نے سے سر کا ر ی ملازمین بہتر انداز میں اپنے فر ائض منصبی سر انجام د ے سکیں گے۔

Zaheer Hussain Shah

Zaheer Hussain Shah

تحریر : ظہیر حسین شاہ
0343-6012894