حکومت اور اپوزیشن میں ٹھن گئی

Opposition Parties Meeting

Opposition Parties Meeting

تحریر : عبدالرزاق
وزیراعظم نواز شریف جن کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ قسمت کے دھنی ہیں لیکن ان دنوں ان کی قسمت کے ستارے زیر گردش ہیں۔ پاناما لیکس نے جہاں بے شمار معتبر ہستیوں کے چہرے بے نقاب کیے وہیں نواز شریف اور ان کے بچوں کو بھی بے چین کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔وزیر اعظم نواز شریف کی اولاد کا نام پاناما پیپرز کی زد میں آنے کے بعد اپوزیشن نے مشترکہ حکمت عملی اپنا کر حکمران جماعت کو مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے بالخصوص اپوزیشن کی جانب سے میاں نواز شریف سے پوچھے جانے والے سات سوالات نے تو مسلم لیگ کی صفوں میں ہلچل مچا دی ہے ۔اپوزیشن سراپا سوال ہے کہ نواز شریف بتائیں انھوں نے لندن میں فلیٹس کب خریدے ؟آف شور کمپنیوں کی مالیت کیا ہے اور ان کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟1985سے لے کر اب تک آپ کے اور آپ کے خاندان کی ٹیکس تفصیلات کیا ہیں ؟2016تک خریدی اور فروخت کی گئی جائیداد کا بھی حساب دیں۔علاوہ ازیں اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات میں مے فیئر اپارٹمنٹس سے متعلق تفصیلات کا بھی ذکر ہے۔

سوچ طلب امر تو یہ ہے کہ کیا نواز شریف ان سوالات کا جواب دیں گے ؟کیا اس خوش گمانی کو دل میں جگہ دی جا سکتی ہے کہ وزیر اعظم اپوزیشن کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا منطقی جواب دے کر اعلیٰ اخلاقی روایات کی داغ بیل ڈالیں گے؟میں سمجھتا ہوں سیاست کی الف ب سے واقف اک عام فہم پاکستانی بھی یہ گمان نہیں رکھتا کہ نواز شریف اپوزیشن کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کو اس قدر توقیر بخشیں گے کہ ان کا جواب دیں بلکہ واقفان حال کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کے ایشو پر وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا دفاع کرنے والوں کو آئندہ چند دنوں میں نوازشات کے سمندر میں نہلانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جن میں دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے نام نمایاں طور پر لیے جا رہے ہیں۔

جبکہ ماروی میمن کے بارے افواہیں سرگرم ہیں کہ ان کو پاناما پیپرز کا مناسب دفاع نہ کرنے پر اعلیٰ عہدے سے فارغ بھی کیا جا سکتا ہے ۔ اندازہ کر لیجیے جس ملک میں سیاسی اخلاقیات کا جنازہ یوں دھوم دھام سے نکلتا ہو تو اس ملک کے وزیراعظم سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ڈیوڈکیمرون کی طرح حساب کتاب کا کھاتہ اٹھائے پارلیمنٹ میں حاضر ہو گا اور دودھ کا دودھ ،پانی کا پانی کر دے گا ۔ ایسا سوچنا وہ بھی پاکستانی وزیراعظم کے بارے احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔میری دانست میں مسلم لیگ ن پاناما پیپرز کے حوالے سے کبھی بھی بیک فٹ پر نہیں کھیلے گی بلکہ اپنے چند نام نہاد وفاداروں کو یہ ٹاسک سونپے گی کہ وہ پاناما لیکس کے حوالے سے وزیراعظم کا دفاع جاری رکھیں خواہ انہیں اپنے اس ہدف کی تکمیل کے لیے اخلاقی قدروں کو پامال ہی کیوں نہ کرنا پڑے جبکہ عملی صورت میں بھی مذکورہ مناظر ٹی وی سکرین پر روزانہ نطر آتے ہیں جہاں حکومتی نمائندے اپوزیشن کے سوالات کا مناسب جواب دینے کی بجائے دوسروں کی سیاست کو داغدار کرنے میں مگن نظر آتے ہیں۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

اب تو وزیراعظم نے بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ اپوزیشن کے سوالات کے جوابات پارلیمنٹ میں نہیں دیں گے بلکہ کسی متعلقہ فورم پر اس کا جواب دیں گے ۔اس ساری صورتحال کے تناظر میں یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے وزرا کا یہ رویہ حکومت کے لیے مذید مشکلات کاپیش خیمہ ثابت ہو گا ۔ اگرچہ میاں نواز شریف مرد بحران کے روپ میں بھی پہچانے جاتے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں وہ بڑے کھٹن دور سے بھی گزرے ہیں لیکن انہوں نے ہمیشہ اس بحرانی کیفیت کو شکست دے کر بار بار مسند اقتدار کے مزے لوٹے ہیں اور تین مرتبہ وز یراعظم کے منصب پر متمکن ہوے ہیں لیکن اس مرتبہ جنم لینے والے بحران کی نوعیت مختلف بھی ہے اور منفرد بھی۔

اس مرتبہ پیدا ہونے والے بحران نے نہ صرف نواز شریف بلکہ ان کے خاندان کی اخلاقی حیثیت کو چیلج کیا ہے۔جس نے نواز شریف سمیت ان کے خاندان کے لیے سیاسی طور پر مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔مریم نواز شریف صاحبہ جو وزیراعظم کی صاحب زادی ہیں وہ پاکستان کے مستقبل کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہیں اور کچھ کہنہ مشق صحافی جو سیاست اور سیاست دانوں کے بہت قریب جانے جاتے ہیں مریم نواز کو نواز شریف کا مستقبل قرار دے رہے ہیں۔

لیکن میری دانست میں پاناما پیپرز کے ہوشربا انکشافات نے مریم نواز کی سیاسی راہوں میں کانٹے بچھا دئیے ہیں جنہیں چن کر ہی وہ سیاست میں قدم جما سکتی ہیں۔موجودہ جنم لے چکی صورتحال میں اب وہ سیاسی کھیل میں بآسانی فتح مند ہوتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ اگر پاناما لیکس کا بم نہ پھٹتا تو وزیر اعظم کی صاحبزادی ہونے کے ناطہ بنا کسی رکاوٹ کے اقتدار کی راہداریوں میں محو سفر ہو سکتی تھیں لیکن اب پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے اور پوری دنیا میں ہلچل برپا ہونے کے سبب ان کی سیاسی اڑان میں خلل کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

Politics

Politics

بہرحال حکمرانوں کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ دائمی اقتدار کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے لیکن انسان کی خصلت ایسی ہے کہ وہ چند روزہ اقتدار کے نشہ میں ایسا مخمور ہوتا ہے کہ تکبر کے قلعے تعمیر کر لیتا ہے ۔ بالخصوص تیسری دنیا کے ممالک کے حکمرانوں کا تو یہ وطیرہ ہے کہ وہ اقتدار سے جونک کی طرح چمٹ جاتے ہیں اور حالات چاہے کچھ بھی رخ اختیار کر لیں اقتدار چھوڑنے کو ہرگز تیار نہیں ہوتے ۔دنیا بھر کے مہذب ممالک میں سیاست اور اخلاقیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے جبکہ ہمارے ہاں سیاست اور اخلاقیات مخالف سمت محو سفر ہیں۔جو سیاست دان جس قدر اخلاق کی دھجیاں بکھیرتا ہے ۔ سیاسی مخالفین کی پگڑیاں اچھالتا ہے بغیر ثبوت اور بلا تحقیق الزامات کی مالا پروتا ہے اور بے وجہ دوسروں پر تنقید کے نشتر چلاتا ہے۔

اپنے قائدین کی خوشامد کے گیت موقع بہ موقع الاپتا رہتا ہے ۔اس پر تو سیاسی جماعتوں کے قائدین نوازشات کی برسات کر دیتے ہیں ۔ مشیر اور وزیر کا عہدہ اس کے قدموں میں ڈھیر کر دیا جاتا ہے بلکہ اب تو سیاسی جماعتوں نے وفا داری کا پیمانہ ہی یہ مقرر کر لیا ہے کہ جو سیاست دان حزب مخالف کی جتنی تضحیک کر ے گا اتنا ہی پارٹی کا وفا دار گردانا جائے گا۔ شنید ہے کچھ سیاسی پارٹیوں نے تو اس مقصد کے لیے باقاعدہ میڈیا سیل بنا رکھے ہیں جہاں اس نوع کے سیاست دانوں کو داد و تحسین کے ہار پہنائے جاتے ہیں۔

جو سیاست دان اخلاقی حدود کے دائرے میں رہ کر بات کرتا ہے اس کا یہ جرم تصور کر کے اس کو پارٹی عہدے سے فارغ کر دیا جاتا ہے ۔سیاسی جماعتیں اگر ملک کے ساتھ مخلص ہیں اور وہ جمہوری عمل کو وطن عزیز میں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتی ہیں تو انہیں اس قسم کے سیاسی کلچر کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی اور سیاست میں اخلاقی پہلو کو نظر انداز کرنے کی روش کو ترک کرنا ہو گا تبھی ہمیں حقیقی جمہوریت کے ثمرات میسر ہوں گے۔

Abdul Razzaq

Abdul Razzaq

تحریر : عبدالرزاق