بحکم گورنر صاحب۔۔۔ پڑھنا منع ہے

Balochistan

Balochistan

تحریر: حذب اللہ مجاہد گھمبیر
بلوچستان پاکستان کا وہ بدقسمت صوبہ ہے جو کہ ایک طرف سب سے زیادہ وسائل سے مالامال ہے تو دوسری طرف سب سے زیادہ کسمپرسی کا شکار بھی ہے آبادی میں سب سے کم ہونے کے باوجود اس کے وسائل اس کے مسائل حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیںجہاں اور کئی گھمبیر اور پیچیدہ مسائل بلوچستان میں وجود رکھتے ہیں وہیں ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ اپنے آبادی کی طرح شرح خواندگی میں بھی بلوچستان تمام صوبوں کی فہرست میںسب سے آخر میں نظر آتا ہے پورے بلوچستان میں گنتی کے پانچ جامعات ہیں اور ایک ہی میڈیکل کالج ہے۔ بلوچستان کا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ دوسرے صوبوں کے عوام کا بلوچستان سے متعلق سوچنے کا زاویہ بالکل ہی الگ ہے کیا چھوٹا کیا بڑا کیا تعلیم یافتہ کیا ناخواندہ کیا سیاستدان کیااساتذہ کیا طلباء کیا علماء اس معاملے میںتو سب ایک ہی پیج پر نظر آتے ہیں تقریبا سب کے سب بلوچستان میں موجود پیچیدہ مسائل اور زمینی حقائق سے نا بلدہیں اور بلوچستان کے جغرافیہ، سیاست، ادب ، ثقافت نیز کسی بھی شعبے سے متعلق واقفیت نہیںرکھتے ہیں چاہے پنجاب ہو یا سندھ کے شہری علاقے ،خیبر پختون خواہ ہویا پھر گلگت بلتستان وہاں بلوچستان کا تصور ایک جاہل سماج ، خونخوار لوگ، تعلیم سے بالکل نابلد عوام جنہیں بلوچستان کے سرداروں نے غلام بنایا ہوا ہے سردار کی اجازت کے بغیر تو کوئی پتہ بھی نہیں ہلتا اور سرداروںکی طرف سے بلوچستان میں تعلیمی ادارے بنانے اور دیگر ترقیاتی کاموں کی اجازت نہیں ہے تاکہ عوام پڑھ سکے نہ ترقی کرسکے۔

انہوں نے عوام کو جاہل رکھاہوا ہے تاکہ وہ ان پر حکمرانی کرسکیںاور انکو استعمال کرسکیں بلوچستان میں شرح خواندگی کی کمی سمیت جتنے بھی مسائل ہیں ان سب کے ذمہ دار بلوچ سردارہی ہیںاگر بلوچ سردار چاہیں تو یہ مسائل چند دنوں میں حل ہوجائیں بلوچ سردار یہ سب کرنے کیلئے بھارت سے پیسہ لیتے ہیں تاکہ بلوچستان ترقی نہ کرسکے اور اس طرح پاکستان کی ترقی و تعمیر میں رکاوٹ ڈالی جائے اور جاہل بلوچ عوام کو بلوچ سردار ملکی ترقی کے خلاف غیر ملکی مفادات کیلئے استعمال کریں جبکہ پاکستان کے تمام وفاقی اداروں کی کوشش یہی ہے کہ وہ بلوچستان میں تعمیر و ترقی کے حوالے سے بھر پور کام کریںبلوچستان میں نئے اعلی تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں ، پورے صوبے میں ترقیاتی کاموں کا ایک ایسا جال بچھایا جائے جس سے بلوچستان کے عوام کیلئے ترقی کی نہیں راہیں کھل جائیں اور یہاں کی عوام تمام سرداری چالوں اور جالوں سے مکمل آزاد ہوکر تعلیم حاصل کریں اور بلوچستان و ملک کی ترقی میںبھرپور کردار ادا کرسکیںاور سردار کی سوچ سے الگ بھی اپنے بھلے اور برے کے سوچنے کا شعور ان میں آجائے لیکن بلوچستان میں بر سر زمین حقائق اس سوچ اور تصور سے بالکل برعکس ہیں۔

Tribal Society

Tribal Society

یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ بلوچستان کے مسائل کیلئے بلوچ سرداروں کو مکمل بری الذمہ قرار دے رہا ہوں یا سرداروں کی وکالت کررہا ہوں لیکن جس تصور کا ذکراوپر کیا گیا ہے حقائق اس سے بالکل مختلف ہیں چونکہ بلوچستان کا قبائلی معاشرہ بھی ایک حقیقت ہے لیکن بلوچستان میں ماسوائے چند علاقوں کے اب نیم قبائلی نظام ہے جہاں صرف ایک مخصوص حلقے تک ہی سردار کا اثر رسوخ چلتا ہے لیکن قبائلی علاقے ہوں یا نیم قبائلی علاقے وہاںسردار کا گرفت یا کردار اس خوفناک تصور سے سو فیصد مختلف ہے جو بلوچستان سے باہرپایا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں موجودریاستی نظام کی کمزوری بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے جس کی حالت ایسی نہیںکہ لوگ ریاستی نظام پر بھروسہ کرکے قبائلی نظام سے مکمل باہر نکل جائیں۔

اصل موضوع بلوچ سردار اور بلوچستان کے ناخواندگی کی ہے وہ ناخواندگی جس کیلئے تمام ارباب اختیار اور دیگر صوبوں کی عوام بلوچ سرداروں کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں ان کیلئے ایک حقیقت کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے ایک سابق وزیر اعلی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور ایک معروف بلوچ سردار سردار اختر جان مینگل نے یہ آفر کی تھی کہ وہ اپنے آبائی علاقے وڈھ میں یونیورسٹی کے قیام کیلئے سو ایکڑ زمین مفت میں دیں گے جس کیلئے کوئی بھی حکومتی نمائندہ کسی بھی وقت ان سے رابطہ کرسکتے ہیں اس کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک وفاقی وزیرجناب احسن اقبال صاحب نے اس آفر کو سرہاتے ہوئے ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی یہاں اس بات کا اضافہ کرنا بھی لازمی سمجھوں گا کہ یہی بلوچ سرداراختر جان مینگل اپنے آبائی علاقے وڈھ میں اپنی مدد آپ کے تحت دو غیرسرکاری انگلش میڈیم اسکول( ایک وڈھ میں اور ایک انتہائی دشوار گزار علاقے سارونہ میں ) چلارہے ہیں اس کے علاوہ اسی سردار نے اپنے آبائی علاقے میں گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول کیلئے چالیس ایکڑ کے لگ بھگ زمین اور گورنمنٹ انٹر کالج کیلئے بھی زمیں مفت میں دی ہے جو کہ اس کے تعلیم دوستی کا ثبوت ہیں۔

University

University

اس نئے آفر کے بعد امید کی کرن نظر آئی تھی کہ وڈھ میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس سے نہ صرف وڈھ بلکہ پورے بلوچستان کے طلباء مستفید ہونگے حکومت اب اس بلوچ سردار کی تعلیم دوستی کو سرہاتے ہوئے اس آفر کا خیر مقدم کرے گا اور یونیورسٹی کے قیام کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کاشروع کیا جائے گا پورے بلوچستان کے تعلیم دوست حلقوں کی توجہ اب حکومت کی طرف تھی کیونکہ جن بلوچ سرداروں پر تعلیم دشمنی کا الزام لگایا جاتا تھا انہی میں سے ایک بلوچ سردار نے گیند اب حکومت کی کورٹ میں ڈال دی تھی پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایک وفد نے یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے وڈھ کا دورہ بھی کیا اور سردار اختر جان مینگل کی طرف سے بھی اپنے وعدے کے مطابق سو ایکڑ زمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کو دے دی گئی ، انتقال اراضی بھی ہوگئی لیکن پھر اچانک یہ خبر موصول ہوا کہ بلوچستان کے گورنر جناب محمد خان اچکزئی صاحب نے وڈھ میں یونیورسٹی پروجیکٹ کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے قلم کی جنبش سے اس کو منسوخ کردیا ہے ۔۔۔ بحکم گورنر صاحب ۔۔۔ پڑھنا منع ہے ۔

آخر میں اس بات کی وضاحت کہ گورنر بلوچستان جناب محمد خان اچکزئی صاحب بلوچ سردار نہیں بلکہ وہ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ جناب محمود خان اچکزئی صاحب کے بڑے بھائی ہیں۔

Hizbullah Mujahid

Hizbullah Mujahid

تحریر: حذب اللہ مجاہد گھمبیر