حکومت کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان اور .. .؟؟

Petroleum

Petroleum

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
لیجئے…!! جناب ہمارے حکمرانوں نے ماہِ رواں کی پانچ تاریخ کو بجٹ پیش کرنے سے چارروز قبل ہی مہنگائی کو بے لگام کرنے کا بندوبست کر لیا ہے یعنی یہ کہ حکمرانوں نے دیدہ ودانستہ مُلک کے ساڑھے اُنیس کروڑ غریب عوام کے لاغر جسموں کو زندہ درگو کرنے کے لئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یکمشت 3 روپے 50 پیسے کا اضافہ کرکے مُلک کی پریشان حال عوام پر مہنگائی کا ایک ایسابم گرادیاہے جس سے مُلک کے غریب اور مفلوک الحال عوام تلملاکررہ گئے ہیں ، اَب اِن میں بجلی اور پانی کے بحرانوں سے لڑتے لڑتے اتنی بھی سکت باقی نہیں رہی ہے کہ یہ بیچارہ اپنے مردہ ضمیرحکمرانوں کے سامنے اپنے اُوپر ہونے والے مظالم کے خلاف بھی آوازبلندکرسکیں اور اپنادُکھ درداپنے حکمرانوں کو سُناکراِن سے کسی ریلیف کاسوال ہی کرسکیں..آج ایسے میں عوام یہ دھائی دیتے نظرآرہے ہیں کہ کوئی آئے اور ہمارے حکمرانوں کو بتائے کہ مُلک کی ترقی اور خوشحالی غریبوں کو مہنگائی اور پانی و بجلی کے بحرانوں میں جکڑنے سے نہیں بلکہ دنیاکے دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرح عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے اور اِنہیں اِن کے بنیادی حقوق کے حصول سے پنہاں ہے۔

اَب ایسے میں ہمیں معاف کیجئے گا..!آج ہمیں اپنے جیسے اِنسانوں اور اپنے حکمرانوں ، سیاستدانوں اور قومی اداروں کے سربراہان اور اپنے افسرشاہی سے یہ سوال کرنے میں ذرابھی عارمحسوس نہیں ہورہی ہے کہ” آج کیا ہماری دنیاہمارے مُلک ہمارے معاشرے اور ہماری تہذیب کے اِنسانوں کے لئے یہ حیرت انگیزاور عجیب بات نہیںہوگی …؟؟کہ اِس پُرآشوب دُورمیں ” ضمیر“کو ضمیرفروش ہی ایسے بھول گئے ہیں…!!کہ جیسے اِن کا کبھی ضمیرسے واسطہ ہی نہیںپڑاہو…اور موجودہ زمانے میں حدتو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں نے اپنانام ”ضمیر“ رکھنابھی چھوڑدیاہے…یعنی یہ کہ آج جیسے ہمارے زمانے اور ہماری تہذیب کے لوگوں کے نزدیک ”ضمیر“اور ”ریلیف “کا لفظ کسی بُرائی یا گناہ جیساہوگیاہے۔

اِس میں کوئی شک نہیںکہ آ ج کی دُنیاکے اِنسانوں کے اندر سے ضمیرکامرجاناہی اصل میں دنیاکی تباہی و بربادی کا سبب ہے کیوںکہ ہم نے اپنے مفادات کے حصول کے خاطر اپنے ہی ہاتھوں اپنے ضمیر کا خون کیا ہے اور اَب ہم ایسے بے حس ہوگئے ہیں کہ آج ہم نے اپنی زندگی کو زندگی جاناہے اور اِسے ہی اپنادین دھرم مان لیا ہے اورہم نے اپنے زمانے اور اپنے معاشرے میں اپنی ذات سے وابستہ افراداور گرہوں کے مفادات کے لئے تمام اخلاقی ، معاشرتی اور قانونی حدیں توڑڈالی ہیں یوں اَب ہم اپنی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی مردہ ضمیری کے اس درجے تک پہنچ گئے ہیں کہ جہاں اِنسان کو اِنسانیت کے درجات پر فائز کرتے ہوئے بھی شرم سی آنے لگی ہے۔

Process

Process

ؓ بہرحال..!!اب کوئی لاکھ یہ کہے کہ اس پرآشوب دور میں یہ اپنے مفادات سے زیادہ دوسروں کی ضرورتں اور حاجات کا خیال کرنے والاانسان ہے تو ایسے کسی بھی انسان کے کسی بھی ایسے عمل پر کم ازکم ہم یقین نہیں کریں گے..وہ اِس لئے کہ ہماری موجودہ دنیا کے عظیم ملک اور اِس ملک کے منتشرالخیال معاشرے اور کئی تہذیبوں کو ملاکر ایک تہذیب بن جانے والے ماحول کے کسی بھی اِنسان میں گزرے زمانوں کے اچھے اِنسانوں والی صفات میں سے کسی بھی اچھی صفت کا موجود ہونا …یقینا غیریقینی کی بات ہے کیوں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آج کے اِنسان میں بغیر لالچ اوربغیرکسی مفاد کے کسی ضرورت منداِنسان کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا…ہم سمیت دوسروں کے لئے عجیب سالگتاہے۔

بہر کیف …!!آج حکومت کا بجٹ سے قبل مہنگائی کو بے لگام کرنے کے لئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اندھادھن کیاجانے والااضافہ عوام سے بے حسی اور اِن کے بے ضمیر ہونے کی علامت ہے اگر آج اِن میں ذرابھی حس ہوتی اور اِن کا ضمیر زندہ ہوتا…تواِن کے دلوں میں مہنگائی اور بجلی و پانی کے بحرانوں سے ستائے عوام کے دُکھ دردکابھی احساس ہوتا…اوروہ یوں کبھی بھی مہنگائی کا طوفان برپاکرنے کے لئے گورکھ دھند بجٹ سے قبل پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہ کرتی اوراپنے عوام پر مہنگائی کا بم نہ گراتی… اور عوام کو مہنگائی تلے دبادیکھ کر ہرگزیوںخوش نہ ہوتی…جیسی یہ ابھی خوش ہورہی ہے۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com