گورنر سندھ کو ہٹانے یا برقرار رکھنے کا فیصلہ وزیراعظم کریں گے

Ishrat Ul Ebad Khan

Ishrat Ul Ebad Khan

کراچی (جیوڈیسک) کراچی آپریشن پر ایم کیو ایم کی شکایات دور کرانے میں گورنر سندھ کے وفاق سے رابطے بے سود ثابت ہوئے اور یہ وجہ گورنر سندھ اور متحدہ قیادت کے اختلافات کی بڑی وجہ بنی جب کہ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنرسندھ کو ہٹانے یا استعفیٰ دینے کے ایم کیو ایم کے مطالبے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کو عہدے سے ہٹانے یا برقرار رکھنے کا فیصلہ وزیراعظم، اہم شخصیات و اہم اداروں کی مشاورت اور سندھ کی سیاسی صورتحال سمیت کراچی آپریشن کومدنظر رکھتے ہوئے کریں گے ، ماضی میں بھی کئی مرتبہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور ایم کیو ایم کی قیادت کے درمیان سیاسی دوریاں پیدا ہوئیں۔

گورنر سندھ کا منصب سنبھالے 12برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہےاور ان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ ملکی کی تاریخ کے پہلے گورنر ہیں جو تاحال اپنے منصب پر فائز ہیں، ڈاکٹر عشرت العباد نے اپنے عہدے کا منصب 27 دسمبر 2002کو سنبھالا، انہوں نے سابق صدرپرویز مشرف اور آصف زرداری کے دور حکومت میں بھی کام کیا اور ان کے دورگورنر میں میر ظفر اللہ جمالی ،چوہدری شجاعت ،شوکت عزیز ،یوسف رضا گیلانی ،راجہ پرویز اشرف ،میر ہزار خان کھوسو وزیراعظم رہ چکے ہیں اور اب بھی وہ صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر عشرت العبادخان 2مارچ 1963کو کراچی میں پیدا ہوئے، ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا ،1986میں اے پی ایم ایس او کو جوائن کیا ،1990 کے انتخابات میں کراچی کے حلقہ 81سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے اور نواز شریف کے پہلے دور حکومت سندھ کے وزیر ہاؤسنگ بھی رہے،1993میں کراچی میں جاری آپریشن اور سیاسی حالات کے سبب برطانیہ چلے گئے،طویل قیام کے بعد2002 میں وہ وطن واپس آئے،مسلم لیگ(ق) کے دور حکومت میں ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد قائم ہونے کے نتیجے میں الطاف حسین نے ان کو گورنر سندھ نامزد کیا اوردسمبر 2002 میں عہدہ کاسنبھالنے کے بعد تاحال وہ اپنے پر کام کر رہے ہیں۔

گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بااعتماد ساتھی سمجھے جاتے تھے،2008 میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی وفاق اور سندھ میں اتحادی حکومتیں قائم ہونے کے بعد دونوں جماعتوں میں سیاسی اختلافات کئی مرتبہ سامنے آئے ،جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کی قیادت نے گورنر سندھ سے جون 2011اورفروری2013 میں استعفیٰ طلب کیا اور وہ دبئی چلے گئے ،تاہم پیپلز پارٹی کی قیادت کے ایم کیو ایم سے رابطوں کے بعد وہ واپس واپس آگئے اوراپنے عہدے پر کام شروع کردیا۔الیکشن 2013 میں نواز حکومت کے وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد گورنر سندھ نے دونوں حکومتوں کے ساتھ ایم کیو ایم کے تعلقات بہتر رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ،ستمبر 2013میں کراچی آپریشن کے آغاز کے بعد ایم کیو ایم کے تحفظات سامنے آنے کے بعد وہ اچانک دبئی چلے گئے اور اطلاعات آئیں کہ وہ استعفیٰ دے کر گئے ہیں تاہم وفاقی حکومت کی مداخلت کے بعد وہ واپس آگئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر سندھ اور ایم کیو ایم کی قیادت کے درمیان اختلافات کی بڑی وجہ کراچی آپریشن پر پارٹی کے تحفظات ہیں جو گورنر سندھ دورنہ کرا سکے۔

اس دوران 2014 میں بھی ایم کیو ایم کی قیادت نے گورنر سندھ سے کئی مرتبہ لاتعلقی کا اظہار کیا اور ایم کیو ایم کی جانب سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ وفاق اور اہم حلقوں کے قریب ہیں۔11مارچ کو نائن زیرو اور اطراف میں رینجرز کے چھاپے اور گرفتاریوں کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت کی جانب سے یہ اشارے سامنے آئے کہ گورنرسندھ بے اختیار ہوگئے ہیں،18مارچ کے بعد یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ وہ استعفیٰ دے رہے ہیں لیکن انہوں نے اس بات کی ازخود تردید کردی، رواں ماہ بھی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔

گورنرسندھ ایک منفرد شخصیت کے حامل ہیں ،انہوں نے سندھ میں تعلیم ،صحت ،ثقافتی اور سماجی شعبوں کی ترقی کیلیے اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ اچھے سیاست دان بھی ہیں اور سندھ کی سیاست کے مسائل حل کرنے سمیت عوامی تحریک کے گذشتہ بر س اسلام آباد دھرنے کو ختم کرانے اور وفاقی حکومت کومشکلات سے نکالنے میں بھی ان کا کردار اہم رہا ہے۔