غم زیست

College Girls

College Girls

تحریر : عفت
کالج کے وسیع لان میں لڑکیوں کا گروپ بیٹھا خوش گپیوں میں مشغول تھا ۔باتیں ،قہقہے،نمکو اور چپس کی چھینا جھپٹی ۔وہ سب بے حد مسرور دکھائی دیتی تھیں ۔ہانیہ نے کھڑے ہو کے کپڑے جھاڑے اور کمال ِبے نیازی سے ایک ادا سے اپنے کٹے بالوں کو جھٹکا دیا کافی پینے کون کون چلے گا ؟ میں میں کی صدائیں بلند ہوئیں ائوے ہوئے وہ مسکرائی یہ دیکھو آج ہی بھیا سے پاکٹ منی لی ہے اس نے پیسوں سے بھرا پرس لہرایا ،اوکے کم ان گائیز لیٹس گو اس کی چنچل آواز کے ساتھ لڑکیوں نے نعرہ لگایا اور کھڑی ہو گئیں ۔۔سر وقاص نے گذرتے ہوئے انہیں گھورا ۔کیا ہر وقت ہلڑ مچائے رکھتی ہیں وہ منہ میں بدبداتے ہوئے آفس کی طرف بڑھ گئے ۔ لا لا لا لا ،ہانیہ گنگناتے ہوئے گھر کے لائونج میں چکر لگا رہی تھی ،رانیہ نے مونگ پھلی کی ٹوکری سنٹر ٹیبل پہ رکھی ۔شانی کشن گود میں رکھے ٹی وی پہ کرکٹ کا میچ دیکھنے میں محو تھا ۔جبکہ دانی کارپٹ پہ اوندھے لیٹے لیپ ٹاپ پہ تیزی سے انگلیاں چلا رہا تھا۔

رانیہ بھی میچ دیکھنے لگی ۔ہانیہ نے دھپ سے صوفے پہ گرتے ہوئے پائوں سمیٹ کر اوپر کیے کیا بوریت ہے یار ؟ وہ برا سا منہ بنا کے بولی ۔یس آئوٹ ،شانی نے فرط جوش سے کشن کو مکہ جڑا ۔ آج بڑے فٹ جا رہے نیوزی لینڈ کو مشکل ٹارگٹ دیں گے رانیہ نے تبصرہ کیا ۔ہمم شانی نے سر ہلایا ،ہانیہ نے ریموٹ سے ٹی وی آف کر دیا ،ائو شٹ منحوس لائیٹ وہ چلایا ۔پھر اس کی نظر ہانیہ کے ہاتھ میں دبے ریموٹ اور اس کی شرارتی مسکراہٹ پہ پڑی۔ہانی کی بچی وہ اس پہ لپکا ،بھائی میں بور ہو رہی وہ منہ بسور کر بولی ۔میں کوئی نہیں اس وقت کہیں لے کے جانے والا تجھے ،شانی گویا اس کا مطمع ِنظر بھانپ کر بولا اور پھر میچ کی طرف متوجہ ہو گیا رانیہ نے مسکراہٹ ہونٹوں میں دبائی ۔بڑے بھائی،اب وہ دانی کے سر پہ سوار تھی ،ہوں دانی نے مسلسل نظریں لیپ ٹاپ پہ مرکوز کیے ہنکارہ بھرا۔

مجھے کنزہ کی طرف چھوڑ آئیں ناں پلیز ۔گڑیا مجھے یہ فائل مکمل کر لینے دو پھر لے جاتا ہوں ،دانی نے مسکرا کر اس کے منہ بسورتے چہرے کو دیکھا ۔آخر وہ تنگ آکر اٹھی اور کچن میں مصروف ماں کے پاس پہنچ گئی مما کیا بنا رہیں ؟پلائو بنایا ہے تم زرا جلدی سے سلاد بنا دو تمہارے بابا آنے والے ہیں ،انہوں نے جلدی جلدی توے پہ کباب کو پلٹتے ہوئے کہا ۔مما میں کنزہ کے گھر جا رہی ہوں بھائی کے ساتھ ، اس نے کام سے بچنے کے لیے فورا بہانہ تراشا ۔دماغ خراب ہے شام کے پانچ بجنے والے یہ کون سا وقت ہے کسی کے گھر جانے کا آرام سے گھر بیٹھو مدد کروائو میری سارا دن رانیہ لگی رہتی اگلے ماہ اس کی شادی ہو جائے گی تو تب تمھیں پتہ چلے گا ۔ثمینہ بیگم نے ہانیہ کو کھری کھری سنا دیں۔

ALLAH

ALLAH

وقاص احمد اور ثمینہ کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھرانے سے تھا ۔اپنا بزنس اور زمین تھی،اللہ نے دو بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا تھا ۔دانیال ایم بی اے کرنے کے بعد باپ کا ہاتھ بٹاتا تھا ۔اس کے بعد رانیہ تھی اس نے بی ایڈ کیا تھا اور اگلے ماہ اس کی اور دانیال کی شادی تھی۔وہ دونوں اپنے ماموں زاد بھائی بہن سے منسوب تھے ۔ اس کے بعد شایان تھا وہ بی بی اے کر رہا تھا سب سے چھوٹی اور لاڈلی ہانیہ تھی جوسیکینڈ ائیر کی طالبہ تھی ۔شوخ چنچل ہنس مکھ سی پیاری سی یہ لڑکی سب کی لاڈلی تھی ۔ایک ماہ بعد رانیہ اور دانیال کی شادی ہوگئی رانیہ رخصت ہو گئی اور ماہا دانیال کی دلہن بن کر آگئی ۔ایسے میں شانی پہ باہر جانے کی دھن سوار ہوگئی وہ تعلیمی ویزے پہ سنگاپور چلا گیا ۔دانیال بزنس کی مصروفیت کی وجہ سے بمشکل ماہا ہی کو وقت دے پاتا ۔ہانیہ اب گریجوشن کر چکی تھی اسے پڑھائی سے خاص دلچسپی نہ تھی ۔سارا دن گھر پہ یا سو کے وقت گذارتی یا نند بھاوج شاپنگ کے لیے نکل جاتیں ۔ثمینہ اب چاہتی تھی کہ ہانیہ کی شادی ہو جائے ۔وقاص احمد کے بڑے بھائی لندن میں ہوتے تھے ان کا ایک ہی بیٹا ،کمال تھا ۔وہ ہانیہ کا رشتہ اس سے کرنے کے خواہشمند تھے۔

گھر کی بات تھی سو فورا ہامی بھر لی گئی ۔کمال جب ماں باپ کے ساتھ لندن گیا تھا تب بمشکل چار برس کا تھا ۔ہانیہ تب ایک سال کی تھی ۔گو ہانیہ کو بیاہ کے لندن ہی جانا تھا ۔اس کے کاغذات بنوانے کے لیے نکاح ضروری تھا ۔باہم مشورے سے فون پہ نکاح کر دیا گیا ۔ہانیہ نے ابھی تک کمال کو ایک دو بار اسکائپ پہ ہی دیکھا تھا اور بات چیت کی تھی کمال کا کہنا تھا وہ اب روبرو ہی ملیں گے وہ بزنس میں بہت مصروف ہوتا ہے مگر ہانیہ کے آنے پہ وہ ورلڈ ٹور پہ جائیں گے اور وہ ہانیہ کو خوب سیر کروائے گا ۔ہانیہ بھی سنہری سپنے بن رہی تھی۔

Pakistan

Pakistan

آخر وہ دن بھی آن پہنچا جب ہانیہ رخصت ہو کر پاکستان سے لندن کی فضائوں میں اتری اس کے تایا اور فیملی اسے لینے آئے تھے تب اس نے پہلی بار کمال کو دیکھا ،قدرے چھوٹا سا قد گہرا سانولا رنگ چہرے پہ چیچک کے داغ اسے بدصورت بنا رہے تھے۔وہ گرم جوشی سے آگے بڑھا اور اس کا ہاتھ تھام لیا ہانیہ کا سفید ہاتھ کمال کے سانولے بالوں والے ہاتھ میں ایک سہمے کبوتر کی مانند لرز رہا تھا ۔کمال نے اس لرزش کو شرم پہ محمول کیا راستے بھر ہانیہ خاموش رہی اس کے سپنوں کا تاج محل کمال کو دیکھتے ہی ٹوٹ چکا تھا ۔مگر گھر پہنچنے تک وہ کافی حد تک خود پہ قابو پا چکی تھی ۔جبکہ کمال کو وہ بہت پسند آئی نازک سی لڑکی جو اس کی ماں کی کسی بات کے جواب میں نظریں جھکائے مسکرا دی تھی۔

تحریر : عفت