گردیال سنگھ : ایک ادیب جو حقیقت بیان کرتا تھا

Gurdial Singh

Gurdial Singh

انڈیا (جیوڈیسک) انڈیا میں پنجابی ادب کے معروف ادیب گرديال سنگھ کا ریاست پنجاب میں83 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا ہے۔ ’مڑي دا دیوا‘ اور ’انھے گھوڑے دا دان‘ ان کے مشہور ناول تھے۔

گرديال سنگھ کو کئی ادبی ایوارڈز اور پدماشري سے نوازا جا چکا تھا۔ ان کے ناول ’مڑي دا دیوا‘ پر سنہ 1989 میں پنجابی فلم بنی تھی جسے قومی ایوارڈ بھی ملا تھا۔

ہدایتکار گرودر سنگھ نے ان کی کتاب ’انھے گھوڑے دا دان‘ پر سنہ 2011 میں فلم بنائی تھی، اسے بھی قومی ایوارڈ ملا۔ گرديال سنگھ کے حوالے سے پر پنجابی ادب کی مشہور مصنفہ دليپ کور ٹيوانا سے بات کی۔

دليپ کور ٹيوانا کہتی ہیں کہ ’گرديال سنگھ نے ہمیشہ حقیقت پسندانہ ناول لکھے جو حقیقت کے انتہائی قریب تھے۔‘ ’گرديال کبھی کسی بحث سے بندھے ہوئے نہیں تھے- کسی ازم میں ان کا بھروسہ نہیں تھا۔ وہ آنکھوں دیکھی حقیقت کو اپنے ناولوں میں بیان کرتے تھے۔‘

’دلیپ کور ٹوانا کے مطابق ان کی تحریروں کی سب سے خاص بات تھی کہ وہ غریب، مجبور، پسماندہ رہنے والے لوگوں کی بات اپنی کہانیوں میں کرتے رہے کیونکہ وہ دل سے نکلی ہوئی بات تھی، وہ خود مشکل حالات اور غربت کا سامنا کرچکے تھے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’اس لیے وہ ان کے الفاظ کے سہارے لوگوں کے دل تک آسانی سے بات پہنچ جاتی تھی۔ وہ ہمیشہ سے اپنے آس پاس کے واقعات، حالات کے بارے میں بڑے بیدار رہتے تھے۔‘

’آج دلتوں، نچلے طبقے سے متعلق زور شور سے آواز اٹھ رہی ہے لیکن گرديال سنگھ نے آج سے کئی دہائیوں پہلے اپنے پنجابی ناول ’مڑي دا دیوا‘ میں اس مسئلے کو اٹھایا تھا۔‘

دلییپ کور ٹوانا کے بقول ان کے ناول کا کردار غریب، استحصال زدہ طبقے کا ہے، وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح اس کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے، کیسی اس کی شادی تک نہیں ہو پاتی … یہ 60-70 کی دہائی کی بات ہے۔ یوں تو گرديال سنگھ نے بہت ناول لکھے ہیں پر میں مڑي دا دیوا کو ان کا سب سے بڑا ناول مانتی ہوں۔

’گرديال سنگھ کی پیدائش ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک ایسے خاندان میں ہوا جو بڑھئی کا کام کرتا تھا۔ ان کے والد چاہتے تھے کہ بیٹا بھی یہی کام کرے۔ گرديال نے کچھ وقت کیا بھی خاندانی کام، پھر کچھ وقت گوردوارے جاکر کیرتن کرنے لگے۔ لیکن انھیں پڑھنے لکھنے کی کا شوق تھا سو گھر پر بیٹھے بیٹھے ہی پڑھائی لکھائی کی اور سکول میں استاد لگ گئے۔‘

دلیپ کور ٹوانا یاد کرتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے جب ایک بار انھوں نے مجھ سے کہا تھا، ’دیدی میرا دل کرتا ہے کہ میں کہیں کالج وغیرہ میں پڑھاؤں۔ انھوں نے یو جی سی کو خط لکھا کہ ان کا جو بھی تخلیقی کام ہے اس کو پی ایچ ڈی سمان سمجھا جائے۔ وہ بات مان لی گئی اور وہ یونیورسٹی میں پڑھانے لگے۔ بعد میں پروفیسر بن گئے۔ وہ پنجابی یونیورسٹی کے بھٹھڈا سینٹر میں پڑھاتے رہے۔‘

دلیپ کور ٹوانا کہتی ہیں کہ اتنے بڑے مصنف ہونے کے باوجود ان کے اقتصادی حالت اچھی نہیں تھی۔ وہ کبھی یہ بات چھپاتے بھی نہیں تھے اور وہی حقیقت كہانيوں میں بھی بیان کرے تھے۔

’دراصل پنجابی ادیب کے لیےقلم کبھی روزگار کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ امرتا پریتم کہا کرتی تھی کہ میں نے 40 کتابیں لکھی ہیں لیکن 100 روپے مہینہ میری آمدنی نہیں ہے۔ گرديال سنگھ کو بھی روزگار کا ذریعہ تلاش کرنا پڑا۔‘