حافظ سعید، نظر بندی کے 100 دن

Cricket

Cricket

تحریر : حفیظ خٹک
پاکستان کا قومی کھیل کہنے کو تو آج بھی ہاکی ہے لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ کرکٹ کو منظم منصوبہ بندی کے ذریعے ہاکی کی جگہ دے دی گئی ہے۔اسی وجہ سے آج ہروطن عزیز کے ہر گھر میں کرکٹ کو بے حد شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم کا کسی بھی ٹیم سے میچ ہو اس دن وطن عزیز میں زندگی رک سی جاتی ہے۔ ہماری سیاسی ، مذہبی اور سماجی جماعتوں سمیت ہر شعبہ زندگی کے لوگ اس کھیل میں بے جا دلچسپی کا مظاہر ہ کرتے ہیں۔ کرکٹ کو کھیل رہے ہوں یا باہر بیٹھ کر اسی گراﺅنڈ میں ، گھر کے ٹی وی کی چھوٹی اسکرین پر یا پھر کسی دیوہیکل اسکرین پر ہو میچ ضرور دیکھتے ہیں ۔ یہ بات کوئی نہیں سوچتاکہ اس قدر اس کھیل سے دلچسپی سے حاصل کیا ہوتا ہے اور اگر کچھ حاصل نہیں ہوتا تو نقصان کیا اور کیسے ہوتا ہے۔

جائزہ لیا جائے تواقوام متحدہ میں 200سے زائد ممبران ہیں۔ عالمی سطح پر دنیا کے ان ملکوں کیلئے ہر چار سال بعد ایک بڑا اور بین الاقوامی کھیلوں کا میلہ ہوتا ہے جسے اولمپکس کہا جاتا ہے ۔ اس اولمپکس میں کرکٹ کے علاوہ سبھی کھیل شامل ہوتے ہیں ۔ مزید غور کیا جائے تو یہ بات واضح نظر آتی ہے کہ عالمی سطح پر کرکٹ دنیا کے چند ممالک میں ہی کھیلی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میںدو ملکوں کے علاوہ کوئی بھی اس کھیل میں دلچسپی نہیں لیتا ہے ۔ اس کے باوجود پاکستان اور اس کے قریبی ملک میں اس کھیل کو اک عروج حاصل ہے۔ ان دونوں ملکوں میں کرکٹ کو ملنے والی پذیرائی کے سبب کشمیر میں بھی اس کھیل کو شہرت حاصل ہے اور وہاں کی عوام بھی کرکٹ کو دیکھتی ہے۔ ماضی سمیت موجودہ دور میں بھی دنیائے کرکٹ کے کسی بھی میدان میں جب بھارت اور پاکستان کا میچ ہورہاہوتاہے تو کشمیری عوام کی تمام تر ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ ہوتیں ہیں ۔ وہاں کی مائیں ، بہنیں ، بچے ، جوان اور بزرگ پاکستان کی کامیابی کیلئے دعاگو ہوتے ہیں ۔ یہ دعائیں کشمیری عوام وطن عزیز کیلئے کرکٹ کے میدانوں میں کامیابی کیلئے ہی صرف نہیں کرتے بلکہ کشمیری عوام پاکستان کیلئے ہر پل کرتے ہیں ۔ کشمیر کی آزادی اور پاکستان سے الحاق کیلئے کرتے ہیں ۔ بھارتی مظالم سے نجات کیلئے جاری جدوجہد میں مجاہدین کی کامیابی کیلئے کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ان پاکستانی رہنماﺅں کیلئے کرتے ہیں جو کشمیری عوام کی جدوجہد کوسراہتے ہیں ۔ ان کیلئے آواز اٹھاتے ہیں اور ہر طرح سے ان کی مدد کرتے ہیں۔

کرکٹ کی باتوں میں ایک بات جو آج کی اس تحریر کیلئے اہمیت کی حامل ہے وہ کسی بھی بلے باز کی سینچری ہے ۔ کوئی بھی بلے باز جب میدان میں دھواں دھار بلے بازی کرتا ہے ۔چوکوں ،چکھوں کی برمار کرتا چلا جاتا ہے اوراپنے 100رنز مکمل کرتا ہے تو پورا میدان اس وقت اس کی کارکردگی پر اسے داد دیتا ہے اور وہ بھی اپنا بلا اٹھا کر ان کی داد و تحسین کا شکریہ ادا کرتا ہے ۔ کرکٹ کی اس سینچری کو عام زندگی میں بھی اہمیت حاصل ہوچکی ہے ۔ کسی بھی طالبعلم کے اگر 100نمبر آجائیں تو وہ بے حد مسرت کا اظہار کرتا ہے۔ نمبروں کی سینچری میں اس کے والدین اور اساتذہ بھی شامل ہوجاتے ہیں۔

کرکٹ کی یہ سینچری مجھ سمیت بہت سوں کو آج اس رہنما کی یاد دلاتی ہے جو روز اول سے کشمیر کی آزادی کیلئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ جو کہ جب تقریر کرتے ہیں تو ان کی باتوں میں کشمیر ہوتا ہے اور جب کوئی مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کشمیر کیلئے کرتے ہیں ۔ کشمیری عوام کے درد کو وہ اپنا درد سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ کشمیری عوام کے مجاہدین کے ساتھ ہوتے ہیں ، وہاں کی ماﺅں ، بہنوں ، بزرگوں اور بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ کوئی بھارتی فوجی جب کسی کشمیری پر ظلم ڈھاتا ہے تو پاکستان میں کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی آواز بعد میں آتی ہے یا آتی ہی نہیں اور حافظ سعید کی آواز فضا میں پہلے بلند ہوتی ہے ۔ کشمیری مجاہدین کی ہر وقت انہوں نے حوصلہ افزائی کی ہے ان کی ہمت وحوصلے کو بڑھایا ہے انہیں بتایا ہے کہ پاکستان کس قدر قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے اور اس آزادی کیلئے انہیں کس قدر قربانیاں دینی ہونگی۔ کمشیر عوام کے بزرگ رہنما گیلانی ، یسین ملک اور میر واعظ فاروق سمیت دیگر سبھی آج حافظ سعید کو یاد کرتے ہیں اور ان کی جلد نظر بندی کے خاتمے کیلئے دعائیں مانگتے ہیں۔

آج حافظ سعید کی نظر بندی کو 100دن ہوگئے ، اس طرح سے آج حافظ سعید کی حکومت پاکستان کی جانب سے بھارتی سرکار کو خوش کرنے کیلئے لگائی گئی نظر بندی کو 100دن ہوگئے لیکن ان سو دنوں میں نہ تو کشمیری عوام کی جاری جدوجہد اک بھی پل رکی ہے اور نہ ہی کسی بھی طرح سے جدوجہد میں کمی آئی ہے ۔ ہاں اضافہ گر ہوا ہے تو وہ بھارت کی جاہلانہ ، ظالمانہ کاروائیوں میں ہوا ہے ۔ انہوں نے کشمیری عوام پر مظالم کے پہاڑ ڈھا رکھے ہیں ، ہر طرح سے کشمیریوں کی آواز کو دبا نے کی اور ختم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ پہلے سے موجود فوج کی تعداد میں اضافہ کیا ہے اس کے ساتھ خواتین فوجیوں کو بھی کشمیر میں لے آئے ہیں جو بھارتی فوجیوں کے مظالم میں ان سے آگے ہیں ۔ لیکن کشمیر عوام کو سلام اور آفرین ہے کہ ان کی جدوجہد حافظ سعید کی نظربندی کے باعث رکھی نہیں بلکہ مزید تیز ہوئی ہے ۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ کشمیری مائیں اور بہنیں بھی بچوں، جوانوں اور بزرگوں کے ساتھ جدوجہد آزادی میں برابر کی شریک ہوچکی ہیں۔

حافظ سعید نے یہ کہا تھا کہ2017کا یہ سال کشمیر کا سال ہے اور ان شاءاللہ اسی سال میں کشمیریوں کی جدوجہد کو کامیابی حاصل ہوگی ۔ مجاہد وطن نے یہ بات تو کہہ دی لیکن اس بات سے بہت زیادہ تکلیف بھارتی حکومت کو ہوئی اور انہوں نے اس کااظہار کشمیر میں مظالم کو بڑھا کر کردیا اس کے ساتھ بھارتی وزیر اعظم مودی نے اپنے دوست نواز شریف سے بھی اس بات پر گلہ کیا جس کے بعد نواز شریف نے حافظ سعید کو اپنے گھر میں نظر بند کر دیا ۔ اس وزیراعظم نے ایک بار بھی یہ نہ سوچا کہ اس رہنما پر اس ملک کے کسی بھی تھانے میں کوئی مقدمہ درج نہیں ہے اور وہ کسی بھی طرح کی غیر قانونی کاروائی تو دور کی بات ہے اس پر کوئی بھی الزام عائد نہیں ۔ماضی میں بھی جب انہیں پابند سلاسل کیا گیا تو کسی بھی عدالت نے انہیں کسی سزا کے بغیر باعزت بری کیا لیکن آج کے ، موجودہ دور کے اس پاکستانی وزیر اعظم نے مجاہدوطن کو نظر بند کر دیا۔

Hafiz Muhammad Saeed

Hafiz Muhammad Saeed

ان کے اس اقدا م پر وطن عزیز کی سبھی جماعتوں نے احتجاج کیا اس اقدام کی مذمت کی اس کے ساتھ عوام نے بھی اس کاروائی کوسخت ناپسند کیا لیکن نواز شریف وہ وزیر اعظم ہیں کہ جو اپنا منصب سنبھالنے کے بعد امریکہ میں برسوں سے قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اہل خانہ سے ملتے ہیں اور ان سے عافیہ کی جلد رہائی کا وعدہ کرتے ہیں لیکن آج تک انہوںنے اس وعدے کو پورا نہیں کیا ،اک ایسا وزیر اعظم پھر کشمیریوں کیلئے کیا آواز اٹھائے گا ؟ اس کا یہ عمل قابل مذمت ہے کہ جب انہوںنے کشمیری عوام کیلئے خود تو کچھ نہیں کیا اور جو کر رہے ہیں انہیں بھی اس جانب مزید کام کو جاری رکھنے سے روکنے کیلئے انہیں نظر بند کر دیا ۔ اس لئے حافظ سعید کی نظر بندی کے 100دن مکمل ہونے پر 18کڑوڑ عوام سے زائد عوام یہ مطالبہ نہیں بلکہ وزیر اعظم کو یہ حکم دیتی ہے کہ وہ فوری طور پر بزرگ مجاہد وطن کو فوری طور پر باعز ت رہا کریں ۔ ان کی نظر بندی ختم کریں ۔ اس کے مثبت اثرات نہ صرف پوری عوام پر مرتب ہونگے بلکہ کشمیریوں پر بھی ہونگے اور اس کے ساتھ ان کی ان دنوں جو کیفیت ہے اور جو حالت ہے اس پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ یہی نواز شریف کیلئے بہتر ہے اگر وہ سمجھیں۔

تحریر : حفیظ خٹک