خوشی و غم کا حسین امتزاج لئے ادبی محفل

Mahfele Adbi Mushaira

Mahfele Adbi Mushaira

تحریر : ناز بٹ
وقت کے جس کٹھور پَن نے ہمیں چہار سَمتوں سے گھیر رکھا ہے ایسے میں محبت کی فضا باندھنا اور محبت بھی شاعری ایسی انصار طبع سے۔۔۔ گویا طبعیتوں کو سْکھ بانٹنے کی ایسی نیکی جس کا تسلسل آتے سَمے کی روح کو بھی سرشار کرتا رہے ، کار ِ محال سہی لیکن جبار واصف کر گزرے ۔ بات ہو رہی ہے صادق کلب اور رحیم یار خان ادبی فورم کے زیر ِ اہتمام ہونے والے نواب سر محمد صادق خان عباسی میموریل مشاعرے کی !! گو کہ رحیم یار خان سے دو بار پہلے بھی جبار واصف نے مشاعرے میں مدعو کیا لیکن یہ سوچ کر کہ اتنی دور کون جائے ،پھر جانے وہاں ماحول کیسا ہو ، تقریب معیاری ہو کہ نہ ہو رہائش کا انتظام کیسا ہو ،دونوں بار معذرت کر لی۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس باردوستوں کی اس یقین دہانی کے بعد کہ جبار واصف بہترین منتظم ہیں اور انکے مشاعرے بھی معیاری ہوتے ہیں ، جبار واصف کے مدعو کرنے پرمشاعرے میں شرکت کی حامی بھر لی اسی دوران رخسانہ نور کی دائمی جدائی کی خبر نے بری طرح نڈھال کئے رکھا ،رو رو کر برا حال ، یہی سوچا کہ اِک بار پھر معذرت کر لوں ، نہیں جاؤں ۔۔۔۔۔ لیکن عفت علوی اور فرحت پروین کے محبت سے سمجھانے پر کہ کمٹمنٹ خراب مت کرو ضرور جاؤ ، سْوجی آنکھوں اورغمزدہ دل کے ساتھ رخت ِ سفر باندھا فاخرہ اور تیمور حسن ساتھ تھے۔۔۔۔ سفراتنا طویل تھا کہ یہی لگتا تھا کہ اب جو بیٹھے ہیں تو پھر بیٹھے ہی رہ جائیں گے۔

میں نے فاخرہ سے سرگوشی کی ، فاخرہ لگتا ہے کہ ہم چلنا بھول چْکے ! بحر کیف خْدا خْدا کر کے ہم رحیم یار خان پہنچے، جہاں جبار واصف پھولوں کے ساتھ ہمارے منتظر تھے ، ہمیں صادق کلب لے جاتے ہوئے مشاعرے کے ہورڈنگزبھی دکھاتے رہے ، ھورڈنگز سے سجے رستے اچھے لگ رہے تھے صادق ریزیڈینسی خوبصورت جگہ ھے جہاں پہنچتے طبیعت بشاش ہوگئی اور نفاست سے سجا ہوا کمرہ دیکھ کر طمانیت کا احساس ہوا شام کو مشاعرہ تھا، سو ناشتہ کے بعد فاخرہ تو محو ِ خواب ہوگئیں لیکن میرا دھیان رخسانہ نور کی طرف تھا ، ساڑھے چار بجے میسج مِلا اک دوست کی طرف سے کہ ” چراغ زمین میں رکھ دیا ” آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ، فاخرہ کی آنکھ کھلی تو حیران ہوئی کہ ناز تم سوء نہیں؟ میں کیا کہتی سوائے اِس کے کہ رخسانہ نور آنکھوں کے سامنے ہیں شام کوہم سب لاؤنج میں اکٹھے ہوئے ، انور مسعود صاحب کی بذلہ سنجی نے محفل کو کشت ِ زعفران بنائے رکھا۔ خاصہ خوشگوار احساس رھا۔

مشاعرے سے قبل پر تکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا جس کے بعد ہمیں مشاعرے کے لئے ہال کی طرف لے جایا گیا بھیگی بھیگی خْنک شام۔۔۔۔ خوشبوؤں روشنیوں اور پھولوں سے سجا ہال۔۔۔۔ اک خواب کا سا سماں پیش کر رھا تھا۔۔۔۔ مہکتے شعرا ، ہال اور نشست کے شفق بار رنگ اس حْسنِ امتزاج کو نظم کرنے والی شخصیت کے جمالیاتی ذوق کی گواھی دے رہے تھے تالیوں گی گونج اور پھولوں کی خوشبوؤں کے حصار میں شعرائ کرام کو رنگ و راشنی سے سجے اسٹیج تک پہنچایا گیا۔۔۔۔ نظامت کی ذمہ داری بہ احسن و خوبی جبار واصف نے نبھائی یوں کہیں کہ نظامت کا حق ادا کیا انور مسعود صاحب کی صدارت میں ایک منظم، شاندار اور یادگار محفل ِ مشاعرہ سجی تھی جس میں مہمانان ِ خصوصی عباس تابش تھے اور مہمانان ِ اعزاز میں سید سلمان گیلانی ، تیمور حسن ، ناز بٹ ، ندیم ناجد اور فاخرہ انجم شامل تھے مقامی شعرا میں محترم اظہر ادیب، کبیر اطہر، جبار واصف، امان اللہ ارشد، ماجد خان ماجد، آفتاب یاسر اور عمیر نجمی شامل تھے۔

Mushaira

Mushaira

تمام شعرا ء کرام کے اعلیٰ سخن نے سماں باندھے رکھا۔۔۔۔۔۔رات 9 بجے شروع ہونے والا یہ مشاعرہ صبح تین بجے اختتام پزہر ھوا ، اس مشاعرے کی اصل رونق وہ پر جوش ، سخن فہم حاضرین ِ محفل تھے جنکی والہانہ داد نے محفل کی شان بنائے رکھی۔۔ مشاعرے کے اختتام پر ہمیں واپس صادق ریزیڈینسی لایا گیا جہاں گرما گرم کافی کا دور چلا ، جبار واصف اور ماجد خان ماجد نے مستقبل کے پروجیکٹس کے حوالے سے آگاہی دی ، صبح ساڑھے چار بجے تک چلنے والی یہ نشست بھی خوب رہی ، پھر سوچا کہ اب تھوڑی دیر آرام بھی کر لیا جائے کہ سید سلمان گیلانی کے مشورے کے مطابق ہمیں صبح آٹھ بجے واپسی کا کشت بھی تو کرنا تھا ،مشورہ خاصہ معقول تھا بلاشبہ یہ ایک شاندار معیاری مشاعرہ تھا اور اس مشاعرے نے ذہنوں پر کئی یادگاراور انمٹ نقوش چھوڑے اس یادگار مشاعرے کی کامیابی پر صادق کلب ایگزیکٹو کونسل اور رحیم یار خان ادبی فورم کی انتظامیہ خصوصاً جبار واصف، ڈاکٹر ماجد خان ماجد، میاں محمد رفیق اور مجیب اکرم کو دلی مبارک باد پیش کرتی ہوں، آپ کی انتظامی صلاحیتیں قابل ِ ستائش! ڈھیرساری محبت اوربے شمار خوشگوار یادیں سمیٹے ہماری واپسی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب سوچتی ہوں توحیرت ہوتی ہے خود پر کہ پہلے کیوں نہ گئی مشاعرے میں!!۔

تحریر : ناز بٹ