ہرمندر سنگھ کا فرار اور گرفتاری بھارت کا نیا ڈرامہ

Harmandir Singh

Harmandir Singh

تحریر : سید توقیر زیدی
کتنی اچھی اور اعلیٰ ترین منصوبہ بندی تھی کہ ضلع پٹیالہ (بھارتی پنجاب) کی اہم جیل سے سخت ترین سکیورٹی کے باوجود خالصتان لبریشن فورس کے سربراہ ہر مندر سنگھ منٹو کو پانچ قتل کے ملزموں سمیت جیل پر حملہ کر کے کو نکال لیا گیا اور پھر بوکھلائی ہوئی پنجاب پولیس نے ایک خاتون کو کار نہ روکنے پر گولی مار دی اور پھر اسی گھبراہٹ میں ہرمندر سنگھ کو پھر گرفتار بھی کر لیا داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ بھارتی انتظامیہ اور حکومت جو بھی منصوبہ بناتی ہے وہ ایسا ہی شاندار ہوتا ہے کہ بادی النظر میں اس پر یقین ہی نہیں ہوتا۔

اس واردات کا انکشاف بھی بھارتی میڈیا نے کیا کہ دس افراد نے پولیس کی وردیوں میں ملبوس جیل پر حملہ کر دیا اور وہاں سے ہرمندر سنگھ سمیت پانچ قتل کے قیدیوں کو چھڑا کر لے گئے اس جیل میں خطرناک قیدی ہیں اور یہاں سکیورٹی بھی سخت ہے اس کے باوجود یہ ممکن ہو گیا اور صرف ایک پہرے دار (چوکیدار) چاقو سے زخمی ہوا۔ فرار کی خبر کے ساتھ ہی صوبائی نائب وزیر اعلیٰ نے الزام پاکستان پر دھر دیا کہ اس واردات کے پیچھے بھی پاکستان کا ہاتھ ہے۔ یوں ایسا محسوس ہوا کہ اب ان مفرور ملزموں یا مجرموں کی زندگی کے دن پورے ہو گئے کہ تھوڑا ہی عرصہ پہلے جھاڑ کھنڈ کی طرف بھی ایسا ہی واقع ہوا۔ بھارتی میڈیا نے جیل سے آٹھ ملزموں کے فرار کی کہانی سنائی جو مسلمان تھے اور پھر اگلے ہی دن وہ سب پولیس سے مقابلے میں پار ہو گئے تھے۔ اب بھی یہی محسوس ہوا کہ خالصتان لبریشن فورس کے سربراہ کو بھی ”فارغ” کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا اور پروپیگنڈے کی توپیں پاکستان کی طرف ہوں گی لیکن حیرت ہے کہ ایک ہی روز کے بعد ہرمندر سنگھ کی زندہ گرفتاری کی خبر نشر کر دی گئی۔ یوں پنجاب مشرقی پولیس اتنی زبردست نکلی۔ بھارتی پنجاب میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے اور پاکستان نشانہ ہے۔

کس قدر حیرت کی بات ہے کہ جو لوگ سخت ترین سیکیورٹی والی جیل سے ایسے خطرناک قیدی کو چھڑا لے جاتے ہیں جو بقول بھارتی حکومت علیحدگی پسند مسلح تنظیم کا سربراہ ہے وہ اتنے ہی بودے ہیں کہ وہ اسے سنبھال کر چھپا بھی نہیں سکے اور اگلے ہی روز اسے گرفتار بھی کر لیا گیا۔ یہ بھی ایک نیا ڈرامہ لگتا ہے اور یہی احساس ہوتا ہے کہ مودی ہی نہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے دوسرے زعمائ بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور پاکستان دشمنی میں اندھے ہو چکے ہیں اس لئے بھارت میں کہیں بھی کچھ ہو جائے بلا سوچے سمجھے الزام پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کو ایسے کاموں کی ضرورت بھی نہیں اسی طرح پہلے بھی پٹھان کوٹ اور اْڑی والے واقعات میں بھارت کو شرمندگی اٹھانا پڑی لیکن اس نے خفت محسوس نہیں کی اور مودی وزیر اعظم ہوتے ہوئے سٹرٹیجک سٹرائیک کا دعویٰ کر دیا اور پھر اسے ثابت بھی نہ کیا جا سکا تاہم یہ بڑے ڈھیٹ لگتے ہیں کہ اب ہرمندر سنگھ کو بھگایا، پھر پکڑ لیا اور نام پاکستان کا لے دیا، پاکستان کی طرف سے آج تک ایک ہی مطالبہ کیا گیا کہ ”ثبوت دو” ”ثبوت دو” اور ایسا ہوا ہی نہیں۔

Harmandir Singh Arrest

Harmandir Singh Arrest

خبر رساں ادارہ بی این پی کے تجزیہ کے مطابق بھارت تو پاکستان دشمنی میں ایسی حرکتیں کر رہا ہے تو ادھر ہمارے اپنے پیارے ملک میں اطمینان نہیں ہے بے چینی کا دور دورہ ہے۔ آج عدالت عظمیٰ میں پاناما لیکس کے مسئلہ پر سماعت ہے آج ہی فوجی کمان تبدیل ہو رہی ہے اور ایک بڑی اور پر وقار تقریب منعقد کی جا رہی ہے ایسے میں ہم محاذ آرائی کو حقیقی جمہوری مخالفت میں تبدیل نہیں کر رہے۔ یہاں بھی بعض فیصلے حیران کر دینے والے ہیں۔ ابھی ابھی پاکستان تحریک انصاف کا فیصلہ سامنے آیا تو دھچکا لگا کہ اطلاع کے مطابق تو تحریک انصاف نے قانون سازی اور آئین میں ترامیم کی مخالفت کے لئے اسمبلیوں کا بائیکاٹ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ویسے یہ بائیکاٹ بھی قومی اسمبلی تک تھا پنجاب اسمبلی میں نہیں کیا گیا۔ اس اطلاع سے اطمینان ہوا کہ اب تحریک انصاف اپنا پارلیمانی کردار بھی ادا کرے گی جو ضروری ہے کہ پارلیمینٹ کے ایوان ہی فورم ہیں جہاں قانون سازی ہوتی ہے اور وہاں کردار ادا کرنا ضروری ہے۔

جب فیصلے کی گھڑی آئی تو عجیب فیصلہ ہوا بتایا گیا کہ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی اور سینٹ کی مجالس قائمہ کا بائیکاٹ ختم کر دیا تاکہ ان مجالس/ کمیٹیوں میں جو قوانین کے مسودات زیر غور آئیں ان پر پارٹی موقف کے مطابق بات کی جائے اور اصرار کیا جا سکے۔ یہ فیصلہ اپنے اندر تضاد کا حامل ہے کہ یہ کمیٹیاں یا مجالس قائمہ بھی تو قومی اسمبلی/ سینٹ ہی کی پیداوار ہیں ان کا بائیکاٹ ختم کرنے کا مطلب تو قومی اسمبلی ہی کے امور میں حصہ لینا ہے یہ کیسا تضاد ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں تو نہیں جائیں گے لیکن ان کی کمیٹیوں میں جا کر بحث ضرور کریں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مشاورت کے وقت غالب اکثریت کی یہی رائے تھی کہ 24 ویں آئینی ترمیم اور دوسرے قوانین کا راستہ روکنا چاہئے۔ عمران خان کو طوعاً وکرعاً یہ تسلیم کرنا پڑا ہے تو انہوں نے اپنی ضد میں سے یہ راہ نکالی ہے کہ یہ سب مجلس قائمہ میں کہا جائے۔ حالانکہ منظوری بہر حال ایوانوں میں ہوتی ہے اس پر کہا جا سکتا ہے دعا کی جا سکتی ہے کہ اللہ حالات بہتر کر دے۔

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی