حیات اندر حیات

Life

Life

تحریر: شاہ فیصل نعیم
انسان دو زندگیاں جیتا ہے ایک خود ی کو جاننے سے پہلے اور ایک خودی میں ڈوبنے کے بعد۔ اگر کسی زندگی کی اصلیت ہے تو وہ موخرالذکر ہے باقی سب خواب ، خیال اور وبال کے سوا کچھ نہیں۔ خودی کو پہچانے بغیر زندگی گورکھ دھندوں کی نظر ہوتی ہے۔ اس دنیا میں آپ کو جتنے بھی کامیاب انسان ملتے ہیں کبھی ان کی زندگیوں کے بارے میں پڑھیں وہ ہمیشہ سے ہی ایسے نہیں تھے۔ وہ بھی ہماری طرح کے ہی عام سے انسان تھے جن کو زندگی گزار رہی تھی۔ ان کی زندگی بھی صبح وشام اور وقت کی قید سے آزاد نا تھی۔ جب وہ لوگوں کے درمیان جاتے تھے تو ان کوبھی اپنا تعارف کرواتے وقت اپنے والدین اور خاندان سے وراثت میں ملی عزت کا سہارا لینا پڑتا تھا تاکہ لوگ انہیں پہچان سکیں کہ اس شخص کا تعلق فلاں خاندان سے ہے ان کی بھی اپنی کوئی عزت نا تھی مگر پھر ان کی زندگیوں میں انقلا ب تب آیا

جب انہوں نے اپنی ایک الگ پہچان بنانے کے لیے کسی راہ کو چن لیا اور فاصلہ کر لیا کہ اب ہم بھیک میں ملی عزت کا سہارا کبھی نہیں لیں گے۔ ناکامیاں ان کے مقصد کی راہ میں حاہل ہوتی رہیں مگر ان کا مقصد اتنا عظیم تھا کہ ہر مشکل ان کی راہ سے ناکام و نامراد لوٹتی۔راستے چننے اور مشکلات کو شکست دینے سے پہلے سوال اٹھتا ہے کہ آپ کی منزل کیا ہے ؟الگ پہچان کے لیے الگ منزل کا ہونا ضروری ہے اور الگ منزل ملتی ہے ایک منفرد سوچ سے۔ وہ بھی ہمارے جیسا ایک عام سا انسان تھا ، اسے بھی زندگی میں مشکلات کے پہاڑوں سے گزرنا پڑا، وہ کوئی بہت زیادہ ذہین نہیں تھا مگر اس کی سوچ جدا تھی، اسے تعلیمی ادارے نے نکال دیا تھا، پھر اُس کی زندگی میں ایک تبدیلی آئی ، وہ چیزوں کو جدا انداز سے دیکھنے لگا، اُس کی باتیں اسے عمر سے کہیں زیادہ بڑا ظاہر کرنے لگیں اور آخر کار اُس کی سوچ اور اُس کے کارناموں نے اُسے بڑا بنا دیا۔

وہ ابھی سترہ سال کا تھا جب اس کے دماغ میں ایک ایسی سوچ نے جنم لیا جو اسے باقی رکھنے کے لیے کافی تھی۔ اس نے سوچا: “ایک وقت آئے گا کہ میں باقی نہیں رہوں گا۔ جب میں نے مرنا ہی ہے تو کیوں نا دنیا کو بدل کرمریں”۔ یہ وہ سوچ تھی جو اسے سترہ سال کی عمر میں عطا ہوئی۔ اب آپ ایسی سوچ رکھنے والے شخص کا نام جاننے کے لیے متجسس ہوں گے۔ تو لوگوں وہ سٹیو جابز کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ اسی نے آئی ٹی۔ کی دنیا میں انقلاب برپا کیا تھا ۔ دیکھو اب وہ اس دنیا میں باقی نہیں ہے مگر اُس کا نام ، کام ابھی تک باقی ہیں اور تا دیر باقی رہنے والا ہے یہ بھی انسان ہی تھا مگر اس نے عام انسانوں سے جو جدا کیا وہ یہ ہے کہ اُس نے خود کو پہچان لیا، اس نے اس سوال کا جواب پا لیا کہ کائنات میں اتنے انسانوں کے ہوتے ہوئے خدا تعالیٰ کی ذات نے مجھے کیوں جنم دیا؟

Thinking

Thinking

میری اکثر باتیں سوچ کے گرد گھومتی ہیں سننے والے اور پڑھنے والے بھی کہتے ہوں گے کہ اسے سوچ کے علاوہ کوئی اور بات نہیں آتی تو ان کے لیے کچھ الفاظ کہہ دیتا ہوں جو میں نے کچھ عرصہ قبل سیکھے تھے۔”اپنی سوچ کو دیکھیں یہ آپ کے الفاظ بن جاتی ہے، اپنے الفاظ پر غور کریں یہ آپ کے اعمال بن جاتے ہیں، اپنے اعمال پر توجہ دیں یہ آ پ کی عادات بن جاتے ہیں، اپنی عادات کو دیکھیں یہ آپ کا کردار بن جاتی ہیں اور آپ کا کردار ہی آپ کی تقدیرہے”۔ انسان کی ساری زندگی جس دائرے کے گرد گھومتی ہے اس کی ابتدا سوچ ہی ہے اگر سوچ اچھی ہے تو انت اچھا اور اگر سوچ بری ہے تو آپ کی انتہا بھی ویسی ہی بری ہوگی۔

Shah Faisal Naeem

Shah Faisal Naeem

تحریر: شاہ فیصل نعیم