بیمار پرسی کرنیوالا جنت کے پھلوں میں رہتا ہے

Health

Health

تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی
فلاح دین و دنیا منحصر ہے تندرستی پر غرض سَو نعمتوں کی ایک نعمتی تندرستی ہے تمام تعریفیں خالق کائنات، مالک ِارض و سماوات کے لئے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ بے حد درود و سلام سرور کائنات، فخر موجودات نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذات بابر کات پر جو تمام جہانوں کے لئے باعثِ رحمت ہیں۔خالق کائنات کے اشرف المخلوقات انسان پر بے شمار انعام و اکرام ہیں۔ اﷲ پاک نے انسان کوبے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ خالق کائنات کی ان بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت تندرستی یعنی صحت بھی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ تندرستی ہزارنعمت ہے۔ تندرستی انسان کے لئے اﷲ رب العزت کی طرف سے ایک ایسی نعمت عظمیٰ ہے جس کا احساس انسان کو اس وقت ہوتا ہے۔ جب یہ عظیم نعمت انسان سے وقتی طور پر چھن جاتی ہے اورانسان کسی نہ کسی بیماری (آزمائش، امتحان) میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔’’اورجب میں بیمارہوں تووہی مجھے شفاء دیتا ہے ‘‘۔(سورۃ الشعراء آیت ۸۰) قدرِ صحت مریض سے پوچھو تندرستی ہزارنعمت ہے

بیماری کوبھی بُرانہیں سمجھناچاہیے کیونکہ بیماری یاتوانسان کے گناہوں کاکفارہ یابلندی درجات کاذریعہ بن جاتی ہے ۔ لیکن یادرہے تندرستی ایک عظیم نعمت ہے جس سے اشرف المخلوقات انسان غفلت میں ہیں ۔مخلوق خدامیں چندخوش نصیب انسان ایسے ہیں جواﷲ رب العالمین کے احکامات کی بجاآوری ،حضورعلیہ الصلوٰۃ والسّلام کی اطاعت بجالاکرخالق کائنات کی بارگاہ میں حضورسجدہ ریزہوتے ہیں ۔بہت ہی کم افرادایسے ہیں جنہیں اﷲ پاک نے تندرستی کی عظیم نعمت سے نوازاہے اوروہ اﷲ پاک کی بارگاہ میں سجدہ شکربجالاتے ہیں ۔ میرے آقاﷺ کافرمان ِ خوشبودارہے ــ’’دوایسی نعمتیں ہیں جن کے بارے میں اکثرلوگ دھوکے میں ہیں وہ (دونوں) صحت اورفراغت ہیں ‘‘۔(بخاری شریف) صحت مند انسان صحت کی قدر نہیں کرتالیکن جب وقتی طورپریہ انسان سے جداہوتی ہے تب انسان کو احساس ہوتاہے ۔کیونکہ آنکھوں جیسی عظیم نعمت کی قدروقیمت اندھے کوہے جوکائنات کے شاہکارنظام کودیکھ نہیں سکتا۔کان کی قدروقیمت بہرے کوہے جوسننے کی طاقت سے محروم ہے۔

زبان کی قدروقیمت گونگے کوہے جوبولنے سے محروم ہے ۔پاؤں کی قدر و قیمت لنگڑے کوہے جوچلنے سے محروم ہے ۔ہاتھ کی قدروقیمت اس کوہے جوہ اتھوں سے محروم ہے ۔اسی طرح صحت کی قدروقیمت کاانسان کوتب پتا چلتا ہے جب وہ بیمارہوتاہے ۔جن لوگوں کے پاس رب تعالیٰ کی تمام نعمتیں موجود ہیں ان میں بہت ہی کم افرادسجدہ تشکربجالاتے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ ارشادفرماتاہے ۔’’قَلِیْلًامَّاتَشْکُرُوْنَ‘‘’’بہت ہی کم شکرکرتے ہو‘‘۔حالانکہ شکر ادا کرنے سے نعمتوں میں اضافہ ہوتاہے ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے’’ اگر تم میراشکرکروگے تومیں تمہیں اوردوں گااوراگرناشکری کروتومیرا عذاب سخت ہے ‘‘۔(سورۃ ابراہیم آیت۷ ) بیماری سے پہلے تندرستی کو غنیمت جاننا چاہیے ۔حضور نبی اکرم ﷺنے حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے فرمایا کہ’’پانچ چیزوں کوپانچ چیزوں کے واقع ہونے سے پہلے غنیمت سمجھنا چاہیے ۔بڑھاپے سے پہلے جوانی کو،بیماری سے پہلے صحت کو، مفلسی سے پہلے تونگری کو،مشغولیت سے پہلے فرصت کو،مرنے سے پہلے زندگی کو‘‘۔(غنیۃ الطالبین) اﷲ رب العالمین کاامت مسلمہ پریہ بہت بڑا احسان ہے کہ وہ ظاہری بیماری جسے ایک عام انسان اپنے لئے مصیبت خیال کرتاہے ۔حقیقت میں وہی ظاہری بیماری کل قیامت کے دن انسان کے لئے راحت وآرام کابڑاذخیرہ بن جائیگی۔

مسلمان کی شان بھی یہی ہے کہ جب مصیبت آئے توصبرکرے اورجب خوشی میسرآئے توشُکربجالائے ۔ سلطان محمودغزنوی کے پاس ایک آدمی ککڑی لیکر حاضرخدمت ہوا۔آپؒ نے وہ ککڑی قبول کرکے پیش کرنے والے کو انعام و اکرام سے نوازا۔پھراپنے ہاتھ سے ککڑی کی ایک پھانک کاٹی اور ایازکوعطاکردی وہ مزے لے لے کرتمام پھانک کھاگیا۔پھرسلطان نے دوسری پھانک کاٹی اورخودکھانے لگے تووہ کڑوی تھی حتیٰ کہ زبان پر رکھنا مشکل تھا۔سلطان نے حیرانی سے ایازکی طرف دیکھا اور فرمایا ایاز ایسی کڑوی توکیسے کھاگیاکہ تیرے چہرے پرناگواری کے ذرہ بھربھی اثرات نمودارنہیں ہوئے ۔توایازنے عرض کیاکہ حضورککڑی واقعی بہت کڑوی تھی۔منہ میں ڈالی توعقل نے کہا’’تھوک دے‘‘مگرعشق نے کہا’’ایازخبردار!یہ وہی ہاتھ ہیں جن سے روزانہ میٹھی اشیاء کھاتارہاہے ۔اگرایک دن کڑوی چیزمل بھی گئی توکیا تھوک دے گا؟اس لئے کھاگیا‘‘۔مسلمان کی شان بھی یہی ہونے چاہیے کہ جس اﷲ تعالیٰ نے انسان پرلاتعداداحسانات فرمائے اگرکبھی اس کی طرف سے کوئی مصیبت آجائے تواسے خندہ پیشانی سے قبول کر لے۔

Doctor and Patient

Doctor and Patient

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آقاﷺ فرماتے ہیں کہ اﷲ پاک فرماتاہے’’ جب میں اپنے بندہ کی آنکھیں لے لوں پھروہ صبرکرے توآنکھوں کے بدلے اسے جنت دوں گا۔(بخاری شریف) بیماری بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کے منافع بے شمارہیں اگرچہ آدمی کوبظاہراس سے تکلیف پہنچتی ہے مگر حقیقتاً راحت وآرام کاایک بہت بڑاذخیرہ ہاتھ آتاہے یہ ظاہری بیماری جس کو آدمی بیماری سمجھتاہے حقیقت میں روحانی بیماریوں کاایک بڑا زبردست علاج ہے حقیقی بیماری امراض روحانیہ ہیں کہ یہ البتہ بہت خوف کی چیزہے اوراسی کومرض مہلک سمجھناچاہیے بہت موٹی سی بات ہے جوہرشخص جانتاہے کہ کوئی کتناہی غافل ہومگرجب مرض میں مبتلا ہوتاہے توکس قدر خدا کو یادکرتااورتوبہ استغفاکرتاہے اوریہ بڑے رتبہ والوں کی شان ہے کہ تکلیف کابھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا۔ حضرت عامرالرامؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے بیماریوں کا ذکر فرمایا اور فرمایاکہ مومن جب بیمار ہو پھر اچھا ہو جائے اس کی بیماری گناہوں سے کفارہ ہوجاتی ہے اورآئندہ کے لئے نصیحت اور منافق جب بیمار ہو اورپھراچھاہواس کی مثال اونٹ کی ہے کہ مالک نے اُسے باندھا پھرکھول دیا تونہ اُسے یہ معلوم کہ کیوں باندھانہ یہ کہ کیوں کھولا۔ایک شخص نے عرض کیا’’یارسول اﷲﷺ!بیماری کیاچیزہے ؟میں توکبھی بیمارنہ ہوا‘‘۔ ’’فرمایاہمارے پاس سے اٹھ جاکہ توہم میں سے نہیں‘‘۔(ابوداؤد)حضرت عثمان غنی ؓ کا ارشاد ہے۔’’جس شخص کودوسال تک کوئی تکلیف نہ پہنچے وہ سمجھ لے کہ اس کاخدااس سے ناراض ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ و ابوس عیدؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ’’ مسلمان کو جو تکلیف وہم وحزن واذیت وغم پہنچے یہاں تک کہ کانٹا جو اس کو لگتا ہے اﷲ تعالیٰ ان کے سبب اس کے گناہ مٹادیتا ہے ‘‘۔(بخاری شریف، مسلم شریف)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے مسلمان پرچھ حق ہیں ۔عرض کیاگیایارسول اﷲﷺ!وہ کون کونسے ہیں توفرمایا’’جب تواُسے ملے توسلام کرے،جب وہ تیری دعوت کرے توقبول کرے،جب وہ تجھ سے خیرخواہی چاہے تواس سے خیرخواہی کر،جب چھینک لے کرالحمدﷲ کہے تواس کاجواب دے یعنی یرحمک اﷲ کہے،جب بیمار ہو جائے تواُس کی بیمارپُرسی کر،جب وہ مرجائے تواُس کے جنازہ کے ساتھ جائے۔(مسلم شریف،مشکوٰۃ)

حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت کہ ہے اﷲ کے محبوبﷺنے ہمیں بیمار کی مزاج پُرسی ،جنازوں کے ساتھ جانے ،چھینکنے والے کے لئے ’’یرحمک اللّٰہ ‘‘ کہنے، قسم کھانے والے کی قسم پوری کرنے ،مظلوم کی امداد کرنے، دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنے اورسلام کوعام کرنے کاحکم دیا۔(بخاری،مسلم)حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ رسول ﷺفرمایا’’بیشک قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ ارشادفرمائے گا:’’اے ابن آدم! میں بیمارہواتونے میری بیمار پُرسی نہ کی ’’۔بندہ عرض کرے گا’’اے میرے رب میں تیری بیمار پُرسی کیسے کرتاتوُتورب العالمین ہے ‘‘(یعنی خداکیسے بیمار ہو سکتا ہے کہ اس کی عیادت کی جائے) ارشاد ہو گا:’’کیاتجھے نہیں معلوم کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور اس کی تونے بیمارپُرسی نہ کی کیاتونہیں جانتاکہ اگراس کی بیمار پُرسی کو جاتا تومجھے اس کے پاس پاتا۔اے ابنِ آدم!میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تونے نہ دیا‘‘بندہ عرض کرے گا’’اے میرے پروردگار میں تجھے کس طرح کھانادیتاتوتورب العالمین ہے‘‘ ۔’’ارشاد ہو گا کیاتجھے نہیں معلوم کی میرے فلاں بندہ نے تجھ سے کھا مانگااور تونے نہ دیاکیاتجھے نہیں معلوم کہ اگرتونے دیا ہوتا تو اسکو(یعنی اس کے ثواب کو)میرے پاس پاتا۔اے ابنِ آدم میں نے تجھ سے پانی طلب کیاتونے نہ دیا‘‘۔بندہ عرض کرے گا’’اے میرے پروردگار میں تجھے کیسے پانی دیتاتوُتورب العالمین ہے ارشاد ہوگامیرے فلاں بندہ نے تجھ سے پانی مانگاتونے اسے نہ پلایااگر پلایاہوتاتومیرے یہاں پاتا‘‘۔(مسلم شریف)

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہواتوحضوراکرمﷺکوبخارتھا۔میں نے اپنے ہاتھوں سے جسم اقدس کوچھواتوعرض کیا’’یارسول اﷲﷺآپ کوتوبہت تیزبخارہے ؟‘‘اﷲ کے محبوبﷺ نے فرمایا’’ہاں!مجھے اس قدربخارہوتاہے جتناتم میں دو شخصوں کوہوتاہے‘‘۔میں نے عرض کیا’’پھرتوآپ کوثواب بھی دوگنا ہو گا‘‘۔آپﷺنے فرمایا!’’ہاں‘‘۔پھرارشادفرمایا’’جس کسی بھی مسلمان کو بیماری کی تکلیف پہنچتی ہے تواﷲ تعالیٰ اس کے گناہوں کواس طرح گرادیتاہے ۔جیسے (موسم خزاں میں)درخت کے پتے جھڑتے ہیں‘‘۔ (بخاری شریف،مسلم شریف ،مشکوۃ )

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا’’قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کواﷲ تعالیٰ ثواب واجرعطافرمائے گا۔تووہ لوگ جن پردنیامیں کوئی بیماری یاتکلیف نہیں آئی تھی ۔تمناکریں گے کہ (کاش)ان کے چمڑے قینچیوں سے کاٹ دیے جاتے‘‘ ۔(ترمذی شریف)

حالت بیماری میں انسان کوچاہیے کہ ہروقت اﷲ رب العالمین کی حمدوثناء ،نبی کریمﷺپردرودوسلام اوراستغفارکرتارہے ۔بیماری کی حالت میں واویلاکی بجائے صبرکرناچاہیے ۔امام قرطبی فرماتے ہیں’’ کہ جب انسان بیماری کی حالت میں(کراہنا)ہائے وائے کرتاہے فرشتے اُسے بھی لکھ دیتے ہیں ۔اس لئے ہائے وائے کی بجائے ذکرواذکارکرتے رہنا چاہئے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے ۔’’کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیارنہ بیٹھاہو‘‘۔(سورۃ ق آیت۱۸)اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتاہے کہ انسان جوبھی گفتگوکرتاہے کراماً کا تبین(فرشتے)اُسے لکھ لیتے ہیں۔حضرت شدادبن اوسؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲﷺکو فرماتے ہوئے سناکہ اﷲ تعالیٰ فرماتاہے ’’جب میں اپنے ایماندار بندے کوکسی بلامیں مبتلاکروں اوروہ اس ابتلاپربھی میری حمدکرے تووہ اپنے بسترسے گناہوں سے ایساپاک ہوکراُٹھے گاجیساکہ آج ہی اس کی ماں نے اُس کوجنااوراﷲ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتاہے کہ میں نے اپنے بندے کو قید کیااورمصیبت میں ڈالا اس کے لئے ویساہی عمل جاری رکھوجیساکہ صحت میں تھا۔(احمد،مشکوۃ )حضرت ابوموسیٰ اشعریؓسے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا’’مریض کی بیمارپُرسی کرو، بھوکے کوکھاناکھلاؤ، اور قیدی کوآزادکرادو‘‘۔(بخاری شریف)حضرت ثوبان ؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺنے فرمایا’’جب کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کی بیمارپُرسی کرتا ہے تووہ خرفۃ الجنۃ جنت کے پھلوں میں رہتاہے جب تک کہ واپس نہیں لوٹتاعرض کیاگیایارسولﷺ!خرفۃ الجنۃ سے کیامرادہے ؟آپﷺنے فرمایاجنت کے پھل‘‘۔(مسلم شریف)

Sick Patient

Sick Patient

حضرت علی المرتضیٰ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے آقائے دوجہاں سرورکون و مکاںﷺکویہ فرماتے ہوئے سنا’’جومسلمان بھی صبح کے وقت کسی مسلمان کی بیمارپُرسی کرتاہے ستر70ہزارفرشتے شام تک اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اوراگروہ شام کے وقت اس کی بیمارپرسی کرے توستر 70ہزار فرشتے صبح تک اس کے لئے دعاکرتے رہتے ہیں اورجنت میں اس کے لئے چنے ہوئے پھل (باغ)ہوں گے‘‘۔(ترمذی شریف)

حضرت انس ؓ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکاحضورﷺ کی خدمت کیاکرتاتھاوہ بیمارپڑگیاتوحضورﷺ اس کی بیمارپُرسی کے لئے تشریف لے گئے حضورﷺ اس کے سرہانے بیٹھے اوراس سے فرمایا’’ اسلام قبول کرلو‘‘اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھاجواس کے پاس ہی تھا اس نے کہا۔ابوالقاسمﷺ کاحکم مانو۔تووہ لڑکااسلام لے آیاحضورﷺ باہرتشریف لائے توآپﷺ فرمارہے تھے ’’تمام تعریفیں اﷲ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے اس کوآگ سے نجات عطافرمائی‘‘۔(بخاری شریف)حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے ارشادفرمایا ’’جب تم کسی مریض کے پاس جاؤتواس کی درازی عمرکے متعلق گفتگوکروتمہاری بات اگرچہ تقدیر کو تو نہیں پھیرتی مگرمریض کادل خوش ہو جاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺنے فرمایا ’’جوشخص مریض کی عیادت کرتاہے وہ دریائے رحمت میں ہوتاہے اورجب وہ عیادت کنندہ مریض کے پاس بیٹھتاہے تو(گویارحمت الٰہی کے )دریامیں غوطہ زن ہوتاہے‘‘ ۔(مالک،احمد،مشکوٰۃ)

بیمار کے پاس بہت زیادہ دیرتک نہیں بیٹھناچاہیے کیونکہ اس سے اہل خانہ یا خود ہی بیمار کے اکتاجانے کااندیشہ ہوتاہے ۔بیمارکے پاس سنجیدگی سے بیٹھناچاہیے شوروغل سے پرہیزکرناچاہیے ۔حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ بیمارکے پاس تیمارداری کرتے ہوئے تھوڑی دیر بیٹھنا اور شورنہ کرنا(رسول اﷲﷺ)کی سنت ہے ۔(مشکوۃ شریف)حضرت سعید بن مسیب ؓ سے ایک مرسل روایت ہے کہ افضل عیادت وہ ہے جس میں مریض کے پاس سے جلداٹھ آئے ۔(مشکوٰۃ عن البیہقی)امیرالمومنین سیدنا حضرت فاروق اعظم ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا ’’جس وقت تم مریض کے پاس جاؤتواس سے کہوکہ تمہارے لئے دعاکرے کہ اس کی دعافرشتوں کی دعاجیسی ہے ‘‘۔(ابن ماجہ)

ام المومنین سیدتنا حضرت عائشۃ الصدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ جس وقت ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا توتاجدارِانبیاء ﷺاس بیمارپراپنادایاں دست انور پھیرتے اورفرماتے ’’اَذْھِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِیْ لَاشِفَاءَ اِلَّاشِفَاءُ کَ شِفَاءً لَّایُغَادَرُسَقَمًا‘‘۔’’اے پرودگارعالم !بیماری کو دور فرمادے اورشفاء عطافرماکیونکہ توہی شفاء عطافرمانے والاہے تیری شفاء کے سواشفاء نہیں ایسی شفاء جوبیماری نہ چھوڑے‘‘۔(بخاری شریف،مسلم شریف)

اﷲ رب العالمین سے دعاہے کہ روئے زمین پرجتنے مسلمان بیمارہیں گھروں میں ،ہپستالوں میں زیرعلاج یاجہاں کہیں بھی ہیں اﷲ پاک سب کو شفائے کاملہ عطاکرے اورہم سب کوبیمارِمدینہ بنائے ۔مالک کائنات ہماری تمام خطاؤں کومعاف فرمائے ۔ہمارے گھربار،کاروبار،جان ومال اوررزق حلال میں برکت عطافرمائے ۔ملک ِ پاکستان کوخوشحالی عطا فرمائے ۔ہم سب کاخاتمہ ایمان پرفرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامینﷺ

Hafiz Kareem Ullah Chishti

Hafiz Kareem Ullah Chishti

تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی
پائی خیل ضلع میانوالی
0333.6828540