ہنری جیمس ادبی دنیا ایک بڑا نام ہے

Henry James

Henry James

تحریر: محمد اشفاق راجا
ایک صدی پر محیط نہایت پیداواری ادبی سفر، ہنری جیمس کے فکشن کی تجدید میں دلچسپی کو ایک سطح پر ماپا جا سکتا ہے اور نہایت آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ محرک اشکال کا ظہور پذیر ہونا جو اس کے ناولوں پرقانع تھیں۔ جیمس کا کام بڑے پیمانے پر جاری تھا کہ اس کی پاپولر سٹیج کے لئے واحد کوشش بری طرح ناکام ہوتی ہے، اس کے کام کو طنز کے طور پر سراہا جاتا ہے، جس میں نفیس بین الاقوامیت شاید دلالت کرے، مضافاتی کثیر عناصر نمونوں کی۔ ہنری جیمس نیو یارک شہر میں 1843 میں پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بہن بھائی تھے ان کے بڑے بھائی ولیم جیمس فلسفی تھے اور ایک بہن ایلس جس نے غیرمؤثر جوانی گزاری ،”جرنلز” میں لکھا جو ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے جس نے اس کے بھائی کے ذوق پر اثرات ڈالے اور اس طرح ادبی ذوق ورثہ میں ملا۔ پر اسرار بیماری کی وجہ سے جنگ کے دوران سول سروسز کو چھوڑ دیا۔ جیمس نے ہارورڈ لا سکول کچھ عرصہ گزارنے کے بعد چھوڑ دیا اور ماہنامہ ایٹلانٹک میں تنقید اور کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔

اس رسالہ کے مدیر ولیم ڈین ہائولز اس کے عمر بھر کے دوست اور مشیر بن گئے۔ جیمس نے 1869 ء میں پہلی بار یورپ کا سفر کیا اور یہ مہم جوانہ جلاوطنی 1875 ء میں ان کی مستقبل سکونت بن گئی، اگرچے وہ اپنی باقی ماندہ زندگی میں صرف ایک بار امریکہ واپس آئے مگر جیمس کے ناولوں کے کرداروں کا حلیہ اور انداز غالب طور پر امریکی رہا۔ اس کا پہلا قابل ذکر ناول ”ڈیزی ملر” 1879 ء میں شائع ہوا۔ جس میں امریکی اور یورپی اطوار اور اخلاقیات کا تصادم دکھایا ہے۔ اس جدید اور مقبول کامیابی کی وجہ سے بہت سے غصیلے ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا کہ جیمس نے اپنی بیرون کی صورت گری میں ” امریکی دوشیزگی ” کو بدنام کیا۔ اس کے پختہ ناولوں میں ”دی امریکن” 1877 ء میں اور” The portrate of a Lady 1881″ ء میں شائع ہوا۔ امریکی حقیقت پسند فکشن میں کلاسیک کا درجہ رکھتے ہیں۔ بعد کے ناول “Wings of the dove” 1902 ء میں اور “The Ambassadors” 1903ء میں شائع ہوا۔ پیچیدہ اسلوب کے حامل ہیں جس میں ایک امریکہ کے دیارغیر میں جستجو ، کھوج اور تجربات کو دکھایا گیا ہے۔

Novels

Novels

جیمس کے مختصر ناولوں میں The Truth of the Screw” 1898″ ء اور 70کے قریب کہانیوں کے موضوعات ، جنات اور نفسیاتی سطح کے ہیں جن کے ذریعے وہ شخصیات کے معموںکو پیش کرتا ہے۔ اس کی بہت سی کہانیاں بیانیہ کی تکنیک سے جڑی ہوئی ہیں جس کا ذکر وہ اپنے تنقیدی مضمون ” دی آرٹ آف فکشن ” میں کرتا ہے۔ کسی کہانی میں اب کردار جو ” ذہانت کا مرکز ” ہوتا ہے جس کا شعور پلاٹ کے اندرونی واقعات کو جوڑتا ہے مگر بعض دفعہ ان کے ربط میں ناکامی ہوتی ہے۔ جیمس کی زیادہ تر فکشن میں واقعات کم اور کرداروں کے مختلف رد عمل زیادہ ہیں اور ان رد عملوں کا رنگ اور احساس کا نازک فرق زبان کے ذریعے اظہار پاتا ہے۔

ترچھا ، نحوی اور مشکل۔ جیمس اپنے استعارات استعمال کرتا ہے۔ جو انسانی حرکات کے دونوں مغالطے اور غیرمغالطے کے الجھے ہوئے طریقہ کار کی پیچیدہ شکل کا فہم رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیںدر حقیقت میں نے اس نقطے کو بد ترین پایا کہ کوئی بھی روپ کسی منظر میںیا ایجنٹ کے کسی بھی ڈرامہ میں اسی وقت دلچسپ ہو گا جب اس کا دیا گیا تناسب ، اس سے متعلق صورت حال کے مطابق ہو گا۔ شعور سے ان کی طر ف سے اس کی پیچیدگی کی اقسام کو دکھانا اور جوڑنا اس صورت حال سے۔ مگر یہاں محسوسات کے درجے ہیں لپٹنا ، بے ہوش ہو جانا یہ صرف کافی ہے، واضح ذہانت جیسا ہم کہتے ہیں شدت اور مکمل پن دنیا میں زیادہ ذمہ دار ہے یہ وہ ہیں جو بعد میں ” زیاد ہ حاصل کرنا ” کا فیشن بن گیا۔ اس سب کے علاوہ جو ان کے ساتھ ہوا اور وہ جو یہ کر کے ہمیں اس قا بل بناتا ہے۔ اپنے معیار کے قاری ، موجود تو جہ میں شمولیت اختیار کر کے ، ہم زیادہ حاصل کرتے ہیں۔ ان کا مکمل طور پر آگاہ ہونا ، جیسا کہ پمفلٹ اور لیٹر کہتے ہیں، ہم آخر کار جان گئے ان کی مہم میں شدت ڈالتے ہیں۔ اس کا زیادہ سے زیادہ شعور دیتے ہیں کہ ان پر کیا نازل ہو رہا ہے۔ ہم دھیان رکھتے ہیں ہمارا متجسس پن اور ہمدردی دھیان رکھتی ہے۔

Story

Story

تقابلی طور پر بیوقوفوں اور اندھوں میں کم فرق رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ؟کہانی کے حصے میں ہم خیال رکھتے ہیں اس کے اثرات کے، کہ گہری موج میں آوارہ پھرنے والے کے اور سب سے ذی شعور کے ساتھ کیا ہوا۔ ہم اس پر بارش برسا کر مدد کرتے ہیں ہیلمٹ اور لیئر اپنے مقاصد میں گھرے ہیں اور اندھوں اور بیوقوفوں میں گھرے ہیں جو کہنے کو منسٹر اور وزیر ہیں تمام صورت حال میں اپنی موجود قسمت ہیں۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہانی اس کے بیوقوفوں کے بغیر ممکن نہیں۔ زندگی کے بہتر مصوروں نے یہی کیا ہے۔ شیکسپیئر ، سرونٹیز ، بالزاک ، فیلڈنگ ، سکائوٹ، تھیکرے ، ڈکنز ، جورج میرڈتھ ، جورج ایلیٹ ، جین ا?سٹن نے شدت سے محسوس کیا اور اس لمحے، میں یہ صفائی بھی مانگتا ہوں ، میں نے ان کا انسانی زندگیوں کو حاصل خطرات میں کوئی گہری دلچسپی نہیں دیکھی مگر شعور میں بڑے پیمانے پر موضوع میں شدت تلاش کرنے کے لئے یہ ایسے منعکس ہوتی ہے جیسے موٹے ”فول” میں ، بڑے ہوتے سروالے ”فول” میں۔یہ مہلک ”فول” ہمارے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں اگرچہ اپنے آپ میں ان کے پاس ہمیں ظاہر کرنے کو بہت کم ہوتا ہے۔ ہماری زندگی کی مشکلات ہمارے موضوع کے مرکز میں ہوتی ہے۔

ہمارا موضوع کچھ بھی ہو ، اس فنکارانہ گھنٹے میں ، جو کچھ ہوتا ہے ، ان کو شرمندہ کرتا ہے اور وہ غصے اور لطف اندوزی کے انداز میں وہ زیادہ تر درست ہوتے ہیں ،مشکل کے ہر معاملے میں۔ اس کا مطلب ہے بالکل اسی طرح ایک آدمی سوچنے کے قابل ہوتا ہے، موجود معاملے میں کسی بھی دوسرے کی طرف کہ وہ کیا محسوس کرتا ہے اور بچائو کیسے کرتا ہے اور اس کا اظہار ڈرامائی اور مقصدی طور پر کیسے ہوتا ہے اور یہ ایسی شخصیت کی وجہ سے ہوتا ہے جسے ہم خوبصورت تصور نہیں کرتے۔ جسے ہم گھٹیا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں اسے پھینک دو خوبصورت اور چیز کی قدر کو کسی کے ذاتی معاشقوں کے معاملے میں ، اس میں اپنی بھر پور دخل اندازی کرتے ہیں ،غلط انداز میں ہم منظر کو مدہم اور معمولی بنا دیتے ہیں۔عظیم سرگشت نویس اس سے بخوبی آگاہ ہیں وہ کچھ معاملوں پر اپنے ذہن میں واضح کرتے ہیں، منعکس کرنے کی حس میں ، رنگوں کے ذریعے ، عام مہم جو کی ملکیت میں ، یہ اکیلے ، ان کے لئے دلچسپی اجاگر کرنے کے لئے جیسا کہ ان کی ناکامیوں نے کیا۔٭٭٭٭٭٭٭٭

Mohammad Ashfaq Raja

Mohammad Ashfaq Raja

تحریر: محمد اشفاق راجا