ہمالیہ سے بلند سمندوں سے گہری شہد سے میٹھی پاک چین دوستی

 Pak-China Friendship

Pak-China Friendship

تحریر : میر افسر امان
وقت نے ہمیشہ پاک چین بارے اس کہاوت کو سچ ثابت کیا ہے کہ واقعی پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندروں سے گہری اور شہد سے بھی میٹھی ہے۔پاک چین دوستی کی بنیا داس وقت سے قائم ہے جب پاکستان نے چین امریکا تعلوقات کی بنیا دکے لیے دونوںملکوں کے رابطہ کرانے کاآغاز کیا تھا۔اس وقت سے پاک چین ایک دوسرے سے اندرونی بیرونی محاذ وںپر مشاورت اور یکجہتی ترقی کی راہیں طے کر رہے ہیں۔چین نے پاکستان کے اشتراک سے دنیا کا آٹھوں عجوبہ شاہرہ ریشم تعمیر کی۔١٩٦٥ء میں پاک بھارت جنگ کے موقعہ پر پاکستان کی مدد کی جب ہمارے دوست نما دشمن امریکا نے باوجود سینٹو سیٹو دفاہی معاہدے کے ہماری مدد نہیں اور دفاہی اسلح کے پرزے تک دینے سے انکار کر دیا جو اسلح دیا بھی تھا وہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے خلاف استعمال کرنے سے روکا اور اس کی یہ بھونڈی تاویل پیش کی کہ یہ اسلحہ بھارت نہیں روس کے خلاف استعمال کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔

اگر دیکھا جائے توروس سے پاکستان کی کوئی دشمنی نہیں تھی۔ یہ تو امریکا کی سازش تھی کہ بڈھ بیر پشاور سے روس کی جاسوسی کے لیے اپنایو ٹو جاسوس طیارہ اُڑیا تھاجس کو روس کی فضائوں میں روس نے مار گرایا تھا اور کہا تھا کہ ہم نے پاکستان میں بڈھ بیر پر سرخ نشان لگا دیا ہے۔ امریکا کی پیدا کردہ اس پاک روس دشمنی کی ہی وجہ سے روس نے ١٩٧١ء کی پاک بھارت جنگ میں اپنی ایٹمی گن بوٹس کی وجہ سے پاکستان کی بحری ناکہ بندی کر کے بھارت کو پاکستان توڑنے میں مدد کی تھی۔ اندرون خانہ صلیبی امریکا نے بھی نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو پسند نہ کرتے ہوئے بھارت کی پاکستان توڑنے میں مدد کی تھی۔ اس کی تصدیق اس وقت کے امریکا کے یہودی وزیر خارجہ ہنری کیسنگر نے اپنی کتاب میں اعلانیہ ذکر بھی کیا ہے کہ پاکستان توڑنے میں امریکا نے بھارت کی مدد کی تھی۔ یہاں تک کہ پاکستان ٹوٹنے کے بعد بھار ت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کوہنری کیسنگر نے یقین دلایا تھا کہ امریکا پاکستان کو ایٹمی قوت حاصل نہیں کرنے دے گا۔

اس پر ایٹمی قوت کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو وارنینگ بھی دی تھی۔ ١٩٧١ء کی پاک بھات جنگ میں پاکستان بے وقوف بنانے کے لیے یہ شوشہ بھی چھوڑا گیا تھا کہ دفاہی معاہدے سیٹو سیٹو کے تحت پاکستان کی مدد کے لیے امریکا کا ساتوں بیڑا چل پڑا ہے۔ عجیب چل پڑا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے غدار شیخ مجیب کے ساتھ مل کر مکتی باہنی بنا کرپاکستان کے دو ٹکڑکر دیے مگر امریکا جوپاکستان کا دوست نما دشمن تھا کا بحری بیڑا پاکستان کی مدد کے لیے کبھی بھی نہیں آیا۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکا سے اپنی سلامتی کے لیے اسلح خریدا مگر امریکا نے پاکستان پر ناروا پابندیاں بھی لگائی رکھیں۔ پاکستان کے دشمنوں کے اس پروپیگنڈے میں وزن آنے لگا کہ پاکستان امریکا کا کرائے کا فوجی ہے۔امریکا نے پاکستان اور افغان مجائدین کی مدد سے روس کو افغانستان میںشکست سے دو چار کیا اور دنیا میں اپنے یک قطبی نظام نیو ورلڈ آڈر کا ڈول ڈالا ۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے امریکا کی ایک ٹیلیفون کا پر اس کے سامنے ڈھیر ہو گیا اور پڑوسی مسلمان ملک پر حملے میں امریکی کی لاجسٹک سپورٹ کی حامی بھر کر افغانستان کو تورا بورا بنا دیا۔ امریکا نے اپنی اس جنگ کو پاکستان میں منتقل کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں گوریلہ جنگ ہو رہی ہے۔ یہ تو پاک فوجی کی ضرب عضب رد الفساد ایکشن کی وجہ سے امن قائم ہوا ہے۔کیا کیا بیان کیا جائے پاک امریکا نام نہاد دوستی کی بڑی دکھ بھری داستان ہے۔

اس کے مقابلے میں چین نے ہمیشہ پاکستان سے دوستی نباہی۔ جب سب دنیا نے پاکستان کو پرامن ایٹمی توانائی کے لیے ایٹمی ری ایکٹر دینے سے انکار کر دیا تو چین نے پاکستان کو پرامن ایٹمی توانائی کے لیے چشمہ اور کراچی کے لیے ایٹمی ری ایکٹر مہیا کیے۔ ٹیکسلا میں ہیوی ریبلٹ فیکٹری بنائی جس میں پاکستان نے الخالد ٹینگ تیار کیا۔ کامرہ میںتھنڈر طیارے بنانے میں شراکت کی جس کی شراکت سے پاکستان نے یہ لڑاکا جہاز تیار کیا اور اسے دنیا کو فروخت کرنے کے لیے بھی پیش کیا۔١٩٦٥ء کی جنگ میں پاکستان کی مدد کی۔ بین لاقوامی فورمز پرکشمیر کے مسئلہ پر ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی۔ پاکستان کو ایٹمی سپلائر گروپ میں شمولیت کی لیے مدد کر رہا ہے۔۔ جبکہ بھارت کو ایٹمی سپلائر گروپ میں شرکت نہ کرنے کی پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتا ہے۔پاکستان کو شنگھائی تعاون فورم میں مستقل نمائندے بننے میں مدد کی۔

پاکستان میں توانائی، ٹرانسپورٹ اور معدنیات نکانے کے کئی منصوبوں چین کے تعاون سے مکمل ہو رہے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا چھالیس ٤٦ ارب ڈالر کا اقتصادی معاہدہ پاک چین اقتصادی رہداری سی پیک کی بنیاد رکھی۔ گوادر سی پورٹ بنانے میں مددکی۔صاحبو! ہر ملک کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ ٹھیک ہے پاکستان کی مدد کرنے میں بھی چین کے اپنے ملک کے مفادات ہیں اور ہونے بھی چاہییں۔پاکستان میں چین کے تعاون سے چلنے والے تونائی، ٹرانسپورٹ اور معدنیات نکالنے کے منصوبے سے پاکستان کو بھی فاہدہ پہنچ رہا ہے۔ اس وقت چین دنیا میں سب سے زیادہ اشیاء بنانے والا ملک ہے۔ اپنی ان اشیاء کو بیرون منڈی میں ترسیل کے لیے اسے راستے چاییے ہیں جس کی وجہ سے پاک چین اقتصادی رہداری کی بنیاد رکھی۔ پہلے سے شاہراہ ریشم کے زمینی روٹ سے اس نئے روٹ پر گوادر تک اپنی اشیاء پہنچانے میں کم وقت اور کم لاگت آئے گی۔ پھر گوادر سی پورٹ سے پوری دنیا میں چین کی یہ تیار کردہ اشیاء پہنچائی جائیں گی۔ اس میں چین کا فاہدہ ہے۔ اس روٹ کے بننے اور گوادر سی پورٹ کے بننے سے پاکستان میں اقتصادی انقلاب آئے گا جس سے پاکستان کو بھی فاہدہ ہو گا۔ اس کی اہمیت کا اندزاہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو پاک چین اقتصادی راہداری ایک نظر بھی پسند نہیں۔ اس کو ثبوتاژ کر نے کے لیے بھارت نے اعلانیہ فنڈ مختص کیے ہیں۔ آئے دن بلوچستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہا ہے۔ بھارت اور ملک دشمن لابی نے دوواقعات کی بنیاد پر آجکل یہ پروپگنڈا مہم شروع کی ہے کہ چین کی پاکستان پر عدم اعتماد کا کیا ہے۔ ایک یہ کہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات نہیں کی۔

دوسرا کوئٹہ میں چین کے ایک جوڑے کا اغوا پھر قتل۔ اس پر چین کی وزارت خارجہ نے بر وقت بیان میں چین نے پاکستان پرعدم اطمینان کی خبروں کی سختی سے تردید کی اور کہا ہے کہ دونوں ملک روایتی دوست اور سدا بہار اسٹریجیک شرکت دار ہیں۔ چینی وارات خارجہ نے واضع ہے کہ شنگھائی تعاون اجلاس میںچینی صدر کے پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات کی خبریں بے بنیاد ہیں۔ چینی صدر نے پاکستانی وزیر اعظم سے شنگھائی اجلاس میں کئی دفعہ ملاقات کی اور بات چیت بھی کی ہے۔ چینی جوڑے کی ہلاکت پر پاکستان کی وزرات داخلہ نے آئیندہ ایسے واقعات روکنے کے لیے جامع پالیسی کا اعلان کر کے دشمنوں کے پرپیگنڈے کا بروقت توڑ بھی کر دیا ہے۔ دشمن کا کام افوائیں پھیلانا وہ پھیلاتا رہے گا مگر پاک چین دوستی واقعی ہمالیہ سے بلند، سمندروں سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے جو سدا بہار اور دونوں ملکوں کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیشہ قائم رہے گی انشا اللہ۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان