ہم تاریخ کے ایک مضحکہ خیز دور میں ہیں

Panama Leaks Case

Panama Leaks Case

تحریر : ایم آر ملک
تاحد نظر نظریاتی اور اخلاقی دبائو کا زوال ہے ،سچ کا قحط ہے ،ضمیر اور احساسات کی ارزانی ہے میڈیا کی صفوں میں ”آئیڈیالوجی ” کا چہرہ مسخ ہورہا ہے مفادات کے آزادانہ کھیل میں حب الوطنی اپنا مقدمہ ہار رہی ہے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداربکائو اور ضمیر فروش تنگ نظر تعصبات قوم کے شعور پر زبردستی مسلط کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیںنظریاتی طبقہ میں بد گمانیوں اور انحرافی رحجانات کو تقویت دینے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں کیا پاک فوج کے ادارے کے خلاف ڈان لیک کے آئینہ میں اُبھرنے والے چہروں کو بھلایا جاسکتا ہے سکرپٹ لکھنے والوں سے ہر محب وطن آشنا ہے تیز رفتار تبدیلیاں کسی پر رحم نہیں کھاتیں ،جمہوریت میں عوامی شمولیت نظر آتی ہے کیا ہمارے ہاں ایسا ہے ؟اخلاقی گراوٹ کے پس منظر میں بننے والاکمیشن بھی اُنہی کی کارستانی ہے اقتدار والوں کی تخلیق ہے مگر اب یہ تضاد مستقل نہیں چل سکتا تاریخی عمل امکانات کو جنم ضرور دیتا ہے مگر ان امکانات کو ٹھوس حقائق کی شکل خود انسان دیا کرتے ہیں حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ صفحہ قرطاس اور نیوز چینلز خصوصاًنیو نیوز چینل ،اے آر وائی اور بول ٹی وی پرسچائی کا پرچار کرنے والی شعوری مداخلت تاریخ کی کایا پلٹنے کا نقطہ آغاز ہے وہ طاقت اور فیصلہ سازی کو سماج کے رگ و پے کی طرف منتقل کر نے میں مصروف عمل ہیں۔

ایک متروک نظام کی حتمی شکست پر وہ مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں چھ بار پنجاب اور تین بار وفاق میں کرشماتی سیاسی اتھارٹی کا نشہ ٹوٹنے کا آغاز ہو ا چاہتا ہے آپ بیہودہ نقالی کو عوام کی خدمت کا نام نہیں دے سکتے جرائم کا دفاع ہٹ دھرمی سے ہمیشہ نہیں کیا جاسکتا عمران کو عوامی حمایت اور پذیرائی کے باوجود ان قوتوں کی طرف سے اعصاب شکن کیفیت کا سامنا ہے جو سٹیٹس کو ٹوٹتا دیکھ رہی ہیں مگر اُس کے عزم ،حوصلے اور مستقل مزاجی کے ساتھ جدو جہد کو داد دیئے بغیر چارہ نہیں کہ وہ ایک تاریخی فریضے کی تکمیل کو ممکن بنانا چاہتا ہے یہ کریڈٹ کپتان کو ہی جاتا ہے کہ پانامہ کا معاملہ بتدریج سامنے آتا چلا گیااور حاوی ہوتا گیا ایک لمبے عرصے تک دو پارٹیوں کی فریب زدگی سے نکلنے کیلئے عرصہ درکار ہے شعوری برتری ،جرات مندانہ موقف ،بے لوث کمٹ منٹ آخری تجزیئے میں آبرو مندانہ فتح کی ضمانت ہوتے ہیں۔

فیصلہ کن تاریخی لمحات میں مستعد اور دور اندیش افراد کبھی نہ دیکھی گئی ایسی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں جو تاریخی عمل کا رخ موڑ دیتی ہے پانامہ کا معاملہ تحریک انصاف کا ذاتی معاملہ نہیں حکومتی حواریوں کے بے ہنگم اور لغو شور وغل میں 20کروڑ لوگوں کا سکتہ ٹوٹا تو لفظ جمہوریت گالی بن جائے گا پانامہ میں ایک قطری شہزادے کی ڈرامائی انٹری سچائی کے چہرے پر ایک رقیق اور زہریلہ وار ہے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھوائے گئے محض چند الفاظ کو ٹھوس اور ناقابل تردید ثبوت تصور کر لیا گیا۔

PPP

PPP

بھٹو کی پارٹی اب دو زرداریوں کے شکنجے میں ہے جہاں تاحد نظر باپ بیٹے نے مفادات کی بساط بچھا رکھی ہے ایک جعلی قیادت کی بے بصیرتی ہے جس نے بھٹو کی پارٹی کو مفاہمت ،مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا پارٹیوں پر جب زوال آتا ہے تو اس زوال کی اپنی خصلتیں اور خصوصیات ہوا کرتی ہیں یہی خصلتیں ،یہی خصوصیات اس زوال کی شدت اور اثرات کا تعین کرتی ہیں فطرت کی طرح سیاست بھی خلا کو پسند نہیں کیا کرتی دو پارٹیوں کی مفاہمت کی سیاست میں اُبھرنے والے خلا کو تحریک انصاف نے پر کرنے میں دیر نہیں لگائی مفاہمت کے کچے دھاگے کو اکتاہٹ نے توڑ کر رکھ دیا عوام خصوصاً نئی نسل مایوسیوں سے اُمید کی طرف سفر کرتے جمود کی آخری سطح کو کراس کرنے کی کوشش میں رواں دواں ہیں وہ ایک متحرک قوت کے طور پر روایت کو بدلنے کے خواہاں ہیں فخر ایشیاء کی پارٹی ایک شاہانہ اور مطلق العنان سیاسی ڈھانچے کے سوا کچھ نہیں۔ عوامی اضطراب کے سامنے کبھی بھی کوئی نہ ٹھہر سکا تاریخ کے اوراق تاحد نظر اس اضطراب کے پس منظر میں اُبھرنے والی انقلابی تبدیلی کے عکاس ہیں محض اس بنا پر کہ کرہ ارض پر پھیلی ریاستوں میں بدعنوانی سیاست اور معیشت کو امربیل کی طرح لپٹے ہوئے گھن کی طرح کھائے جارہی تھی یہ عوامی بغاوت کی ہی لہر تھی جس نے رومانیہ میں چائو شسکو کی حکمرانی کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے لاکھڑ کیا۔

نومبر 1989 میں چیکو سلواکیہ کے صدر مقام پراگ میں عوامی نفرت کی آگ نے تاریخ کو بدل دیا ،دوسری جنگ عظیم کے بعد روسی واحد پارٹی کی خو نخوار حکمرانی جس میںمخالفین کے خلاف جبرو تشدد ،اور ریاستی پولیس جو مطلق العنانیت کی بے دام غلام تھی جس کے ہرکارے ہر گلی ،ہر محلے ،ہر گھر ،ہر سکول ،ہر کالج ،ہر کھیت ،ہر کارخانے پر نگراں تھے ،وہاں سرکشی کا تصور تک ناممکن تھا مگر جبر کی انتہاء کے سامنے عوام کھڑے ہوگئے جب عمومی سطح پر قانون اور ضابطے غائب ہو چکے ہوں اور طاقت شاہرات پر ہو تو عوامی غیظ و غضب کی زد میں مطلق العنانیت کا وجود روئی کے گالوں کی طرح بکھر جاتا ہے مشرقی جرمنی کی عوامی بغاوت نے دیوار برلن پر چوٹ لگائی آمرانہ حکمرانی کے نشے میں کرہ ارض پر کوئی حکمران ایسا نہیں گزرا جس نے تاریخ سے سبق سیکھا ہو ،اُس کے کان تاریخ کی آہٹ سننے سے بہرہ ہوجاتے ہیں۔

پانامہ لیکس میں ضیاء باقیات کی آمریت کا بھی حشر ہونے والا ہے تحریک انصاف کا کمیشن سے انکار سیاسی بصیرت کا شاخسانہ ہے حکمرانوں کی جھوٹ در جھوٹ کی سیاست سے عوامی غم و غصے کی آگ ایک انقلابی طوفان میں بدل رہی ہے سرمایہ دار حکمرانوں کی ایک بڑی حمایتی پارٹی عوامی ساکھ کھو چکی ہے مفاہمت کی سیاست کو کپتان نے ننگا کردیا ہے عوام کیلئے دو پارٹیوں کے اٹوٹ گٹھ جوڑ کی محض ایک مثال ہی کافی ہے کہ راحیل شریف کی توسیع کے معاملے پر اسلام آباد کے حکمرانوں نے دبئی میں زرداری سے باقاعدہ رابطہ کیا۔

M.R.Malik

M.R.Malik

تحریر : ایم آر ملک