ایماندار ویٹر

Waiter

Waiter

تحریر : عبد الرزاق
جس معاشرے میں اہل، قابل اور ذہین افراد غم روزگار کی گرفت میں ہوں اور نکمے ، نااہل اور خوشامدی کلیدی عہدوں پر براجمان ہوں ۔ جس معاشرے میں حلال حرام کی تمیز ختم ہو جائے۔ جس معاشرے میں اعلیٰ اقدار کا جنازہ نکل چکا ہو ۔ جس معاشرے میں انصاف کا قتل معمول ہو۔ جس معاشرے میں غریب کی حیثیت جانوروں سے بد تر ہو ۔ جس معاشرے میں رشوت، سفارش اور اقربا پروری کا رواج عام ہو ۔ جس معاشرے میں قدر و منزلت کا معیار دولت ہو۔ جس معاشرے میں دولت اور رشتوں کا چولی دامن کا ساتھ ہو ۔ دولت کے روٹھ جانے پر رشتہ دار بھی روٹھ جاتے ہوں ۔ جس معاشرے میں عبادت تک دکھاوا بن جائے ۔ جس معاشرے میں سخاوت واہ واہ کی طلبگار ہو ۔ جس معاشرے سے محبت، الفت، خلوص، ہمدردی اور احساس رخصت ہو جائے ۔ جس معاشرے کے افراد کی مسکراہٹیں جھوٹی ہوں اور وہ منافقت کی چال میں ماہر ہوں ۔ جس معاشرے کے افراد احسان فراموش ہوں ۔ جس معاشرے میں بزرگوں کا احترام ، اساتذہ کی تکریم قصہ پارینہ بن چکی ہو ۔ جس معاشرے میں والدین کی خدمت کا جذبہ آخری ہچکیاں لے رہا ہو ۔جس معاشرے کے افراد کے دل و دماغ کی ڈکشنری سے امانت، دیانت، شرافت، صداقت جیسے الفاظ متروک ہو چکے ہوں ۔ جس معاشرے میں کمزور بے قصور جیل کی ہوا کھا رہا ہو اور طاقت ور مجرم سر عام دندناتا پھر رہا ہو۔

جس معاشرے میں جھوٹ ، فریب اور دھوکہ دہی آرٹ کا درجہ اختیار کر جائے ۔ جس معاشرے میں برتری ، عظمت، مرتبہ،مقام اور حیثیت کی بنیاد علم کی بجائے مال و دولت ہو ۔ جس معاشرے میں ایماندار کو سزا دی جاتی ہو اور کرپٹ کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جاتے ہوں ۔ جس معاشرہ میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس جیسا محاورہ صد فیصد پورا اترتا ہو ۔ جس معاشرے میں امیر اور غریب کا فرق بحر بیکراں سے بھی تجاوز کر جائے ۔جس معاشرے میں فحاشی و عریانی فیشن کے روپ میں رقص کناں ہو تو پھر یہ سوچ تو ذہن میں جگہ پا جاتی ہے کہ کیا ایسا معاشرہ اسلامی ثقافت کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ ایسا معاشرہ ہرگز اسلامی روایات کا امین نہیں ہو سکتا ۔ محض اسلام کا نام استعمال کر کے اور مسلمان کا لبادہ اوڑھ لینے سے اسلام کی حقیقی روح جسم میں داخل نہیں ہوتی ۔ ایمان کے غیر حاضر ہونے پر محض زبانی کلامی اسلامی اقدار کی مہر سینے پر چسپاں نہیں ہو سکتی بھئی مومن کی نشانی کچھ اور ہے ۔بندہ مسلم کی پہچان کچھ اور ہے ۔مرد مومن کے اوصاف کچھ اور ہیں ۔ بندہ لاثانی کا مقام کچھ اور ہے۔

مرد قلندر کی زندگی کچھ اور ہے ۔ ہم کب تک اس زعم میں مبتلا رہیں گے ہم مسلمان ہیں ۔ ہم مسلمان تو ہیں لیکن کیسے مسلمان ہیں یہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا ہو گا ۔ ایسے حالات میں جب کسی جانب سے کسی شخص کی ایمانداری کی خبر کسی ایسے لکھاری کے کانوں تک پہنچے جو معاشرے میں موجود برائیوں کی نشاندہی کرتا ہو ۔ جو معاشرتی زندگی میں موجود سقم کی جانب توجہ دلاتا ہو ۔ جو معاشرے کی تعمیر کے ضمن میں اپنا معمولی سا حصہ ڈالنے کی سعی کرتا ہو ۔ اس کے لیے ایسی خبر اور وہ شخص بڑا معتبر ہوتا ہے جو معاشرے کی ڈگر سے ہٹ کر کوئی قدم اٹھائے ۔ گذشتہ دنوں گلبرگ کے ایک مشہورریسٹورنٹ گلوریا جین پر کام کرنے والے ایک ویٹر کو کسی شخص کی دس لاکھ کی خطیر رقم ملی جو اس نے نہایت ایمانداری سے متعلقہ شخص کے حوالے کی ۔اگرچہ بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ نظر آتا ہے لیکن مجبوریوں کے چنگل میں جکڑے ہونے کے باوجود اور ایک ایک نوالے کو ترسنے والوں کا یہ طرز عمل کسی صورت بھی معمولی نہیں ہے ۔ میں سیلوٹ کرتا ہوں اس ویٹر کو جس نے یہ کارنامہ انجام دیا اور ایمانداری کو اپنے ماتھے کا جھومر بنایا۔

Pakistan

Pakistan

کاش میرا وطن پاکستان جنت کا ایسا ٹکڑا ہو جس میں صرف راحتیں ہی راحتیں ہوں سکون ہی سکون ہو او ر یہ اخوت و بھائی چارے کا عملی نمونہ ہو ۔خوشحالی کی دوڑ میں سب سے آگے اور پرشکوہ تہذیب و تمدن کا مینارہ ہو ۔میرے وطن کے باشندوں کے چہروں پر تفکر کی بجائے دائمی مسکراہٹ رقصاں ہو ۔ میرے وطن کا کسان اپنے چہرے پر طمانیت کی مسکان سجائے کھیت کھلیانوں کو آباد کرے ۔میرے وطن کے مزدور کے اوقات تلخ نہ ہوں وہ ہنستا ، مسکراتا اپنا کام انجام دے ۔ اسے اپنے بچوں کی تعلیم کی فکر ہو نہ اپنی بیٹیوں کی شادی کی عمر گزر جانے کا غم اور نہ ہی اسے قبل از وقت بڑھاپا اپنی لپیٹ میں لے ۔میرے وطن کا ڈاکٹر مسیحائی کا عملی نمونہ ہو وہ حسب نسب اور مقام و مرتبہ کو بالائے طاق رکھ کر مریض کا علاج کرے اور حقیقی معنوں میں اپنے سر پر خدمت انسانیت کا تاج سجائے ۔ میرے وطن کا کوئی مریض علاج کی غرض سے بیرون ملک سفر نہ کرے بلکہ اسے علاج کے لیے ہر سہولت اپنے ہی ملک میں میسر ہو ۔میرا وطن تعلیمی میدان کا دلہا ہو ۔ تعلیم کے حصول کے لیے ہر عام و خاص کو برابری کی بنیاد پر مواقع ملیں اور میرے وطن کا طالب علم پوری دنیا میں اپنے وطن کا نام روشن کرے ۔پوری دنیا کے اہل فکر لوگ میرے وطن کے نوجوانوں کی ذہانت و فطانت کے گیت گائیں اور پھر میرے وطن کا استاد معاشی تنگدستی سے آزاد ہو تاکہ جب وہ طالب علموں کو علم کے سمندر کی سیر کروا رہا ہو تو اس کے چہرے پر معاشی فکر کی کوئی لہر موجود نہ ہو۔

وہ اپنے علمی افکار سے معاشرے کی ایسی تعمیر کرے کہ مشرق اور مغرب میں تہلکہ مچ جائے ۔ باہر سے طالب علم حصول تعلیم کی خاطر پاکستان آئیں اور پاکستانی تعلیمی اداروں کی ڈگریاں باعث فخر ہوں اور میرے وطن کے اساتذہ باعث اعزاز ہوں ۔میرا وطن کرپشن سے پاک ہو ۔ پورا معاشرہ ایمانداری جیسے وصف سے مزین ہو ۔ ہر ادارہ صاف اور شفاف ہو ۔ ایماندار کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے اور بد عنوان و بے ایمان کے لیے ہمارے دل میں قطعی جگہ نہ ہو میں تو دعا گو ہوں میرے وطن کا تاجر سچا، کھرا اور ایماندار ہو ۔پوری دنیا آنکھیں بند کر کے ہم سے لین دین کرے ۔ میرے وطن کا تاجر زبان کا پکا اور تول کا پورا ہو ۔ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ ،جھوٹ اور دھوکہ دہی جیسی خرافات کی رمق تک اس کی رگوں میں شامل نہ ہو ۔ میرے وطن کا عالم دوسرے فرقہ کے عالم سے بغض، کینہ اور عناد نہ رکھتا ہو بلکہ وہ دوسرے کسی عالم کی عزت اور وقار کا یوں خیال رکھے جیسے وہ اس کا بھائی ہو ۔ میرے وطن کا عالم بھائی چارے کی فضا کو فروغ دینے کے لیے پورا زور لگائے۔

ایک دوسرے کو کافر قرار دینے والوں کی حوصلہ شکنی کرے اور اپنے درس میں طالب علموں کود وسر ے فرقوں کے علما سے محبت اور تعظیم و تکریم سے پیش آنے کی تلقین کرے ۔میرے وطن کا سیاست دان اپنی سیاسی دکان سجاتے وقت اپنے مفاد کو ملک کے مفاد پر ترجیح نہ دے ۔ وہ عہد کرے کہ اس کی ایک ایک جنبش ملکی مفاد کے لیے وقف ہو گی اور وہ سیاست کو عبادت کا درجہ دینے کی بات کو محض نعرہ کی حد تک محدود نہ رکھے گابلکہ اس کو عمل کی پوشاک بھی پہنائے گا ۔میرے وطن کا صحافی ہمیشہ قلم کی حرمت کا پاسبان رہے اس کی قلم کی نوک سے نکل کر الفاظ جب صفحہ قرطاس پر بکھریں تو ان سے سچائی، حق گوئی اور غیر جانبداری کی خوشبو آئے ۔میرے وطن کا وکیل قانون کا رکھوالا ہو۔ وہ قانون کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے تن من نچھاور کر دے ۔ اس کا ہر عمل اس بات کا عکاس ہو کہ وہ قانون کو کس قدر عزیز گردانتا ہے اور خود قانون شکنی کا تصور بھی نہ کرے ۔ میرے وطن میں عدلیہ کا نظام اس قدر متحرک، فعال اور انصاف پسند ہو کہ قوم کے ہر طبقہ کے دل میں یہ احساس جاگزیں ہو جائے کہ اسے ہر حال میں انصاف میسر ہو گا ۔ پاکستانی عدالتیں مقدمات کا فیصلہ سالوں میں نہیں ہفتوں میں نمٹانا شروع کر دیں۔

Justice

Justice

عدل کا نظام ہر قسم کے دباو سے آزاد ہو اور ہر غریب و امیر اس کی نظر میں ایک جیسے ہوں ۔ میرے ملک کا ہر ادراہ کارکردگی کے اعتبار سے بے مثال ہو ۔پاک فوج کا مقام، طاقت اور رعب و دبدبہ دنیا بھر کے ممالک کی افواج سے بلند ہو ۔ میرے وطن کی پولیس فرض شناس، چست اور عوام کی محافظ ہو اور اپنے مشن پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی جیسے سلوگن کی حقیقی معنوں میں پاسداری کرے ۔طاقت ور کے ساتھ کندھے سے کندھا ملانے کی بجائے غریب عوام کے ساتھ کھڑی ہو ۔ میرے وطن کیدھرتی کا ایک ایک کونہ امن کا گہوارہ ہو اور دہشت گردوں کا کہیں نام و نشان نہ ہو اور خدا کرے ہماری آنے والی نسلیں دہشت گردی لفظ سے ہی ناآشنا ہوں ۔ وطن میں نوجوانوں کے لیے روزگار کا حصول کوئی مسلہ ہی نہ ہو ۔ ہر تعلیم یافتہ نوجوان کو میرٹ پر نوکری دستیاب ہو اور وہ اپنی صلا حیتوں ، قابلیتوں اور اہلیتوں کو بروئے کار لا کر ملک کا نام روشن کرے۔

میرے وطن کے حکمران سادگی کا عملی نمونہ ہوں اور ان کا ہر اقدام ملک و ملت کی فلاح کے لیے ہو ۔ وہ پیکر فہم و فراست ہوں فیصلہ سازی کے جوہر سے مالا مال ہوں اور خوف خدا کے احساس سے ان کا دل لبریر ہو۔عوامی خدمت ان کا مطمع نظر ہو ۔ اللہ کی خوشنودی ان کا حاصل زندگی ہو۔ غریب کی عزت نفس کا خیال رکھنے والے ہوں اور وہ اپنی ہر پالیسی ضرورت مندوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھ کر بنائیں ۔میرا وطن خود دار، خود مختار اور خوشحال ہو۔ کسی دوسرے ملک کو جرات نہ ہو کہ وہ میرے وطن کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر سکے ۔ میرا وطن امداد لینے والا نہیں امداد دینے والا بن جائے۔ اس کے ہاتھ میں بھیک کا کشکول نہیں بلکہ سخاوت کا پیالہ ہو۔

میرے ملک کا نظام، اقدار اور روایات اسلام کے تابع ہوں ۔ مذکورہ تمام خواہشات عملی صورت اختیار کر کے ہماری آنکھوں کے سامنے رقص کناں ہو سکتی ہیں اگر ہم بحیثیت قوم عزم صمیم کر لیں کہ ہماری قوم کا ہر فرد قومی آن ، بان اور شان کی سربلندی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے گا

Abdul Razzaq

Abdul Razzaq

تحریر : عبد الرزاق

Waiter

Waiter