شہد انفیکشن کے مقابلے کے لیے موثر

Honey

Honey

برطانوی محققین کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں داخل مریضوں میں شہد اور پانی مل کر پیشاب کے انفیکشن کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

ایسے مریضوں میں عام طور پر پیشاب کے اخراج کے لیے کیتھیٹر لگا ہوتا ہے، تاہم اس کی نالیوں میں کئی قسم کے جراثیم نشو و نما پا کر مریض میں انفیکشن پیدا کر سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف ساؤتھیمپٹن کے سائنس دانوں نے دکھایا ہے کہ پانی ملا پتلا شہد بعض جراثیم کو پلاسٹک اور اس قسم کی دوسری سطحوں پر چمٹنے سے روکتا ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیتھیٹر جب تک مثانے میں ہے اس وقت تک پتلا شہد اسے صاف رکھ سکتا ہے۔

تاہم انسانوں میں اس کی افادیت جاننے کے لیے مزید تجربات کی ضرورت ہے۔

شہد صدیوں سے قدرتی جراثیم کش کے طور پر استعمال ہوتا چلا آیا ہے۔ لوگ اسے زخموں اور جلی ہوئی جلد پر لگا کر اس کا علاج کرتے رہے ہیں۔ کئی کمپنیاں ’میڈیکل گریڈ‘ شہد کی مصنوعات فروخت کرتی ہیں جو طبی اداروں کے معیار کے مطابق ہوتی ہیں۔

تجربہ گاہ میں ہونے والے تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشاب کے زیادہ تر انفیکشن کا باعث دو جرثومے ہوتے ہیں، ای کولائی اور پروٹیئس میرابلس۔

شہد کو اگر 3.3 فیصد تک بھی پتلا کر دیا جائے تب بھی جراثیم کو آپس میں جڑنے اور سطحوں پر اکٹھا ہونے سے روک دیتا ہے۔

ڈاکٹر بشیر لوالیڈ نے اپنے تجربے میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے آنے والا منوکا شہد استعمال کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ دوسرے اقسام کے شہد بھی کام کر سکتے ہیں تاہم انھوں نے ان پر تجربات نہیں کیے۔ ’یہ بات کسی کو معلوم نہیں ہے کہ شہد جراثیم کش کیوں ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہمیں ابھی معلوم نہیں ہے کہ انسانی جسم شہد کو مثانے کے اندر کیسے برداشت کرے گا۔‘

پروفیسر ڈیم نکی کلم کہتی ہیں کہ یہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن یہ دلچسپ ہے اور اس پر مزید کام ہونا چاہیے۔