غیرت کے نام پر قتل میں اضافہ تشویشناک ہے

Protest

Protest

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل میں حالیہ مہینوں میں ہونے والا اضافہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور سماجی حلقوں کے لیے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔

تازہ ترین واقعہ جنوبی پنجاب کے ضلع وہاڑی میں دو روز قبل پیش آیا جہاں ایک بھائی نے اپنی پسند سے شادی کرنے والی دو بہنوں کو شادی سے ایک روز قبل فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

سرگانہ نامی گاؤں میں 20 اور 25 سال کی دو بہنوں نے اپنی پسند سے شادی کے لیے لڑکوں کا انتخاب کیا تھا جس پر ان کا بھائی ناصر حسین ناخوش تھا۔

ملزم اپنی بہنوں کو ہلاک کرنے کے بعد فرار ہو گیا جسے تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا لیکن پولیس نے اس کے دیگر دو بھائیوں کو حراست میں لے کر تفتیش شروع کر رکھی ہے۔

رواں ماہ ہی سماجی رابطوں پر اپنی بے باک وڈیوز اور متنازع بیانات کے باعث شہرت پانے والی ماڈل قندیل بلوچ کو بھی جنوبی پنجاب کے ضلع ملتان میں ان کے بھائی نے “خاندان کی بدنامی” کا موجب قرار دیتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

غیرت کے نام پر قتل پاکستان میں کوئی غیر معمولی واقعات نہیں ہیں لیکن خاص طور پر قندیل بلوچ کے قتل کے بعد سے ان کی روک تھام کے لیے حکومت پر موثر قانون سازی کے لیے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔

گزشتہ ہفتے ہی پارلیمان کی ایک مشترکہ کمیٹی نے غیرت کے نام پر قتل اور انسداد عصمت دری کے دو بل اتفاق رائے سے منظور کیے تھے جنہیں جلد ہی پارلیمان میں منظوری کے لیے پیش کرنے کا بتایا گیا ہے۔

مجوزہ قانون میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعے میں قصاص کا حق تو برقرار رکھا گیا ہے لیکن ایسے مقدمات میں پہلے کی طرح فریقین کو اپنے طور پر صلح کا حق حاصل نہیں ہو گا۔

خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن خاور ممتاز نے اتوار کو کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں حالیہ اضافے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پہلے ایسے واقعات محض چند مخصوص علاقوں تک ہی محدود تھے لیکن حالیہ مہینوں میں یہ ملک کے کئی اور علاقوں میں بھی رونما ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

“اصل میں تعداد بڑھی ہے یا ان کی رپورٹنگ بڑھی ہے یہ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن اگر رپورٹنگ بڑھی ہے تو یہ بھی ایک طرح کی علامت ہے کہ لوگ اب اس قسم کے قتل کو برا سمجھتے ہیں اور اس کی رپورٹنگ ہو رہی ہے لیکن جتنی تعداد میں یہ ہو رہے ہیں وہ تشویشناک ہے۔”

ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی ایک اچھی پیش رفت ہے لیکن قانون کے مؤثر نفاذ کے لیے حکومت کو مزید کئی اقدام کرنا ہوں گے۔

“جب تک سزائیں نہیں ہوں گی، اور لوگ سمجھیں کہ وہ قانون سے باہر نکل سکتے ہیں تو اس قسم کا جرم ختم نہیں ہو گا اور پھر ایک اور چیلنج ہے، اس (قانون کے نفاذ) کا بہت کچھ انحصار تفتیش پر ہو گا، تفتیش کیسی ہو رہی ہے، استغاثہ کیا کر رہا ہے۔”

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات پر انسانی حقوق کی بعض بین الاقوامی تنظیمیں بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے اس کے سدباب کے لیے اقدام کرنے کا مطالبہ کر چکی ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف ایسے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ خواتین پر ہر طرح کے تشدد کا خاتمہ ان کی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔