غیرت کے نام پر

Honour Killing

Honour Killing

تحریر : غلام حسین محب
پاکستان میں اکثر کسی نہ کسی علاقے سے غیرت کے نام پر قتل کی خبریں گردش کرتی سنائی دیتی ہیں اور انسانی حقوق کے نام پر کام کرنے والی تنظیموں کو تبصروں اور تنقید کا موقع ملتا ہے۔اور پھرمیڈیا میں یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ کیا خواتین ہی کو کیوں غیرت کے نام پر قتل کیاجاتاہے ؟ دانشور وں کی طرف سے غیرت کی تشریح مختلف انداز میں کی جاتی ہے کہ غیرت یہ ہے اور یہ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ کطھ عرصہ پہلے قتل ہونے والی قندیل بلوچ میڈیا میں خبروں اور تبصروں کی زینت بنی رہی ۔ اس طرح کے واقعات قبائل، پختونخوا،بلوچستان اور سندھ میں پیش آتے رہے ہیں البتہ گزشتہ کچھ عرصے سے پنجاب سے بھی اس قسم کے واقعات سامنے آئے ہیںجن میں سے بعض ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں جن میں ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی ہے۔جن پر تشویش کا اظہار کافی نہیں بلکہ سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔مگر کئی ایسے واقعات بھی اس میں شامل ہیں جن کو غیرت کا نام تو دیا گیا مگر اصل حقیقت کچھ اور نکلی ۔جنسی زیادتی کے واقعات کی شرح بھارت میں کہیں زیادہ ہے مگرپاکستان میں بھی اس طرح کے واقعات میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔

جہاں تک مجھے یاد ہے پختون معاشرے خصوصاً قبائل میں اس طرح کے قتل معمولی شک و شبے کی بنا پر ہوتے تھے یہاں تک کہ اگر کوئی مرد کسی خاتون سے کسی شخص کا پوچھتا کہ وہ کہاں ہونگے یا فلاں کا گھر کہاں ہے اور ایسے میں کوئی دیکھتا تو دونوں کو قتل کرنا غیرت اور پختون روایات کے عین مطابق سمجھا جاتاتھا۔اس طرح بے گناہ افراد قتل کردئیے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ تعلیم عام ہوتی گئی اور اس قسم کے معمولی بات پر قتل کرنے کے واقعات میںکمی آئی البتہ غیرت کے نام پر قتل جیسے وقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تازہ ترین واقعات میں لاہور کا واقعہ سب سے ہولناک تھا جب پسند کی شادی کرنے پر والدہ اور بھائی نے ملکر لڑکی کو زندہ جلایا۔

گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی کئی لڑکیوں اور ماڈل نے ٹی وی اور میڈیا کی زینت بننے کے لیے مختلف قسم کے حربے اپنا کرسستی شہرت اپنانے کی کوشش کی یہاں تک کہ کئی ایک نے بھارت جا کروہاں کی فلم انڈسٹری میں گھس کر جگہ بنانے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے انہوں نے تمام حدیں کراس کیں۔ ہمارے دانشور اور انسانی حقوق تنظیمیں قندیل جیسی لڑکی کے قتل پرشور مچاکر انسانی حقوق کی پامالی کہتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ غیرت کے نام پر قتل اس صورت میں غلط ہے جبکہ ایک لڑکی گھر سے بھاگ کر یا چھپ کر اپنی مرضی سے شادی کرتی ہے اور گھر والے اس کو یالڑکے سمیت قتل کردے۔ جو کہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے اور جس کی مثالیں ہری پور،لاہور اور کئی مقامات میں لڑکی کو زندہ جلانے اورتشدد کرکے قتل کرنے کی صورت میں سامنے آئی ہیں۔ ایسا قتل واقعی بڑا ظلم ہے کیونکہ اسلام میں رشتہ کرتے وقت لڑکا لڑکی دونوں کی مرضی معلوم کرنا ضروری ہے۔ ایک ایسی صورت حال جب سامنے آتی ہے جو قندیل کے ساتھ ہواکہ اس نے میڈیا پر آکرنام کمانے کے لیے اخلاقی اور مذہبی حدود پامال کیں۔

Media

Media

سوشل میڈیا پر ننگے ناچ اور فحش ویڈیوزچلائیں اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ اس پر فخر بھی کرتی رہی تو یہ ”دانشور” مجھے بتائیں کہ یہ حق اس کو کس نے دیا ہے خاص کر پاکستانی معاشرے میں جبکہ قندیل کا تعلق تو بلوچ قبیلے سے تھا جو کہ ایک پختون قبائل کی طرح خصوصی روایات پر سختی سے کاربندہیں اور وہ ان روایات کو مذہبی عقیدے کا درجہ دیتے ہیں تو وہ کس طرح برداشت کر سکتے ہیںکہ انکی بہن، بیٹی کھلم کھلا اس طرح کی حرکتیں کرے۔پاکستان کے تاریک ذہن ”روشن خیال” تو عورت کو ہر قسم کی آزادی کے حق میں ہیں لیکن یاد رکھیں کہ ہم اپنے آپ کومسلمان کہلانے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں جبکہ مسلمانوں کے لیے حضور اقدس ۖ کا واضح فرمان موجود ہے جب انہوں نے تین قسم کے لوگوں کے بارے میں بتایاکہ وہ ہر گز جنت میں نہ جاسکیں گے جن میں ایک ” دیوث ” بھی شامل ہے صحابہ کرام نے پوچھا یا رسول اللہ ۖ دیوث سے کون مراد ہے تو انہوں نے فرمایاکہ وہ شخص جو اپنی بہن،بیوی،بیٹی وغیرہ سے متعلق جانتا ہو کہ وہ غیر مردوں سے ملتی ہے یا تعلق رکھتی ہے اور وہ پھر بھی چشم پوشی کرے۔

دوسری طرف ہمارا امیر طبقہ تو بہت پہلے ”روشن خیالی” میں ترقی کر چکا ہے۔ جبکہ اب تو امیر وغریب کی کوئی قید نہیں ٹی وی چینلز اورفلموں میں انکی بیٹیاں نام کما رہی ہیں اور والدین ان پر فخر کرتے نظر آتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ مِیر ا ، انیتاایوب، سلمیٰ آغا،وینا ملک جیسی لڑکیاں بھارت جاکر اپنے خاندان تو کیا تمام پاکستان کو دنیا کے سامنے ننگا کرے۔ اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ پاکستا نی معاشرے میں ابھی اس کی گنجائش نہیں البتہ روشن خیال اور لبرل لوگ اس وقت کا انتظار کرے جب زنا اتنی عام ہوگی جتنے یہاں چائے کے ہوٹل ہیں اور یہ دنیا کے خاتمے کا وقت ہوگا جس کے بارے میں ہمارے پیغمبرۖ نے فرمایا کہ اس وقت وہ شخص ولی اللہ ہوگا جو اتنا کہہ دے کہ تھوڑے چھپ کر زنا کرو یوں سرعام نہ کرو۔ ایک بات قابل غور ہے کہ ہم نے آج تک غیرت کو نہیں سمجھا کہ غیرت ہے کیا چیز جبکہ علامہ اقبال نے فرمایا۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دؤ میں پہنا تی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

غیرت ہر وہ عمل ہے جو کسی غیر انسانی اور غیر اخلاقی واقعے یاظلم کے خلاف انسان کرتا ہے جس کی مثالیں تاریخ میں موجود ہیں مثلاً محمد بن قاسم نے داہر کی قید میںایک عورت کی آواز پرغیرت میں آکرسندھ پر حملہ کرکے قبضہ کیا یہاں کے ہندؤں کواندھیروں اور غلامی سے نجات دلادی۔ اس غیرت کی وجہ سے آج وادیٔ سندھ سے پنجاب تک مسلمان ہیں۔سلطان صلاح الدین ایوبی نے یروشلم پر حملہ کرکے بیت المقدس کو آزاد کرایاجبکہ آج مُٹھی بھر اسرائیل کے سامنے ایک ارب سے زیادہ مسلمان بات تک نہیں کرسکتے۔کیونکہ غیرت کا جنازہ نکل چکا ہے۔ہم یہاں غیرت کے نام پر قتل کی بحثوں میں الجھ گئے ہیں اور اسے انسانی حقوق کی سکت خلاف ورزی قرار دیکر یورپ اور ”ترقی یافتہ” ممالک کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ شام میں روزانہ درجنوں خواتین کی بے عصمت دری کی جاتی ہے سینکڑوں بچوں کو قتل کیا جاتا ہے اسی طرح عراق اور کشمیر میں روز کا معمول بن چکا ہے اور فلسطین میں تو باقاعدہ فتویٰ جاری ہوا ہے کہ مسلمان خواتین کو زبردستی ریپ کرنا جائز ہے۔ شام میں اب تک چار لاکھ سے زیادہ انسانوں کو قتل کیا جاچکا ہے اگرعالمی ایجنڈامسلم دشمنی پر مبنی ہے تو کم از کم انسانیت کا لحاظ تو کرنا چاہیے تھا۔ کہاں ہے ہماری غیرت اور کہاں ہیں انسانی حقوق تنظیمیں؟؟۔

Ghulam Hussain Mohib

Ghulam Hussain Mohib

تحریر : غلام حسین محب