ہارٹی کلچر انڈسٹری کی ترقی کیلیے فریم ورک کی تیاری شروع

German Textile

German Textile

کراچی (جیوڈیسک) پاکستان کی ہارٹی کلچر انڈسٹری کی مستحکم بنیادوں پر ترقی کے لیے قومی سطح پر فریم ورک کی تیاری کا کام شروع کر دیا گیا ہے، فریم ورک کی تیاری کا مقصد ہارٹی کلچر سیکٹر میں فارم کی سطح سے لے کر صارف تک کے مراحل میں درپیش مسائل اور رکاوٹوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ماہرین کی آرا کی روشنی میں ان کا حل تجویز کرنا ہے۔

فریم ورک کی تیاری کے لیے سندھ، بلوچستان، پنجاب، کے پی کے اور گلگت بلتستان کی صوبائی حکومتوں، متعلقہ سرکاری محکموں، تحقیقی اداروں اور نجی شعبے کے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا عمل آئندہ ماہ سے شروع کردیا جائے گا جبکہ صوبائی سطح پرمشاورت مکمل ہونے کے بعد قومی سطح کی کانفرنس کے ذریعے ماہرین کی سفارشات مرتب کرکے وفاقی حکومت کو ارسال کی جائیں گی، ہارٹی کلچر سیکٹر کی ترقی کے لیے قومی فریم ورک کی تیاری کا بیڑہ ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹ نے اٹھایا ہے۔

جس میں خصوصی طور پر ہارٹی کلچر سے متعلق بین الاقوامی سطح کے تحقیقی ماہرین کو شامل کیا گیا ہے، کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو فیڈریشن ہاؤس کراچی میں کمیٹی کے چیئرمین وحید احمد کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں سی اے بی آئی کے ریجنل ڈائریکٹر برائے وسطی و مغربی ایشیا ڈاکٹر بابر ای باجوہ، ڈاکٹر سہیل، پی سی ایس آئی آر کے ڈاکٹر عمر، عبدالمالک، اسلم پکھالی، بسم اﷲ خان و دیگر نے شرکت کی۔ وحید احمد نے نیشنل فریم ورک فار ہارٹی کلچر ڈیولپمنٹ کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اس فریم ورک کی تیاری کا مقصد ہارٹی کلچر سیکٹر میں موجود امکانات اور چیلنجز کی نشاندہی کرتے ہوئے قلیل مدتی، وسط مدتی اور طویل مدتی پالیسیوں کی تشکیل اور قومی منصوبہ بندی کے لیے روڈ میپ تشکیل دینا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس فریم ورک کے ذریعے پاکستان میں زرعی مصنوعات کے معیار کو بہتر بنانے کے ساتھ پیداوار میں اضافہ، نئی ورائٹیز کی تیاری، ویلیو ایڈیشن کے علاوہ تحقیق کے رجحان کو فروغ دینے، سپلائی چین سے متعلق مسائل اور انفرااسٹرکچر کی بہتری کے لیے تجاویز مرتب کی جائیں گی۔ یہ روڈمیپ پاکستان میں ہارٹی کلچر سیکٹر کی ترقی کے ساتھ برآمدات میں اضافے کے لیے بھی تجاویز مرتب کرے گا بالخصوص بلوچستان اور گلگت بلتستان سمیت کے پی کے، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں جدید اصولوں کے مطابق منظم فارمنگ اور سہولتوں کی فراہمی کے لیے تجاویز مرتب کی جائیں گی۔

انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کی حکومت اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے ذریعے فریم ورک کی تیاری کا عمل شروع کیا جائے گا، صوبائی سطح پر مشاورت کے بعد قومی کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں ماہرین اور متعلقہ حکام نجی شعبہ مل کر حتمی سفارشات مرتب کریں گے، اس کانفرنس میں غیرملکی ماہرین سمیت پاکستان کے بڑے کاروباری گروپس اور سرمایہ کاروں کو بھی مدعو کیا جائے گا تاکہ ہارٹی کلچر سیکٹر میں سرمایہ کاری کے امکانات اجاگر کیے جاسکیں۔ کانفرنس میں ہارٹی کلچر سیکٹر سے متعلق نئی ٹیکنالوجی اور سلوشنز پیش کرنے کے لیے ملکی و غیرملکی جامعات، ایگری کلچر سے متعلق تحقیقی اداروں اور نجی کمپنیوں کو بھی مدعو کیا جائے گا۔

اس موقع پر سی اے بی آئی کے ریجنل ڈائریکٹر ڈاکٹر بابر ای باجوہ نے فریم ورک کی تیاری کے مراحل پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ فریم ورک میں فارم کی سطح پر پیداوار سے متعلق مسائل، سپلائی چین سے متعلق مسائل، حکومتی اداروں کی کارکردگی، ریگولیشنز اور پالیسیوں پر عمل درآمد، کلائمٹ چینج، ڈیمانڈ سائڈ کے مسائل اور تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی اور وفاقی سطح پر مشاورت کی جائیگی۔ اجلاس میں شریک پی سی ایس آئی آر کے محقق ڈاکٹر عمرنے فریم ورک کی تیاری میں پاکستانی جامعات، تحقیقی اداروں اور ٹیکنالوجی فراہم کرنے والے اداروں کی مشاورت کو اہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی جامعات اور تحقیقی ادارے زرعی شعبے کو درپیش مسائل کا کم لاگ میں موثر حل فراہم کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، فریم ورک کی تیاری اور نیشنل کانفرنس کے ذریعے انڈسٹری اور تحقیقی و تدریسی اداروں کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

اس موقع پر پی ایف وی اے کے چیئرمین عبدالمالک نے کہا کہ پی ایف وی اے قومی فریم ورک کی تیاری کے لیے ہرممکن مدد فراہم کرے گی۔ اجلاس میں شریک بلوچستان کے نمائندے بسم اﷲ خان نے کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقے انگور، انار، سیب، ترش پھلوں، چیری اور اسٹاربیری کی کاشت کے لیے موزوں ہیں، سی پیک منصوبے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان اپنی زرعی مصنوعات بڑے پیمانے پر چین، روس، وسط ایشیائی ریاستوں کو ایکسپورٹ کرسکتا ہے تاہم اس مقصد کے لیے بلوچستان میں متعلقہ سہولتوں اور انفرااسٹرکچر کی فراہمی ناگزیر ہے، بلوچستان میں ادرک اور لہسن کی بھی کاشت شروع کردی گئی ہے جو مقامی طلب پوری کرنے کے ساتھ درآمدات پر خرچ ہونے والے کثیر زرمبادلہ کی بچت کا بھی زریعہ بن سکتا ہے اور بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے میں غربت میں بھی کمی لائی جاسکتی ہے۔