اک خطاعرش سے فرش پر پٹخ دیتی ہے

Panama leaks

Panama leaks

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
مائیں، بہنیں اور بیٹیاں کسی بد ترین دشمن کی بھی ہوں قابل عزت و تکریم ہوتی ہیں اور جو ان رشتوں کی تکریم نہ کرے ازروئے اسلام وہ لائق تعزیر ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں اس کے بالکل برعکس ہو رہا ہے کیونکہ جہاں بیٹھ کر قانون بنتے ہیں اسی جگہ پر ماں، بہن اور بیٹی کے مقدس رشتوں کی تضحیک کی جاتی ہے اختلاف اپنا ہوتا ہے اور گالی ماں بہن کو، مخالفت سیاسی ہوتی ہے اور تقدس پامال ماں بہن کا کیا جاتا ہے، بات پانامہ کی ہو رہی ہوتی ہے اور تکذیب ماں بہن کی شروع ہو جاتی ہے، یہ ہم کس طرف چل نکلے ہیں کیا دکھانا چاہ رہے ہیں۔

دنیا کو کہ ہم ماوئوں اور بہنوں بیٹیوں کو اس طرح تکریم دیتے ہیں ملک کا نام ہو اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کی اسمبلیوں میں نہ کہیں اسلامی اقدار دکھائی دیں اور نہ ہی جمہوری واہ صاحبان مسند اقتدار آپ لوگوں کے کیا کہنے بات صرف (ن) لیگ کی ہوتی تو شائید مجھے کبھی بھی اتنی حیرت نہ ہوتی مگر یہاں معاملہ کچھ اور ہے یہاں معاملہ اس شخصیت کا ہے جسے آج تک میں ایک مکمل اور حقیقی پارلیمنٹرین سمجھ کر اسے سر آنکھوں پر بٹھائے ہوئے تھا کیونکہ موصوف بہت حلیم الطبع اور سلجھے ہوئے دھیمے لہجے کے سیاستدان تھے اور ان کے بارے میں میرے خرد و ادراک کے کسی کونے کھدرے میں بھی اس چیز کی قطعی گنجائش نہیں تھی کہ میاں جاوید لطیف جیسا شخص بھی اس طرح کی زبان استعمال کر سکتا ہے جس طرح کی زبان انہوں نے مراد سعید نہیں بلکہ اپنی بہنوں کے خلاف استعمال کی ہے یہ بات میں نے اس لیئے کی ہے کہ وطن کی ہر ماں ،بہن ،بیٹی پہلے صاحب اقتدار و اختیار کی بیٹی ہے اور بعد میں اپنے گھر والوں کی ارے ضلع شیخوپورہ تو اقدار کے پاسبانوں کا ضلع ہے۔

ماں بہن کی تکریم و تحریم سے مکمل طور پر آشنا بھائی اور بیٹے اس دھرتی کی کوکھ سے جنم لے چکے ہیں یہ وارث شاہ کی دھرتی ہے پھر کونسا ایسا عتاب نازل ہوا کہ اسی دھرتی کا فرزند ہو کر جاوید لطیف ایسی زبان بول گئے جس کی کم از کم مجھے تو ان سے امید نہیں تھی ۔شیخوپورہ وہ دھرتی ہے کہ کہ جو بیٹی اور بہن کی قدر کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ ایک واقعہ قارئین کی نظر کئے دیتا ہوں میرے ایک بڑے پیارے دوست نذیر سلطانی صاحب جن کے ننھیال شیخوپورہ کے نواحی علاقے فیروز وٹواں کے قریب ایک گائوں کے رہنے والے ہیں ایک دن وہ اپنے ننھیال کا ایک واقعہ سنا رہے تھے کہ میرے ننھیالی گائوں میں ایک نوجوان قتل ہو گیا یہ اس وقت کی بات ہے جب گائوں کا چوہدری یا نمبردار گائوں کے باپ کے مصداق ہوتا تھا چھوٹے موٹے کیس کبھی تھانے تک نہیں جا پاتے تھے بلکہ اگر کبھی پولیس گائوں میں جاتی بھی تو پہلے چوہدری کے پاس جاتی وہیں میں درخواست گزار اور ملزم کو بھی بلا لیا جاتا اور بسا اوقات نمبردار پولیس والوں سے خود ہی کہہ دیتا کہ یہ میرے گائوں کا معاملہ ہے ہم خود ہی اسے مل بیٹھ کے حل کر لیں گے اور ہوتا بھی بالکل ایسا ہی ۔اسی گائوں کے زمیندار کا جوان بیٹا قتل ہو جاتا ہے اور قتل ہوتا بھی ایک غریب کے بیٹے کے ہاتھوں اب زمیندار کا سارا خاندان چاہتا ہے کہ قاتل کو خود مار دیا جائے یا اسے پھانسی ہو جائے اور غریب سارا خاندان زمیندار سے معافی کا خواستگار کہ کسی طرح ان کا بیٹا مرنے سے بچ جائے قاتل کا غریب باپ اپنی پگڑی اتار کر زمیندار کے پائوں میں رکھ دیتا ہے کہ میرے بیٹے کو معاف کر دیا جائے مگر زمیندار معافی پر کسی صورت بھی نہیں مانتا وہ کہتا ہے کہ میرا جوان بیٹا مرا ہے میں تم لوگوں کو معافی کیوں دوں جس طرح میرا بیٹا مرا ہے اب تیرے بیٹے کو بھی مرنا ہو گا وہ غریب مایوس ہو کر گھر واپس چلا جاتا ہے۔

اسکی بیٹی جو کسی اور گائوں میں بیاہی ہوئی تھی اپنے سر کا دوپٹہ اتار کر زمیندار کے گھر بھیج دیتی ہے اور ساتھ میں ایک پیغام بھی کہ چاچا میں تیرا فیصلہ آنے تک اسی طرح ننگے سر رہوں گی میرے بھائی کو معاف کر دے یا پھر اس دوپٹے کو پائوں میں روند ڈالو زمیندار اس بیٹی کا دوپٹہ دیکھ کر سر کو جھکا کر سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے اور اپنی بیوی سے پوچھتا ہے کہ اب کیا کروں چوہدرانی کہتی ہے کہ میں اپنے جوان بیٹے کا خون معاف نہیں کر سکتی میں کیا جانوں اس دوپٹے کو تو یک دم زمیندار سر اٹھا کر بیوی کی طرف دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ بیٹا میرا مر گیا وہ واپس نہیں آئے گا اگر میں قاتل کو مار بھی دوں تب بھی میرا بیٹا لوٹے گا نہیں مگر گائوں کی بیٹی جو دراصل میری بیٹی ہے میں اس کا سر ننگا نہیں دیکھ سکتا اس ایک بیٹی کی عزت اور لاج رکھنا میرا فرض ہے تم نہیں جانتی ہو کہ بیٹے کی جان سے کس قدر قیمتی ہے یہ بیٹی کے سر کا دوپٹہ لہذا میں اس دھی کا سر ڈھاپنے جا رہا ہوں جو میرے فیصلے کے انتظار میں ننگے سر بیٹھی ہے میں بیٹے کے خون کے بدلے اک بیٹی کا سر ننگا نہیں کر سکتا ۔تو جناب شیخوپورہ وہ دھرتی ہے کہ گھر بیٹھی ننگے سر بیٹی کے دوپٹے کی اسقدر تکریم کرے کہ سگے بیٹے کا خون معاف کر دے اور کسی بیٹی کو سر ننگے نہ بیٹھنے دے تو پھر فرزند شیخوپورہ ہو کر میاں جاوید لطیف ایک سیاسی بیان کے جواب میں جب اسطرح کی زبان بولے گا تو شیخوپورہ کے ہر غیور آدمی کا سر ندامت سے جھک جائے گا اور یقینی طور پر اپنے اس بیان کے بعد میاں جاوید لطیف بھی نادم ضرور ہوئے ہوں گے۔

PML-N

PML-N

باعث حیرت بات یہ ہے کہ شیخوپورہ کی غیور دھرتی کے کچھ لوگ اپنے سپوت کی اتنی واضح غلطی کے باوجود نعرے لگاتے پھر رہے ہیں کہ میاں تیرا ایک اشارہ حاضر حاضر لہو ہمارا ،ارے بھائی غلطی تو پہلے ہم نے کی ہے مراد سعید کی بہنوں کے بارے میں بد زبانی کر کے حالانکہ خود میاں جاوید لطیف نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ غصے میں مجھ سے وہ الفاظ بولے گئے جو مجھے زیب نہیں دیتے تھے تو پھر اہلیان شیخوپورہ جو (ن ) لیگی ٹیگ کے حامل ہیں اگر تھوڑا سا عقل کو بروئے کار لاتے تو اپنے فرزند کی وکالت کرنے کی بجائے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے اور اپنے سپوت کی سرزنش کرنے کا حق ادا کرتے مگر ایسا کرتا کون ؟کیونکہ ( ن) لیگ کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ جوش جذبات میں اور اپنے لیڈر کی بڑائی بیان کرتے ہوئے یہ قطعی طور پر بھول جاتے ہیں کہ مادر وطن کی ہر ماں بہن بیٹی ان کی اپنی ماں بہن بیٹی ہے۔

میں پہلے بھی یہ عرض کر چکا ہوں کہ (ن ) لیگی ارکان سے کچھ بھی بعید از قیاس نہیں مگر میاں جاوید لطیف سے مجھے ایسی بالکل بھی توقع نہیں تھی اور ہاں جس بات کا یہ شور کر رہے ہیں کہ مراد سعید نے حملہ کیا جس کی ہم مذمت کرتے ہیں تو بھائی میرے وہ حملہ نہیں بلکہ ادلے کا بدلہ ہے میں قسمیہ کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح کی بد زبانی اگر مراد سعید نے جاوید لطیف کے بارے میں کی ہوتی تو میاں جی موصوف کا بھی یہی ردعمل ہوتا جس طرح کا مراد سعید نے ظاہر کیا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ نواز حکومت اس پر کیا ایکشن لیتی ہے دراصل پانامہ نے سب لیگی ممبران اسمبلی کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے ۔ اسقدر وہ غصے میں اس وقت کیوں نہیں آتے جب ہندوستان سرحدوں پر بلا اشتعال فائرنگ کرتا ہے کبھی باجماعت پریس کانفرنس کی ہے لیگی ممبران اسمبلی یا وزراء نے ہندوستان کے خلاف ،مال روڈ لاہور پر بم دھماکہ ہوا تب بھی معزز وزراء اور لیگی اراکین کو توفیق نہ ہوئی کہ باجماعت ڈائس پر آکر دہشتگردوں کے خلاف زبان کھولتے جس طرح سپریم کورٹ کے احاطہ میں عمران خان کے خلاف کھولتے رہے ہیں ، تو پھر نواز شریف کی وکالت اور عمران خان کی مخالفت میں ہی کیوں انکو باجماعت ہونا یاد آ جاتا ہے۔

کاش اللہ پاک ان معزز لوگوں کو عقل و خرد کی دولت سے بھی مالا مال کرتا تو پھر کبھی بھی ان اسمبلیوں میں بیٹھنے والے نصرت بھٹو ، بینظیر بھٹو ،شیریں مزاری ، اور مراد سعید کی ہمشیرگان کے خلاف بد زبانی کرنے کی جرات نہ کرتے ہر پاکستانی کی ماں ، بہن ، بیٹی کے تقدس کو ہمیشہ ذہن میں رکھتے اور مزدور سے لے کر صدر پاکستان تک کی بیٹی کا تقدس و تکریم اپنا فرض عین سمجھ کر نبہتے کیونکہ قوم نے ان لوگوں کو اگر اپنا راہنما چنا ہے تو پھر تمام قوم کی عزت غیرت کا تحفظ بھی ان کی ذمہ داری ہے نہ کہ بد زبانی کا مظاہرہ کر کے دنیا کو یہ د کھانا کہ اقتدار پاس ہو تو کسی کو کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پر کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔

 Dr M H Babar

Dr M H Babar

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile;03344954919
Mail ;mhbabar4@gmail.com