ہائوسنگ کالونیوں کا دھندہ سرمایہ داروں کی موجیں

Housing Colonies

Housing Colonies

تحریر : عقیل احمد خان لودھی
کسی بھی ریاست میں جب معاشی عدم توازن جیسے معاملات سراٹھاتے ہیں تو اس کا سب سے زیادہ نقصان عام اورغریب آدمی کو اٹھانا پڑتا ہے وطن عزیز کی بات کی جائے تو شاید یہ خطہ ارض پر یہ واحد ایسی ریاست ہے جہاں غریب کی فلاح کے نام پر حکومتیں بنتی ہیں اور چند خاندان تمام تر حکومتی وسائل سے غریبوں کے نام پر موج مستیاں کرتے ہیں صرف حکمران شخصیات ہی نہیں ان کے عزیز واقارب دوست احباب اور خوشامدیوں کو بھی مز ے لوٹنے کی مکمل آزادی ہے اور یہاں جس کا جتنا ظرف ہے وہ ملک کو اتنا ہی لوٹ رہا ہے یہاں حکومتیں بنانے والوں نے غریب کو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ بھی دیا مگر آج 69برس بعد روٹی کپڑا تک میں کامیابی نہیں ملی مکان تو بہت دور کی بات ہے مرنے کیلئے دو گز زمین کا ملنا مشکل بنایا جارہا ہے۔

سرمایہ دار مخصوص طبقہ کو لوٹ مار کا سب سے زیادہ کارگر نسنحہ جو ہاتھ آیا ہے وہ استحصال زدہ زمیندار طبقے سے سستے داموں زمینوں کی خریداری اور پھر ان زرعی زمینوں کی نوعیت کو کمرشل اور ہائوسنگ کالونیز/سوسائٹیز کی شکل دیکر لاکھوں سے کروڑوں ،اربوں کا دھندہ ہے اور یہ دھندہ ملک کے تقریباََ سبھی شہروں میں پوری طاقت سے عروج پرہے۔غریبوں کو اپنے گھر کا خواب دکھا کر نت نئی ہاؤسنگ سکیمز اور ٹاؤنز متعارف کروائے جاتے ہیں۔ ملک کے دیگر شہروں کی طرح وزیرآباد میں بھی نئی کالونیاں ان قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شہریوں کو جھوٹے دعووں سے اپنے چنگل میں پھنسانے کی کوشش کررہی ہیں۔پراپرٹی کے کاروبار میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو کہ غیر قانونی اور ٹی ایم اے سے غیرمنظور شدہ کالونیاں بنا کر سادہ لوح عوام کے پیسے ہڑپ کررہی ہے۔

بیشتر کالونیاں رجسٹرڈ نہیں اور ان کالونیوں کے مالکان بنا کسی این او سی کے پلاٹس کی خریدوفروخت کر تے ہیں۔ہائوسنگ کالونیز اور سوسائٹیز کے قیام یا رجسٹرڈ ہونے کی اگر بات کی جائے تو ایسی کالونیوں کے قیام سے پہلے مجوزہ لوکل گورنمنٹ سے اسکی منظوری لی جانا انتہائی اہم ہے۔ اس سے کالونی کے ترقیاتی کاموں میں مدد ملتی ہے۔سیوریج کے نظام اور کالونی میں آمدورفت کے لیے بنائی جانے والی سڑکوں میں لوکل گورنمنٹ اور ٹی ایم اے معاون ثابت ہوتی ہے۔سب سے پہلے کالونی کا نقشہ تیار کیا جاتا ہے اور اسے ٹی ایم اے سے پاس کروایا جاتا ہے۔ نقشے تبھی پاس ہوتا ہے جب اس میں وضع کردہ معیاروں کے مطابق بجلی، پانی، سیکیورٹی، مساجد، مارکیٹ، پارک، سالڈ ویسٹ مینیجمٹ، سوئی گیس، قبرستان اور کشادہ سڑکوں کو کالونی کا حصہ بنایا جاتا ہے۔

Housing Colonies

Housing Colonies

اسکے بعد تمام متعلقہ محکموں سے کالونی کو دی جانیوالی سہولتوں پر این او سی حاصل کیا جاتا ہے۔ جس کی بنیاد پر کوئی بھی کالونی ٹی ایم اے سے منظور ہو جاتی ہے قوانین کے تحت 100 کنال سے کم اراضی پر ہاؤسنگ کالونی نہیں بنائی جا سکتی۔ ایسی کالونیز جو 100 کنال سے کم ہوں، انہیں بھی غیرقانونی قرار دے دیا جاتا ہے۔وزیرآبادشہر اور مضافاتی علاقوں میں غیر قانونی ہائوسنگ سکیموں کا دھندہ عرصہ دراز سے عروج پر ہے جبکہ انتظامیہ مصلحتاچشم پوشی سے کام لیتی ہے اور جب کبھی ان کالونیوں سے متاثرہ افراد کے احتجاج پر معاملہ میڈیا کے ذریعے سامنے آتا ہے تو چند ایک پارٹیوںکو جرمانے کرکے کام چلالیا جاتا ہے غیر قانونی ہائوسنگ سکیموں کو سیل اور ڈی سیل کرنے کے معاملات چلتے ہیں جس میں بہر حال فائدہ انتظامی افسروں اور ان اہلکاروں کو ہی ہوتا ہے جن کی ذمہ داری غیر قانونی ہائوسنگ سکیموں کے قیام کی روک تھام ہے ، فرضی سیل اور ڈی سیل کے لمحات میں بھی غیر قانونی ہائوسنگ میں تعمیرات کا سلسلہ نہیں روکا جاتا۔

شہر اور گردونواح میں بالخصوص جی ٹی روڈ کے دونوں گکھڑ تک اور مولانا ظفر علی خاں چوک سے اندرون شہر عرصہ سے ہائوسنگ کالونیوں کا کام جاری ہے۔ بااثر افراد سستے داموں لی گئی زمینوں کو بغیر قانونی تقاضے پورے کئے زرعی زمینوں کو پلاٹوں کی شکل دیکر گھروں اور کمرشل تعمیرات کے نام پر کروڑوں روپے کمارہے ہیں۔ان ہائوسنگ سکیموں میں قانونی تقاضے پورے کئے بغیر ناصرف کروڑوں روپے ٹیکس بچایا جاتا ہے بلکہ سہولتوں کی عدم موجودگی میں شہریوں سے بھاری رقوم ہتھیا لی جاتی ہے متعلقہ اداروں کے اہلکار ہائوسنگ سکیموں کے مالکان سے اپنا حصہ لیکر چلے بنتے ہیں۔لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اس دھندہ سے صرف کالونیز اور سوسائٹیز میں سرمایہ کاری کرنے والا عام آدمی ہی متاثر نہیں ہورہا دیکھا جائے تو اس سے ریاست کا پورا نظام متاثر ہورہا ہے جس پر ابھی تو ذمہ داران دانستہ آنکھیں بند کئے ہوئے ہیںمگر آنے والے وقت میں اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گاان ہائوسنگ سوسائٹیز نے ملکی معیشت کو جس انداز میں نقصان پہنچانا شروع کررکھا ہے کسی دوسرے دھندے سے نہیں پہنچ رہا۔

ہائوسنگ سوسائٹیز کا اصل حملہ شعبہ زراعت پر ہے جو ہمارے ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ سرمایہ دار اپنے اندھے لالچ کی خاطر ملک کی زرعی زمین کو گھن کی طرح چاٹ کرکھاتے جارہے ہیں حکومتی ناقص پالیسیوں کے نتیجہ میں بدحال کسان سے اونے پونے داموں خرید کی گئی زمین کو تھوڑا بہت میک اپ کرکے کروڑوں اربوں روپوں میں بیچا جاتا ہے چند مرلے یا کنال کا پلاٹ جس کی قیمت سرمایہ دار نے چند ہزار روپے مرلہ کے حساب سے ادا کی ہوتی ہے اس پر بلا احتساب لاکھوں کروڑوں روپے کمائے جاتے ہیں جس کا غیر قانونی ہائوسنگ سکیموں میں تو ٹیکس تک بھی بچا لیا جاتا ہے جبکہ قانونی شکل دی گئی ہائوسنگ سکیموں میں اندھا منافع سمجھ سے بالاتر اور سرمایہ دارکونوازنے کی کڑی ہے ۔ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے گو کہ نئی عمارتوں اور مکانات کی ضرورت ناگزیر ہے مگر اس سے بھی زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ انسانوں کی غذا کا بندوبست کرنے والے شعبہ زراعت کی ترجیحاََ ترقی ہے۔ دنیا کے اکثر ترقی یافتہ ممالک نے زرعی نظام میں ترجیحاََ اصلاحات اور کسان دوست پالیسیاں لاگو کرکے ہی زراعت میں خود کفالت حاصل کی ہے وہ جانتے ہیںکہ زراعت کے بغیر نہ تو صنعت کا پہیہ چل سکتا ہے اور نہ ہی ترقی وخوشحالی کی راہ پر چلا جاسکتا ہے۔

Property

Property

ہمارے ہاں زرعی زمینوں کی مجبور کسانوں سے اونے پونے داموں خریداری اور پھر ان زمینوں کا ہاوسنگ سکیموں اور کمرشل پراپرٹیوں میں تبدیل کئے جانے کا معاملہ روز بروز سر اٹھارہا ہے یہاں حکومت کی کسانوں کو زرعی شعبہ میں بہترین معاونت فراہم نہ کرنے سے اس شبہ کو بھی تقویت ملتی ہے کہ حکومت میں موجود سرمایہ دارانہ ذہنوں نے کسان کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر اور فصلوں کا اچھا معاوضہ نہ دیکر منصوبہ بندی کے تحت معاشی کمزور کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے تا کہ کسان مجبور ہو کر اپنی زمینیں سرمایہ داروں کو فروخت کردیں جبکہ ہائوسنگ سکیموں کے ناجائز منافعوں اور غیرقانونی تعمیرات کے باوجود انہیں کہیں بھی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی بیوروکریسی انتظامیہ ان ہائوسنگ سکیموں کی پشت پناہی کرتی اور کھلے عام ان سے اپنا حصہ وصول کرتی ہے یہی سلسلہ جاری رہا تو آنے والے وقت میں زراعت کے لئے ہمارے ہاں زمین دستیاب نہیں ہوگی جس سے ملکی مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔شہر میں جا بجا بننے والی ہائوسنگ سکیمیں قواعد وضوابط پر پورا نہیں اترتیں مگر وہ اپنے قیام سے لیکر شہریوں سے فراڈکرکے فرار ہونے اورمیڈیامیں نمایاں ہونے کے آخری روز تک انتطامی معاونت سے بدستور شہریوں کو لوٹنے میں مصروف رہتی ہیں۔ملک بھر میں عرصہ دراز سے سستے داموں حاصل کی گئی زرعی زمینوں کی نوعیت بدل کر انہیںہائوسنگ کالونیز میںبدلنے اور کروڑوں روپے کمانے کا دھندہ عروج پر ہے۔

بااثر افراد بائی لاز کو یکسر نظر انداز کرکے سہولتوں کی فراہمی کے وعدوں پر مہنگے ترین ریٹس پر پلاٹس فروخت کرتے اور اکثر رفو چکر ہوجاتے ہیں جی ٹی روڈ دھونکل کے قریب ہائوسنگ سکیم کے مالکان کے ستائے ہوئے افرادنے گزشتہ روز زبردست احتجاج کیا جس پر عوامی سماجی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔شہریوںنے بتایا کہ بیشتر ہائوسنگ سکیمیں بنیادی سہولیات کی فراہمی کے بغیر کامیابی سے دھندہ کررہی ہیں جہاں مسجد، ڈسپنسری،قبرستان، سیوریج سسٹم، بجلی ،گیس ،پانی،مارکیٹس جیسی کوئی سہولت سرے سے ہی موجود نہیںہوتی جبکہ بعض مالکان محکموں کی ملی بھگت سے چند پلاٹس میں بجلی، گیس ، پانی جیسی سہولیات شو کرواکے باقی خریداروں کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ جاتے ہیں۔ایسی ہائوسنگ کالونیز کے مالکان نے مقامی نان رجسٹرڈپراپرٹی ڈیلرز کی خدمات حاصل کررکھی ہوتی ہیں جو بااثر مالکان کیلئے ٹائوٹی کا کردار بھی ادا کرتے ہیں جبکہ مقامی انتظامیہ کے کل پرزے بھی اس دھندہ میں ملوث ہیں، پلاٹوں کی مہنگے داموں فروخت کا معاملہ اس انداز میں ہوتا ہے کہ خریدار سے بھاری قیمت وصول کرنے کے باوجود سرکاری خزانے کو اصل ریونیو سے محروم رکھا جاتا ہے۔ شیطان کی آنت کی طرح پھیلتے ہوئے اس دھندہ نے عام غریب آدمی کیلئے اپنی چھت کا حصول خواب بنا کررکھ دیا ہے۔

زندگی بھر کی جمع پونجی سے ان کالونیوں میں پلاٹس وغیرہ خرید کرلینے والے متوسط خاندان سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے عمر بھر کے عذاب میں پھنسے رہتے ہیں ۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ تمام تر حالات وواقعات سے آگہی کے باوجود انتظامیہ کی طرف سے کاروائی نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے ۔اس طرح ایک عرصہ سے شہر اور گردونواح میں غیر قانونی ہائوسنگ سکیموں کا دھندہ عروج پر پہنچ چکا ہے۔ شہریوں نیچیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور دیگر حکام بالا سے زرعی زمینوں کی نوعیت بدل کر بے دریغ ناجائز منافع کمانے والوں، غیر قانونی ہائوسنگ سکیموں کے مالکان اور غفلت کے مرتکب افسران ، انتظامیہ کیخلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ زرعی زمینوں کو تحفظ فراہم کیا جائے جبکہ تمام ہائوسنگ سکیموں کو قانونی دائرہ کار میں لایا جائے۔

Aqeel Khan

Aqeel Khan

تحریر : عقیل احمد خان لودھی