حمیرا اطہر سے ایک ملاقات

Interview

Interview

تحریر: صفورا نثار
حمیرا اطہر کے نام سے آپ سب بخوبی واقف ہوں گے۔ جو صحافتی دنیا میں تواپنا ایک نام ،ایک پہچان رکھتی ہیں مگر اردو ادب سے لگائو رکھنے والے بچوں کے لیے وہ خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ اس کی وجہ ان کا پیار، قدم قدم پر بچوں کی رہنمائی اور اپنا پن ہے۔
حمیرا باجی وہ شخصیت ہیں جو بچوں میں موجود ان کے چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو صرف سمجھتی ہی نہیں بلکہ اسے سامنے لانے کا بھرپور موقع بھی دیتی ہیں۔

وہ پہلی پاکستانی خاتون صحافی ہیں جنہیں تین آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) ایوارڈز لینے کا اعزاز حاصل ہے۔ آج کل وہ ”روزنامہ جناح” کے شعبہ میگزین سے وابستہ ہیں۔یہ میگزین ”کراچی رنگ” کے نام سے بدھ کو شائع ہوتا ہے۔ پانچ سال تک روزنامہ ایکسپریس میں بچوںکے صفحے ”کرنیں” کی انچارج رہیں۔ اس کے علاوہ گاہے بگاہے ”آئینہ خانہ” کے عنوان سے سیاسی اور سماجی مسائل پر کا لم بھی لکھتی ہیں۔ اس سے پہلے ان کی مصروفیات کیا رہیں اور وہ اس شعبے میں کیسے آئیں؟ اس بارے میں انہی سے پوچھتے ہیں۔

س:آپ نے لکھنے کا آغاز کب کیا؟
ج:آٹھویں کلاس سے۔
س:پہلی کہانی کہاں چَھپی؟
ج:روزنامہ ”انجام” کے بچوں کے صفحے ”ہونہار لیگ” میں، اس کے انچارج امداد نظامی تھے۔ اس کہانی کوخصوصی انعام بھی ملا تھا۔ اتنا ہی نہیں، مجھے اپنے اسکول کا پہلا میگزین نکالنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ میں نے حسینی اسکول، ناظم آباد سے میٹرک کیا ہے۔ جب میں نویں کلاس میں تھی تو اسکول کا پہلا میگزین ”ستونِ ادب” کے نام سے نکالا۔
س:اپنی آگے کی تعلیم کے بارے میں بھی بتائیے کہ کہاں سے اور کہاں تک حاصل کی؟
ج:ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو پڑھانااچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ لیکن میرے والد اطہر نادر نے جو شاعر بھی تھے، خاندان کی مخالفت کے باوجود مجھے اسکول میں داخل کرادیا۔ تاہم، میٹرک کے بعد انہوں نے بھی ہمت ہاردی اور کہا کہ میں خاندان والوں کی مزید باتیں نہیں سن سکتا۔ تب میری امی نے میرا بھرپور ساتھ دیا کہ جب اسے پڑھنے کا شوق ہے، نتیجہ بھی اچھا آتا ہے۔ اخبارات میں کہانیاں بھی لکھنے لگی ہے تو محض خاندان والوں کی باتوں کی وجہ سے اس کی صلاحیتوں کو کیوں ضایع کیا جائے۔ قصہ مختصر….. پھر پانچ روز کی بھوک ہڑتال اور رونے دھونے کے بعد بالآخر وہ مان گئے اور ہم نے ان کی خواہش پر میڈیکل پڑھنے کے لیے ایف ایس سی میں داخلہ لے لیا۔

س:میڈیکل پڑھتے پڑھتے صحافت میں کیسے آگئیں؟
ج:انٹر سائنس میں سیکنڈ ڈویژن آنے کی وجہ سے میڈیکل کالج میں داخلہ نہیں ملا، چناںچہ ڈویژن بہتر کرنے کے لیے بی ایس سی میں داخلہ لے لیا۔ اس زمانے میں بی ایس سی کے بعد بھی میڈیکل کالج میں داخلہ مل جایا کرتا تھا۔ اسی سال میں شدید بیمار پڑگئی۔ ڈاکٹر نے ابا سے کہا کہ ”پڑھائی چھوڑنے کا مشورہ تو نہیں دوںگا البتہ سائنس چُھڑوا دیں۔ بچی کے ذہن پہ بہت زیادہ بوجھ ہے۔”

دراصل کالج میں میری ہم نصابی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ میں سرسیدکالج کے میگزین ”سحر” کی چار سال تک ایڈیٹر رہی۔ ساتھ ساتھ مختلف اخبارات کے لیے لکھتی بھی رہی۔ کالج کی ہم نصابی سرگرمیوں میں آگے آگے رہی۔ چناںچہ پھر ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق سائنس چھوڑ کے بی اے میں داخلہ لے لیا۔

س:ڈاکٹر بننا آپ کا اپنا شوق تھا یا والدین کی خواہش؟
ج:یہ میرے والدین کی خواہش تھی کیوںکہ اُس زمانے میں لڑکیوں کے لیے دو ہی پیشے ”معقول” سمجھے جاتے تھے، ٹیچنگ اور میڈیکل۔ میں چوںکہ ذہین اور محنتی طالبہ تھی لہٰذا، اگر دوسری سرگرمیوں میں ذرا سی احتیاط کرتی تو ڈاکٹر بھی بن سکتی تھی۔ میں زولوجی اور باٹنی کے جرنل اتنے اچھے بناتی تھی کہ کالج والوں نے سالانہ امتحانات کے بعد اسے واپس نہیں کیا، آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرلیا۔ میری امی کہتی تھیں، حمیرا مینڈک اتنا اچھا بناتی ہے کہ لگتا ہے، ابھی جرنل سے اُچھل کے باہر آ جائے گا۔
س:صحافت میں آنے کا مشورہ کس نے دیا؟

ج:میں نے بی اے کرنے بعد کالج کی پرنسپل محترمہ آمنہ کمال مینائی سے جو میری اردو اختیاری کی استاد بھی تھیں، کہا کہ اب میں کیا کروں؟ کیوںکہ ٹیچنگ تو مجھے بالکل بھی پسند نہیں ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ تم صحافت میں ایم اے کرو اور صحافی بنو۔ یہی مشورہ کالج میگزین ”سحر” کی انچارج پرفیسر حُسن بانو قزلباش نے بھی دیا کہ تم تو ابھی سے صحافت کررہی ہو، اسی کو آگے بڑھائو۔ سو میں نے ان کے مشوروں پہ عمل کیا۔ جب کہ ابا چاہتے تھے کہ اب میں ٹیچر بن جائوں۔
س:آپ نے اب تک کتنے میگزین اور اخبارات میں کام کیا؟
ج:بے شمار…. مثلاً روزنامہ اعلان، انجام، نیوز ایجنسی پی پی آئی، ہفت روزہ اتحاد اور اخبارخواتین وغیرہ۔ ان کے علاوہ روزنامہ جنگ، حریت، مساوات، مشرق اور ایکسپریس میں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر لکھتی رہی۔ دوماہی فوڈ میگزین ”دسترخوان” کی بانی ایڈیٹر بھی ہوں۔

Daily Express

Daily Express

س:آپ پانچ چھ برس روزنامہ ایکسپریس میں بچوں کے صفحے ”کرنیں” سے وابستہ رہیں۔ یہ تجربہ کیسا رہا؟
ج:بہت اچھا۔ کیوںکہ مجھے پورے پاکستان کے بچوں سے بہت پیار ملتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس عرصے میں بہت سے نئے لکھنے والے بچوں کی اتنی اصلاح کردی ہے کہ اب وہ کرنیں کے علاوہ دوسرے اخبارات اور رسائل میں بھی لکھنے لگے ہیں۔ جن میں دل نواز خان، رانا عامر جاوید، علی رضا، احتشام گل، طاہر نذیر، ایم اسد خان، راشد مغل اور محمد توصیف ملک وغیرہ شامل ہیں۔ یہی میری سب سے بڑی کامیابی ہے ۔
س:”کرنیں” کے بارے میں کچھ کہیں گی؟
ج:کرنیں بچوں کی تربیت اور ان کی صلاحیتیں اُجاگر کرنے کا پلیٹ فارم تھا۔ مجھے ہمیشہ بچوں کے احساسات کا اندازہ رہتا ہے۔ بعض بچے ابھی سے جس طرح سماجی مسائل پر لکھتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں یہ ملک کے مفید شہری ثابت ہوںگے۔
س: بطورصحافی جب آپ کو ”کرنیں” بچوں کے صفحے کی ذمے داریاں دی گئیں تو آپ کے ذہن میں کیا منصوبے تھے؟

ج: میرے ذہن میں تھا کہ بچوں کو آگے بڑھائوں گی۔ کیوںکہ مَیں خود بھی بچوں کے ہی صفحات سے آگے بڑھی تھی۔ مَیں جانتی تھی کہ بچے بھی اسی صفحے کے ذریعے آگے بڑھیں گے۔ بچوں کے صفحات مرتب کرتے ہوئے مجھے اپنا بچپن یاد آ جاتا تھا۔ جس دن صبح صفحہ آنا ہوتا تھا، مَیں ساری ساری رات نہیں سوتی تھی۔ اس کے علاوہ پہلا خیال یہ تھا کہ بچوں کو دیومالائی اور بادشاہوں کی خیالی دنیا سے نکالوںگی۔ اب ان چیزوں سے بچے نہیں بہلتے۔ یہ سائنس وٹیکنالوجی کا دور ہے اور بچوں میں ٹیلنٹ بھی ہوتا ہے۔ میرے ذہن میں تھا کہ بچوں کو اپنے ساتھ شریک کروں گی کیوںکہ نئی نسل کی آبیاری ہمیں ہی کرنی ہے اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو آگے خلا پیدا ہو جائے گا۔ اکثر میرے پاس خراب ہینڈ رائٹنگ والی کہانی آتی، اگرچہ کہانی بھی ٹھیک سے لکھی ہوئی نہ ہوتی مگر اس کا مرکزی خیال اچھا ہوتا تو مَیں اس کو نئے سرے سے لکھتی۔ میرے ساتھی کہتے، آپ اتنی محنت کیوں کرتی ہیں؟ پھاڑ کے پھینکیں اور دوسری کہانی لگا دیں، مگر میں ایسا نہیں کرتی تھی۔ اب اُن میں سے بہت سے ایسے نام ہیں جو مجھے مختلف جگہ نظر آرہے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ میرا مقصد پورا ہو رہا ہے۔

س: بچوں کے لیے کبھی کوئی کتاب لکھنے کے بارے میں نہیں سوچا؟
ج: بڑوں کے لیے لکھنے سے فرصت ہی نہیں ملی۔ ویسے مَیں نے بے شک بچوں کے لیے لکھا توبہت کم ہے ہاں مگر بچوں کے لیے کام زیادہ کیا ہے۔ ”بچوں کے لیے لکھنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں” یہ بہت مشکل کام ہے۔ ویسے تو بہت سارے ادیب ہیں مگر بچوں کے لیے لکھنے والے بہت کم ہیں۔
س:جن بچو ںکی تحریر یں نہیں چَھپتیں، ان سے کیا کہیں گی؟
ج:انہیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے بلکہ اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ان کی تحریر کیوں نہیں چَھپتی۔
س:کوئی ایسی خواہش جو اب تک پوری نہ ہوئی ہو؟
ج: ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولیں، ایک خواہش کا ذکر البتہ کرنا چاہوں گی کہ پورے پاکستان کے نہیں تو کم ازکم وہ بچے جو کرنیں سے وابستہ ہیں، اصولوں کی پاس داری کریں۔ اپنی زندگی اصولوں کے مطابق گزاریں اور منفی رحجانات کی جگہ مثبت رحجانات کو پیش نظر رکھیں۔

س:کبھی کسی بچے کی تحریر یا خط پڑھ کر غصہ آیا؟
ج:جب بچوں کا صفحہ ترتیب دینے لگی تو شروع شروع میں بہت سارے بچوں کے خطوط آتے کہ آپ اپنے رشتے داروں، لاڈلوں اور جاننے والوں کی ہی تحریریںچھاپتی ہیں۔ پہلے تو انہیں بہت سمجھایا کہ ایسا ہرگز نہیں ہے مگر پھر بھی یہ سلسلہ جاری رہا تو ایک خط پڑھ کے مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے جواب میں لکھا کہ ”ہاں! میں اپنے رشتے داروں، لاڈلوں اور جاننے والوں کی ہی تحریریںچھاپتی ہوں، کیوںکہ کرنیں کے سارے ساتھی میرے رشتے دار اور لاڈلے ہیں۔” بچوںکو ایسی سوچ نہیں رکھنی چاہیے۔
س: آپ نے ایکسپریس کیوں چھوڑا، اور آج کل کیا کر رہی ہیں؟
ج: میرا صفحہ بہت زیادہ مشہور و مقبول ہوگیا تھا۔ ملک بھر کے بچے اسے پسند کرتے تھے اور مجھ سے محبت کرنے لگے تھے۔ مَیں ہر بچے کے خط کا تسلی بخش جواب دیتی تھی کیوںکہ بچے کوئی بھی چیز بھیج کر پریشان ہوتے رہتے تھے، پتا نہیں ملی ہوگی یا نہیں؟ ”کرنیں میل باکس” سے انہیں تسلی ہوجاتی تھی۔ اسی لیے مَیں نے ”ناقابل ِ اشاعت” کی فہرست بھی لگانی شروع کی، اس پر بھی انچارج کو اعتراض ہوتا۔ دراصل وہ مجھ سے حسد کرنے لگے تھے۔ جہاں تک آپ کے سوال کے دوسرے حصّے کا تعلق ہے تو دو سال کی بے روزگاری کے بعد آج کل روزنامہ ”جناح” میں شعبۂ میگزین سے وابستہ ہوں جو راول پنڈی اور لاہور سے شائع ہوتا ہے اور اب انشا اللہ عنقریب کراچی سے بھی شائع ہوگا۔
س:آپ نے بہت ساری ادبی شخصیات کے انٹرویوز بھی کیے ہیں، ان میںسے چند ایک کے نام بتا دیں؟
ج:شاذ تمکنت،کیفی اعظمی، سردارجعفری، اخترالایمان، جگن ناتھ آزاد، اوپندر ناتھ اشک، عصمت چغتائی، جمیلہ ہاشمی، ممتاز مفتی، شوکت صدیقی، منیر نیازی اور ظ ۔ انصاری وغیرہ۔

Journalism

Journalism

س:سب سے مشکل انٹرویو کس کا تھا؟ کبھی کسی سے متاثر ہوئیں؟
ج:مشکل انٹرویو تو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا تھا جو 1980 ء میں دہلی میں لیا تھا، اور متاثر بھی ان سے ہی ہوئی تھی۔ دراصل وہ بہت سادگی پسند خاتون تھیں۔ ان کا آفس بہت سادہ اور شخصیت بہت پُروقار تھی۔ پاکستان میں بھارتی قونصلر مانی شنکر آئیر کی مدد سے بہت مشکل سے تیس منٹ کا وقت ملا، وہ بھی اس شرط پرکہ سیاست کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہوگا۔ چناںچہ ہمارے درمیان تیس منٹ تک پاک وہند کی خواتین کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ آپ کا تعلق ایک بڑے سیاسی خاندان سے ہے اور ایک بہت بڑے جمہوری ملک کی سربراہ بھی ہیں، ایسے میں جب سیاست پہ کوئی بات نہیں ہوگی اور یہ انٹرویو پاکستان میں شائع ہوگا تو لوگ کیا تاثر قائم کریں گے کہ یا تو اندرا گاندھی کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں یا پھر اس لڑکی کو کچھ پوچھنا نہیں آیا۔ تو آخر آپ کس کا امیج خراب کرنا چاہتی ہیں، اپنا یا میرا؟ اس سوال پہ وہ مسکرائیں اور کہا پوچھو، مگر صرف دو سوال۔ تو میں نے افغانستان کی جنگ اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں دو سوالات کیے۔ پھر جب چلتے ہوئے دس منٹ زائد دینے پر خصوصی شکریہ ادا کیا تو مسکراتے ہوئے بولیں، شکریے کی تو کوئی بات نہیں، بس ایک امریکی کو وقت دیا ہوا تھا، وہ دس منٹ لیٹ ہوگیا۔ میں باہر نکلی تو وہ امریکی کوریڈور میں ٹہل رہا تھا۔ اس وقت مجھے اس بات کی بہت خوشی ہوئی کہ ایک پاکستانی صحافی نے ایک امریکی کو دس منٹ انتظار کروایا۔
س:آپ کے فکاہیہ کالموں کا ایک مجموعہ ”بات سے بات” بھی شائع ہوا ہے۔ کچھ اس کے بارے میں بتائیں؟
ج:یہ مجموعہ 2007 ء میں شائع ہوا۔ اسے اکیڈمی آف لیٹرز (سندھ) کی طرف سے ”بہترین فکاہی ادب” کا ایوارڈ بھی ملا۔
س:کالموں کا مجموعہ تو شائع کردیا، ادبی انٹرویوز کو کتابی شکل دینے کے بارے میںنہیںسوچا؟
ج:ان کی کتاب بھی مرتب ہورہی ہے۔ انشاء اﷲ جلدشائع ہوجائے گی۔
س:آپ نے بابری مسجد کے بارے میں بھی کتاب لکھی ہے کچھ اس بارے میں بتائیں۔

ج:بابری مسجد پر یہ پاکستان میں پہلی تحقیقی کتاب ہے جو 1991ء میں لکھی، اب کچھ اضافوں کے ساتھ اس کا دوسرا ایڈیشن آنے والا ہے۔
س:اپنی نجی زندگی کے بارے میں بتائیں؟
ج:میرے شوہر رشید بٹ بھی صحافی ہیں۔ آج کل فری لانس صحافت کے ساتھ ترجمے، پرنٹنگ اور پبلشنگ کا کام کرتے ہیں۔
س:کامیاب صحافی بننے کے لیے کیا ضروری ہے؟
ج:تین چیزیں: مطالعہ، اس سے آپ کو جملے بنانے کا سلیقہ اور الفاظ کا ذخیرہ ملتا ہے۔ مشاہدہ، اس سے نت نئے موضوعات ملتے ہیں۔ اور مکالمہ، مطلب یہ کہ آپ کو گفتگو کرنے کا فن آنا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ کہ سامنے والی شخصیت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، اس کے رعب میںنہ آئیں اور دماغ کو حاضر رکھیں۔
س:کیا آپ کبھی کسی کے رعب میں آئیں؟
ج:نہیں، کبھی نہیں۔ اس کی ایک مثال تو اندرا گاندھی سے ملاقات کی ہے۔ یہاں کراچی میں ایک مرتبہ یوں ہوا کہ میں تعلیمی پالیسی کے حوالے سے ایک سروے کررہی تھی۔ اس سلسلے میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پرفیسر ڈاکٹر احسان رشید سے کے پاس بھی گئی۔ وہ اس وقت کوئی فائل دیکھ رہے تھے۔ جب فارغ ہوئے تو میں نے کہا، شروع کریںسر!؟ وہ بولے، ”ایسے کیسے شروع کریں؟ پہلے یہ بتائوکہ تم کون ہو، تمہارا عہدہ کیا ہے، تعلیم کتنی ہے، تجربہ کتنا ہے، قابلیت کیا ہے؟” تب مجھے بہت غصہ آیا کیوںکہ ان سے انٹرویو کا وقت لیتے ہوئے اپنا تعارف کراچکی تھی۔ میں نے قلم تقریباً پٹختے ہوئے میز پر رکھا اور کہا، ”میں اخبار خواتین کی اسسٹنٹ ایڈیٹر ہوں، تعلیم ایم اے جرنلزم ہے، قابلیت کا پتا آپ کو ہوگا۔” اس پر انہوں نے چونکتے ہوئے پوچھا، ”مجھے کیسے پتا ہوگا؟”

”کیوںکہ میری ڈگری پر بحیثیت وائس چانسلر آپ کے دستخط ہیں۔ تو یہ آپ کو ہی معلوم ہوگا کہ آپ کتنے قابل بچوں کو ڈگری دیتے ہیں۔” یہ سن کر وہ ہنس دیے اور بولے، ہاں! اب انٹرویو شروع کرو۔ اتفاق سے اسی روز شام کو ایک تقریب میں ان کی ملاقات میگزین کی ایڈیٹر شمیم اخترسے ہوئی۔ انہوں نے کہا، آج آپ نے جس لڑکی کو میرا انٹرویو لینے بھیجا تھا میں اس کی خوداعتمادی سے بڑا خوش ہوا۔ شمیم نے کہا، اسی لیے مشکل شخصیات کے پاس میں حمیرا کو ہی بھیجتی ہوںکیوںکہ وہ بات حلق سے نکال کے لے آتی ہے۔
س:فارغ وقت کیسے گزارتی ہیں؟
ج:فارغ وقت ملتا ہی نہیں۔ آٹھ گھنٹے ڈیوٹی، دو گھنٹے آنے جانے میں، کچھ گھر کے کام کاج، رات کو تھوڑا بہت ٹی وی دیکھ لیا، اس کے بعد باقی وقت پھر پڑھنے لکھنے میں گزر جاتا ہے۔
س: اگر ایک باصلاحیت اور تعلیم یافتہ شخص کے پاس خوداعتمادی کی کمی ہو تو وہ آگے کیسے بڑھ سکتا ہے؟
ج: میری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آتی کہ باصلاحیت اور تعلیم یافتہ ہوکر کوئی شخص خوداعتمادی کی کمی کا شکار کیسے ہوسکتا ہے؟ ایسے شخص کو اپنی تعلیم پر نظرثانی کرنی چاہیے، جو پڑھا ہے اسے اندر سمویا جائے۔ سطحی یا کتابی تعلیم، تعلیم نہیں ہوتی۔ تعلیم تو نام ہی حوصلہ اور اعتماد سکھانے کا ہے۔ یہ سب سے پہلے حوصلہ اور اعتماد دیتی ہے۔ نصابی تعلیم سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ تعلیم تو کہیں سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ لوگوں کی باتوں، تجربات اور حرکات وسکنات سے فائدہ اٹھانا بھی تعلیم ہے۔
س: ہمارے ملک کے کرپٹ حالات میں ایک تعلیم یافتہ، غریب شخص جس کے پاس آگے بڑھنے کی جستجو ہو، کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟
ج: یہ ہمارے ملک کا بہت بڑا المیہ ہے کہ آپ کسی بھی چیز میں صرف صلاحیت کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ جس ملک میں سینیٹ اور اسمبلی کی سیٹیں بکتی ہوں وہاں تو کچھ نہیں ہوسکتا۔ عدلیہ کا کام ہے فیصلے سنانا مگر آگے ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ جب تک یہ نظام ٹھیک نہیں ہوتا، پڑھا لکھا طبقہ آگے نہیں آتا، اس کا کوئی حل نہیں۔ ”لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا” یہ نظام ہے ہمارا۔ یہاں عام اداروں میں چاپلوسی اور خوشامد ہوتی ہے۔ مَیں خود بھی اسی استیصالی نظام کا شکار ہوں۔ ”ایکسپریس” چھوڑنے کی یہی وجہ تھی۔ مَیں چاپلوسی اور خوشامد نہیں کرسکتی تھی اور ایڈیٹر کو یہ بات پسند نہیں تھی۔

س: یہ نظام کیسے درست ہو سکتا ہے؟
ج: اللہ ہی رحم کرے، کوئی نیا ہی آئے تو کچھ ہوگا۔ چہرے بدلنے سے کیا ہوتا ہے جہاں عدل نہیں ہوگا وہاں کچھ نہیں ہوسکتا۔
س:ہمارے ملک میں ڈگری لینے کے بعد میرٹ پر نوکری نہیں ملتی۔ ہر جگہ سفارش یا رشوت مانگتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟
ج:یہ ہمارے ملک کا المیہ ہے۔ اس سے بہت سے بچے مارے جارہے ہیں بلکہ ہمارا مستقبل مارا جارہا ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ ملک کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں۔
س:کسی بھی ادارے میں جائیں، وہ تجربہ مانگتے ہیں۔ آخر بغیر کہیں کام کیے تجربہ کیسے ہوسکتا ہے؟
ج:یہ بھی افسوس ناک رویہ ہے۔ کسی بھی ادارے میں جگہ دینے کے ذمہ دار یہ نہیں سوچتے کہ وہ نئے لوگوں کو موقع دیںگے تب ہی تو انہیں تجربہ حاصل ہوگا۔ آخر خود انہیں بھی تو کسی نے موقع دیا ہوگا۔

Writing

Writing

س:آج کل بچوں کے صفحات خصوصاً رسالوں میں بچے کم اور بڑے یعنی پرانے اور مستند لکھنے والے زیادہ نظر آتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
ج: شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ بچوں کی تحریروں میں اصلاح بہت کرنی پڑتی ہے۔ بعض اوقات تو نئے سرے سے لکھنا پڑتا ہے۔ تاہم، میں ایسا نہیں کرتی۔ کیوںکہ میرے خیال میں بچوں اور نئے لکھنے والوں کو زیادہ جگہ ملنی چاہیے تاکہ مستقبل کے لکھاری پیدا ہوسکیں۔
س:کیا اس مطلب یہ لیا جائے کہ بچوں کے صفحات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا؟
ج:کسی حد تک، دراصل کوئی یہ نہیں سوچتا کہ آج کے ان ہی لکھاریوں میں سے کوئی مستقبل کا ادیب، صحافی اور شاعر بنے گا۔ یہ باتیں مجھے بہت پریشان کرتی ہیں۔
س:آخر میں بچوںکے لیے کوئی پیغام؟
ج:الگ سے کیا پیغام دوں، جتنی باتیں کی ہیں ان میں پیغام ہی تو ہے، بچوں کے لیے اور کچھ بڑوں کے لیے بھی۔

تحریر: صفورا نثار