تکریم انسانیت اور ملک کی تشویشناک صورتحال!

Religions in India

Religions in India

تحریر : محمد آصف اقبال
یہ حقیقت ہے کہ ہمارا ملک ایک وسیع و عریض ملک ہے ۔جس کا رقبہ بتیس لاکھ ستّاسی ہزاردوسوترسٹھ کلو میٹرہے۔سرکاری اعداد شمار کے مطابق ملک میں 1.2ارب افراد رہتے ہیں۔ان میں 79.8% فیصد ہندو،14.2 %فیصد مسلمان،2.3 %فیصد عیسائی، 1.7%فیصد سکھ،0.7%فیصد بدھ ازم کو ماننے والے، 0.4%جین، اور 0.9%دیگر افرادہیں۔ملک میں تمام ہی مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں۔ان میں عیسائیت کے ماننے والے بھی ہیں اور اسلام کے ماننے والے بھی، ہندو بھی ہیں توسکھ مت،بدھ مت،جین مت ،زرتشی اور بہائیت کے ماننے والے بھی ۔نیز ایسے افراد کی بھی کافی تعداد موجود ہے جو کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے۔ملک کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ایک ساتھ سترہ سو زبانوں کے بولنے موجود ہیں ۔وہیں یہ بھی دلچسپ لیکن تلخ حقیقت ہے کہ انسانوں کو تقسیم کرنے میں بھی ہمارا ملک دنیا میں واحد ترین ملک ہے یعنی ملک میں تقریباًسترہ سو ذاتیں پائی جاتی ہیں۔ملک کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں انگریزوں کے آنے سے قبل اور جانے کے بعد تمام ہی افراد مل جل کر رہتے آئے ہیں۔

انگریزوں کی آمد نے سماج کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا،’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو ‘کی پالیسی اختیار کی اور اہل ملک اس کا شکار ہو گئے۔ نتیجہ میںملک تقسیم ہوگیا۔نہیں تو ہندوستان جو ہر اعتبار سے ایک عظیم ملک تھاہندوستان ،پاکستان اور بعد میں بنگلہ دیش میں تقسیم ہوکر ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوتا۔اس کے باوجودآج بھی ملک اپنے تنوع ، سماجی تانے بانے ،رشتہ ، تعلقات اور معاملات کے اعتبار سے دنیا کے لیے حیرت انگیز خصوصیات کا مالک ہے۔وطن عزیز کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں حد درجہ تنوع ہے اس کے باوجود ایک ہی گائوں میں مختلف مذاہب کے لوگ اور نسلی گروہ مل جل کر رہتے ہیں۔یہ ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں،خوشیوں اور غموں میں شریک ہوتے ہیں، مل جل کر ہی ملک کی معیشیت اور سماجی تانے بانے کو تقویت پہنچاتے ہیں اورمشترکہ مسائل سامنا بھی ایک ساتھ کرتے ہیں۔تنازعات ہوتے رہے ہیں لیکن فرقہ وارانہ صورتحال اور تشدد وٹکرائو کم ہی ہوتا ہے۔یہاں تک کہ وقتاً فوقتاً فسادات بھی ہوتے رہے ہیں لیکن ان فسادات نے مستقل تصادم کی صورت کبھی اختیار نہیں کی۔دستور کی روشنی میں دیکھا جائے تو دستور بھی تمام فرقوں اور مذاہب کے ماننے والوں کو پوری آزادی دیتا ہے۔

نیز آپس میں بھائی چارہ اور امن وامان کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔دستور کا دیباچہ تمام شہریوں کے درمیان اخوت، بھائی چارہ، مساوات ،آزادی اظہار اور معاشی و سماجی انصاف کے ساتھ ساتھ تکریم انسانیت ،جیسی اعلیٰ قدروں پر زور دیتا ہے۔ملک کا جو مختصر ترین اور خوبصورت نقشہ یہاں کھینچا گیا ہے،اس کا انکار کئے بنا، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ جو کچھ کہا جاتا ہے اور جو اختیارات دستور کی شکل میں موجود ہیں،درحقیقت کیا ان پر عمل درآمدکیا اور کروایا جاتا ہے؟عمل کیے جانے سے مراد اہل ملک کا سماجی اور طبقاتی نظام ہے اور عمل کروایا جانے سے مراد ملک کا نظم و نسق اور عدل و انصاف کے پیمانہ ہیں۔جب ہم تصویر کے اس رخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ملک کی ایک بھیانک تصویر بھی ہماری نظروںسے گزرتی ہے۔جہاں انتہا پسندانہ رجحانات میں تیزی سے اضافہ ہے تو وہیں سماجی تانے بانے کو پارہ پارہ کرنے کی منظم و منصوبہ بند سعی و جہد۔نیز آزادی اظہار پر لگام کسنے کی تیاری ہے تووہیں معاشی و سماجی سطح پرعدل و انصاف کا ہوتا ہوا خون۔

Consciousness

Consciousness

مزید دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ تکریم انسانیت کی بجائے ذلت و خواری انسان کا مقدر بن چکی ہے۔ملک کی یہ دو تصویریں ہیں جن میں سے ایک کو آنکھ بند کرکے دیکھا جا سکتا ہے تو دوسری جگ ظاہر ہے۔آپ کون سی تصویر دیکھتے ہیں؟اور کون سی دیکھنا پسند کرتے ہیں؟یہ مجھے نہیں بلکہ آپ کو خود فیصلہ کرنا ہے۔ہم نے تو اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں اور آنکھیں بند کیے رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ لیکن جسم پر اس وقت تیز جھرجھری طاری ہو جاتی ہے جبکہ آنکھ بند کیے رہنے میں بھی سکون نہیں ملتا۔کیونکہ خواب و خیال میں بھی انسان کو وہی کچھ دکھتا ہے جو اس کے شعور اور تحت الشعور میں موجود ہے۔اور یہ شعور و تحت الشعور اسی وقت ارتقاء پاتا ہے جبکہ آپ کچھ دیکھتے،سنتے اور محسوس کرتے ہیں۔آئیے تکریم انسانیت کے خوبصورت نعروں کے درمیان تذلیل انسانیت کے چند تازہ واقعات آپ کے سامنے بیان کرتے ہیں۔

پہلا واقعہ اڑیسہ کے کالا ہانڈی ضلع کا ہے جہاں ایک قبائلی آدمی اپنی بیوی کی مردہ لاش کندھے پر لاد کر چھوٹی بچی کے ساتھ پیدل چل نکلتا ہے۔وجہ یہ تھی کہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ نعش کو کسی گاڑی سے اپنے گھر تک لے جاسکے۔اس دردناک واقعہ پر ریاست کے وزیر صحت سبّیہ ساچی نے کہتے ہیں کہ حکومت اس تکلیف دہ حادثہ کو لے کر فکر مند ہے،ہم حل تلاش کر رہے ہیںاور مستقبل میں ایسا واقعہ دوبارہ پیش نہ آئے اس کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن غور فرمائیے تو یہ واقعہ ،صرف ایک واقعہ نہیں ہے۔یہ حقیقت ہے اس پورے نظام کی جہاں انسانیت مرچکی ہے ساتھ ہی یہ جنازہ صرف اس مردہ عورت کا نہیں بلکہ یہ اس نظام کی سڑی ہوئی لاش ہے جس کے درمیان ،پرسکون انداز میں ،ہم اور آپ شب و روز گزارتیہیں۔

دوسرا واقعہ ،پنا گرتحصیل ،جبل پور ،مدھیہ پردیش کا ہے ۔یہاں معاشرہ کے ان غنڈہ عناصر نے ایک طبقہ کوادنیٰ قراردیتے ہوئے ،اسی طقبہ کی ایک نعش کو اُس راستے سے نہیں جانے دیا جو ان کے قبضہ میں تھی۔برسات کی وجہ سے چونکہ گائوں کی کچی سڑک ڈوب گئی تھی لہذا میت کے متعلقین میت کو تالاب کے راستے لے جانے پر مجبور ہوئے۔جبکہ جس راستے سے میت کو لے جانے سے روکا گیا تھا،بتایا گیا ہے کہ وہ زمین سرکاری ہے اور غنڈہ عناصر کے قبضہ میں ہے۔

Dead

Dead

سوال یہ ہے کہ یہ اعلیٰ طبقہ ہی کیا غنڈہ عناصر ہے؟اور اُس واقعہ کو بھی سنتے چلئے جس کے سنتے ہی آپ کے روگنٹے کھڑے ہوجائیں گے،اورآپ اپنے سرکر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے۔یہ واقعہ بھی اڑیسہ کے بالاسور ضلع کا ہے۔جہاںریلوے اسٹیشن سے قریب ایک 80سالہ بیوہ خاتون،مال گاڑی کے نیچے آگئی اور موت ہوگئی۔لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال لے جانا تھا،لیکن ایمبولنس کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لاش کی ہڈیاں ٹوڑی گئیں،اس کو ایک بورے میں بھرا گیا،اور دولوگ ایک پوٹلی باندھ ،ڈنڈے پر لاد ،پیدل چل نکلے۔غور فرمائیے گا یہ تین واقعات ہمیں کس جانب سوچنے پر مجبور کرتے ہیں؟کیا یہ واقعات تکریم انسانیت ہیں یا تذلیل انسانیت کے؟واقعہ یہ ہے کہ انسانوں کی تکریم ان ہی جیسے انسانوں کے درمیاں تذلیل میں تبدیل ہوچکی ہے۔اُسی کا نتیجہ ہے کہ جہاں ایک جانب یہ رویّے ہمارے سامنے آتے ہیں وہیں وہ واقعات اور رویّے بھی موجود ہیں جن میں نہایت درجہ ظالمانہ اور دہشت ناک واقعات کی مثالیں سامنے موجود ہیں۔

آپ کو خوب اچھی طرح یا د ہوگاجھارکھنڈ کے اس کم عمر نوجوان کی نعش جسے پیڑ پر لٹکایا گیا تھا دادری میں محمد اخلاق کا بہیمانہ قتل،دہلی ،ہریانہ ،گجرات،مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ،آگرہ اور ممبئی میں چرچوں پر حملے،یونی ورسٹیوں میں دلتوں پر حملے،اور وہ واقعات بھی جو مقدس گائے اور نہ جانے کون کون سے افسانہ گڑھ کر ،پورے ملک میں جاری ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان حالات میں ہم کیا کریں؟ضرورت ہے کہ اُس فکر کو تبدیل کیا جائے جو فکر انسانوں کو کیڑے مکوڑوں سے بھی کمتر سمجھتی ہے،جو انسانوں کے درمیان نفرت کو فروغ دیتی ہے،جو عقیدت کے نام پر تشددکا ذریعہ بنتی ہے اور اس فکر کو بھی تبدیل کیا جائے جو خدائے واحد کو تسلیم نہیں کرتی۔

آپ پوچھیں گے یہ کیسے ہوگا؟ہم بس یہیں کہیں گے کہ اپنے مخصوص دائروں سے نکلاجائے اور عوام الناس کے درمیان روابط بڑھائیں، ان کے دکھ درد اور خوشیوں میں شریک ہوا جائے اور تمام انسانوں کو ایک ماں باپ کی اولاد سمجھتے ہوئے دوریاں ختم اور قربتیں قائم کی جائیں۔ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھی اور رکھوائی جائے کہ مظلوم کی بد دعا اور اللہ کے درمیان کسی بھی قسم کا پردہ حائل نہیں ہوتاہے!

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com