لا علمی، بے خبری یا صرف تاویلیں

Column

Column

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
ایک عرصے سے ہمارے ملک کے قلم کاروں کے ساتھ ایسے واقعات تسلسل کے ساتھ ہو رہے تھے کہ لکھنے والا بڑی محنت، سوچ، ریسرچ کے بعد ایک کالم لکھتا ہے اور دوسری طرف کوئی سوچ سے عاری بیمار ذہنیت کا لکھاری اسے چرا کر چپکے سے وہی تحریر اپنے نام کے ساتھ شائع کروا لیتا اور اس مکروہ فعل سے اسے روکنے والا کوئی نہ ہوتا ابھی دو تین دن پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک معروف کالم نویس افضال احمد کا کالم جو کہ کافی زیادہ اخبارات میں انہیں کے نام سے پبلش ہوا مگر انکا وہی کالم فیصل آباد کے ایک اخبار میں کسی اور کی تحریر کے طور پر شائع ہو گیا۔

ظاہری بات ہے کہ سماج رواج کے لکھنے والے افضال بھائی کو اس کا دکھ بھی ہوا ہم کسی کی تخلیق کو اپنا کہنے والے عقل و خرد سے نابلد انسان کو لکھاری تو نہیں مان لیں گے ہمارے وطن کے کچھ سیئنر لکھاریوں نے جب ایسے کالم چوروں اور اپناپرانا مواد ” ری پبلش” کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کی ٹھانی تو چائیے تو یہ تھا کہ تمام کالم نویس اس احسن کام میں انکا ساتھ دیتے خواہ کسی بھی رائیٹر کلب یا کونسل سے انکا واسطہ ہوتا کیونکہ یہ تنظیم جسے انویسٹی گیٹیو کونسل ا ف کالمسٹ کا نام دیا گیا تمام لکھاریوں کے حقوق کے لیئے معرض وجود میں آئی۔ اس کا مقصد کسی بھی تنظیم کے ساتھ جنگ یا عناد نہیں بلکہ تمام تنظیمیں اگر بنظر تحقیق بھی اس کا جائزہ لیں تو انہیں انشاء اللہ اپنا ہی ایک بازو محسوس ہو گی کیونکہ یہ تنظیم صرف اور صرف دو نکاتی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اول کالم چوروں کی سر کوبی ،دوم برسوں پرانا مواد محض عنوان بدل کر شائع کروانے والوں کو روکنا اور یہ تحریک پیدا کرنا کہ خدارا برسوں پہلا لکھا ہوا بار بار”ری پبلش ”کروا کے اپنی ہی ضلاحیتوں کو زنگ آلود نہ کرو۔

راقم الحروف پہلے بھی قلم قبیلہ کے ایسے لوگوں سے گزارش کر چکا ہے جس کا الحمدوللہ بہت سے لکھاری بھائیوں نے اثر بھی لیا اور اب وہ اللہ کے فضل سے نیا لکھ بھی رہے ہیں جس سے اب ایک تو قارئین کو پڑھنے کے لیئے کچھ نیا ملے گا جبکہ لکھنے والوں کی بھی صلاحیتوں میں بیش بہا اضافہ ہو گا مگر اب بھی کئی واجب الاحترام دوست اس بات کی مخالفت میں باقائدہ طور پر صف بستہ ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور بڑی بڑی فضول تاویلوں اور کمزور دلیلوں کے بل بوتے پر پرانا مواد ” ری پبلش” کروانا جائز قرار دے رہے ہیں اب میں قارئین کی ذوق طبع کے لئے پرانا مواد چھپوانے والوں کی وہ دلیلیں رقم کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ پرانے مواد کو عنوان بدل کر شائع کروانے والے محترم لکھاریوں کی وکالت کرتے ہوئے ہمارے ایک محترم بھائی کچھ یوں رقم طراز ہیں کہ کسی کی تحریر اس کی ذاتی پراپرٹی ہوتی ہیں وہ جب چاہے اسے شائع کروائے اسے اس کا پورا حق ہے اور دوسرا یہ کہ عنوان بدل کر یا چند سطور بدل کر”ری پبلش” کروانا کوئی صحافتی فراڈ یا دھوکہ دہی کے زمرے میں نہیں آتا پھر میرے اس پیارے اور محترم بھائی صاحب نے دلیل پیش کی کہ جاوید چوہدری صاحب کے لکھے ہوئے کالموں پر مبنی کتاب میں کتابی شکل میں کیا ان کے کالمز” ری پبلش” نہیں ہوئے ؟؟؟،راجہ انور صاحب کی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ساتواں ایڈیشن میرے ہاتھ میں ہے کالمز کا مجموعہ ہی ہے بار بار وہی مواد ہے جو شائع ہوتا چلا آرہا ہے ان کے خلاف تو کبھی کسی نے آواز نہیں اتھائی بلکہ ان کتابوں کو بے حد پذیرائی ملی لہذ”ا ری پبلش ”کروانا جرم نہیں بلکہ اعزاز کی بات ہے کہ عوام میں یہ تحریریں کس قدر مقبول ہیں۔

Columnist

Columnist

اللہ پاک میرے اس بھائی کے قلم کی عظیمی کو مزید عظمت و رفعت سے نوازے تو جناب میری گزارش کو بھی غور طلب او ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ جناب اگر جاوید چوہدری صاحب اور راجہ انور صاحب نے اپنے کالمز کو کتابی صورت میں پبلش کیا تو اس پریہ لازمی لکھا ہوا ہو گا کہ فلاں شخصیت کے کالموں کا مجموعہ اور اگر اس کتاب کی طلب بڑھتی ہے اور دوبارہ چھپوائی جاتی ہے تو اس پر یہ لازمی پرنٹ کیا جاتا ہے کہ دوسرا ایڈیشن ،تیسرا ایڈیشن ،چوتھا ایڈیشن وغیرہ وغیرہ ۔آپ جن معززین کی وکالت کرتے ہوئے لکھ رہے ہیںکیا وہ اپنا آرٹیکل کسی ادارے کو میل کرتے ہوئے کبھی اس اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ یہ وہی کالم ہے جو گذشتہ برسوں سے لگاتا”ری پبلش” ہو رہا ہے؟؟؟ کیا کبھی ایسا کیا ہے انہوں نے ؟نہیں ،ہر گز نہیں بلکہ نہائیت دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے پرانے لکھے ہوئے مضمون ہی ”تازہ پیکنگ” میں پیش کرتے ہیں۔

میں حلفاًً کہہ سکتا ہوں کہ وہ کبھی بھی اپنے کالم کے سرورق پر یہ الفاظ نہیں لکھیں گے کہ متواتر کئی برسوں سے پسندیدگی کے ریکارڈ قائم کرنے والی تحریر ایک بار پھر ارسال خدمت ہے ،کالم کی چھٹی سالگرہ ،اگر یہ الفاظ نہیں لکھ سکتے یا پبلش نہیں کروا سکتے تو پھر وہ دھوکہ دہی کے ہی زمرے میں آتے ہیں کیونکہ یہ لکھ دینا اتنا آسان نہیں اور نہ ہی یہ الفاظ پڑھ کر کوئی ایڈیٹر اسے پبلش کرے گا اگر ایک آرٹیکل ایسے لکھاری نے کسی شخصیت کی چونتیسویں برسی کے موقعہ پر لکھا اور اسے ہی انتالیسویں برسی پر بھی صرف ہیڈ لائین بدل کر ارسال کر دیں تو کیا اسے صحافتی دیانتداری گنا جائے گا ؟دوسری بات جو میرے محترم دوست نے وکالت کرتے ہوئے دلیل کے طور پر کہی وہ یہ تھی کہ ٹی وی پر برسوں پرانے ڈرامے بار بار دکھائے جا رہے ہیں اور سالوں بعد بھی لوگ ان کو پسند کر رہے ہیں اسی طرح اگر کالم برسوں بعد بھی شائع ہو تو کیا برائی ہے ؟پھر وہی بات عرض کروں گا کہ برسوں پرانے ڈرامے جب ری ٹیلی خاسٹ کئے جاتے ہیں تو ٹیلی ویژن کی سکرین کے ایک کونے کو کبھی غور سے دیکھئے گا جس پر واضح طور پر لکھا ہوتا ہے” نشر مکرر” آپ جن ہستیوں کی وکالت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں انہوں نے کبھی یہ لکھ کر بھیجا اخبارات کے محترم ایڈیٹر صاحبان کو ؟اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں وہ صاحبان قلم ، نئے لکھاریوں کے راستے کی دیوار بن رہے ہیں۔

وہ قلم کار ،مجھے ہر گز ان کی صلاٰحیتوں پر شک نہیں جو برسوں پہلے اچھا لکھ سکتے تھے وہ آج برسوں بعد بھی نئی تخلیق کاری کا فرض سر انجام دے سکتے ہیں پھر یہ سہل پسندی وکام چوری کی روش کو ترک کر کے خدارا کچھ نیا ادب تخلیق کر لیں زمانہ بہت آگے نکل گیا ہے اور ایک ہم ہیں کہ ابھی تک وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ ذاتیات کی جنگ بنانے کی بجائے فروغ علم و ادب کے لئے اپنے فرائض کی انجام دہی کو اپنا فرض اولین بنائیں اور اگر کوئی اصلاح کی نیت سے آپ پر تنقید کرتا ہے تو اس کا مشکور ہوں کیونکہ تنقید برائے تعمیر سے قومیں ترقی کے زینے طے کرتی ہیں اور تنقید برائے تخریب قوموں کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے ۔ خدارا ہم سب پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنا اپنا قبلہ درست کر لیں۔ ملک و ملت کے فروغ و ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہے ہمیں ،ادب دوست معاشرے کی تعمیر کا قرض ہے ماں دھرتی کا ہر لکھنے والے پر اور اس کے لئے قسم بخدا کچھ نئی راہیں تراشنی ہونگی ،نئے تخلیق کاروں کی راہنمائی کا فرض ہے ہم سب پر ،آیئے اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے مثبت اور تعمیری سوچ کو فروغ دیں اپنی اصلاح کی بجائے اس مسئلے کو صحافتی پا نا مہ لیکس نہ بنائیں اور اس بات کی ضد نہ کریں کہ جو ہم کہتے ہیں وہی سچ ہے جھوٹی تاویلیں گھڑنے سے بہتر ہے کہ اپنی اصلاح کریں۔

M.H BABAR

M.H BABAR

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile;03344954919
Mail;mhbabar4@gmail.com