تارکین وطن اور بھارتی ذلت

Immigrants

Immigrants

تحریر : شاہ بانو میر
تارکین وطن میری نگاہوں میں کئی بڑے نام ایسے گونج رہے ہیں جن پرایک وقت ایسا آیا کہ انہیں رکھنے والوں نے انکار کرتے ہوئے سردی میں بیگ ہاتھ میں پکڑا کرنکال باہر کیا تھا ایسے حالات یہاں کم و بیش ہرکامیاب انسان کو بھگتنے کے بعد جا کر ال کہیں اللہ کا کرم حاصل ہوا عمر بھر تگ و دو کرنے والے سب ہی تارکینَ وطن بڑے لوگ اور کامیاب لوگ نہیں بن جاتے اکثریت دنیا میں بڑہتی ہوئی معاشی بد حالی کی وجہ سے پاکستان کے سفید پوش طبقے کی یاد دلاتی ہے۔

اپنے اخراجات میں سے منہا کر کے ابھی بھی اکثیریت ایسی ہے جو پاکستان مخصوص رقم بھیجتی ہے تا کہ ان کے گھر والے زندگی سہولت سے مہنگائی کے دور میں گزارسکیں اوراکثرگھروں میں میاں بیوی کے درمیان ناچاکی کی اصل وجہ ہی یہ مخصوص خرچہ ہے بیوی بچوں کی ضروریات پوری ہوتے نہیں دیکھتی تو کڑہتی ہے گھروں کا معیارَ زندگی بڑہانے اچھے رشتوں کے حصول والدین کی بیماری حج جیسی سعادت کی فکر اور ان تمام فرائض کے بعد یہ لوگ صرف متقاضی ہیں کہ ان کی پردیس میں عزت بڑہے کہ ان کے گھر والے خوشحال ہیں دوست احباب جب اکٹھے ہوں تو دورانَ گفتگو یہ اعتراف کیا جائے کہ جناب کیا بات ہے آپکی ماشاءاللہ اپنے خاندان کو کہاں پہنچا دیا۔

Migrants

Migrants

آپ نے اسی طرح سخت محنت کر کے بلندی پر جانے والے کچھ تارکینَ وطن جب اپنے شاندار نظام کے تعارف کے ساتھ بین القوامی کانفرنسسز میں جاتے ہیں سامنے پوری دنیا کے مندوبین بیٹھے ہوں ایسے بھی ہوں جن کا دنیا میں کوئی خاص نام نہ ہو لیکن وہ بڑے کرو فر سے اپنے ملک کی اصل کامیابی بیان کرے کہ اس کا ملک گزشتہ دس سال میں کس شعبے میں کس بلندی پر پہنچا ہے ہال میں گونجتی تالیاں اور سراہتی نکھیں اُس وقت ہمارے تارکین وطن کے چہروں کو واقعی تاریک کر دیتی ہیں ایسے میں وہاں سوال اٹھا دیا جائے کہ جناب والا آخر کیا وجہ ہے بھارت بار بار آپکی اتنی بے عزتی کرتا ہے یہ کونسا برابری کا اعلیٍ معیار ہے جو آپ کی بے حس حکومت کو کسی سطح پے نظر نہیں آتی۔

اس حکومت ،کی ایک ہی رٹ ہے جئے بھارت ماتا جتنا ظلم آجکل مسلمانوں پر گائے کے ذبیحے کی آڑ میں کیا جا رہا ہے ایسی بربریت کی مثال نہیں ملتی کشمیر میں جو کچھ کیا جا رہا ہے وہ آخر اس حکومت کو نظر کیوں نہیں آتا ؟ پاکستان کے لوگ بیچارے تو غربت و افلاس کی چکی میں پسَے جا رہے ہیں وہ تو بے حس ہو چکے کہ تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے اس لئے وہ اب کسی امتی مسئلے میں پڑ کر قومی مسئلے کو اٹھا کر اپنی ذات کو پریشان نہیں کریں گے کہ ماضی میں ہوئے افغان جہاد روس دشمنی نے نسلوں کو برباد کر کے ذہنی خلجان میں مبتلا کر دیا ہے ‘ واحد ملک ہے دنیا میں پاکستان جہاں دہشتگردوں کی آمجاگاہیں یوں بنا دی گئیں ہر گھٹیا فعل کے پیچھے اُس وقت کی حکومت کے اعلی نمائیندے ملوث تھے سوچئے آج ہم جیسے تارکین وطن کس ہزیمت کا شکار ہو رہے ہیں۔

Pakistan for  Overseas Pakistanis

Pakistan for Overseas Pakistanis

جب ہمارے ناچنے کودنے والے ذلیل و خوار ہو کر بھارت سے نکالے جا رہے ہیں کھیل کا میدان دھمکیوں سے ذلت بھرے طعنوں سے تمام دوارنیے گونجتا رہتا ہے کتابوں کی رونمائی ہو یا کسی اور شعبے کی تقریب ایسی ذلت کچھ تو خدا کا خوف کریں آپ سب کی اوچھی حرکتیں آپ کے لالچ اور خودی کا خاتمہ ہم جیسوں کو خون کے آنسو رلا رہا ہے آپ سب ایسی بے حمیتی کا بار بار شکار ہو رہے اور پھر بھارت بھاگتے ہیں یہ ٹکے کتنے کما لیں گے؟ کتنا خوارہوں گے ان دنیاوی خداؤں کے پیچھے کتنی غیرت کو سلائیں گے صرف کچھ شہرت نام اور پیسے کیلئے؟ وہ کتاب کیا سبق دے گی جس کو اتنی ذلت کے بعد سامنے آنا نصیب ہوا ہو؟ سوچیں ہم یہاں سب قومیتوں کے درمیان رہتے ہیں ایسی ذلت آمیز تشہیر بھارتی میڈیا خوب زورو شور سے کرتا ہے۔

ان سب کے تضحیکی تذلیلی انداز ہمارے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہمیں مار دیتے ہیں کیونکہ تارکینَ وطن وہ کامیاب عمارت ہیں پاکستان کی جن کی بد نصیبی یہ ہے کہ بنیادی اینٹ پاکستان بہت کمزور اور مسلسل نحیف ہو کر ڈول رہی ہے ایسے میں عمارت کو اوپر سے کتنا ہی لیپا پوتی کر لیں مرکز کمزور تو عمارت پیسہ ٹاور کی طرح بہت سست روی سے زمین بوس ہوتی دکھائی دیتی ہے اللہ حکومتَ وقت سے التجا ہے۔

تارکینَ وطن کے دکھ کو سمجھیں اور غیر کے ساتھ براری کی سطح پر اس وحشی دشمن کے ساتھ برتاؤ کریں جو مسلسل ہمارے ملک کو راکھ کا ڈھیر بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے چاروں صوبے اسکے نشانے پر ہیں آنکھیں کھولیں ہمارے کرب کو ہماری اذیت کو محسوس کریں خدارا ہمیں بیرونی دنیا میں کمزور نہ کریں بلکہ طاقتور پاکستان کا تصور پیش کریں مصلاحاتی سوچ کو ختم کر کے علاقے میں برابری کا تصور راسخ کریں تا کہ مستقبل کی ہوتی قیمتی سرمایہ کاری محفوظ کی جا سکے اور بیرون ملک اس کو مکمل تحفظ کے ساتھ یش کر کے مزید شعبوں میں دنیا سے تعاون بڑھانے کیلئے یہ تارکین وطن اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر