عمران خان غیر قانونی دولت اکٹھی کرنے میں ملوث ہیں، پرویزرشید کا دعویٰ

Pervaiz Rashid

Pervaiz Rashid

لاہور (جیوڈیسک) وفاقی وزیراطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان خود غیرقانونی طور پر دولت اکٹھی کرنے میں ملوث ہیں اور ان میں اخلاقی جرأت نہیں کہ وہ کمیشن کا سامنا کرسکیں ۔

لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی آمدنی سے تو بنی گالا کے بل بھی پورے نہیں ہوتے اور چندے سے متعلق کیسز بھی عدالت میں زیر التوا ہیں لیکن وہ کیسز کا سامنا کرنے سے گریزاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے اعلان کردہ ٹی او آرز سامنے آئے تو عمران خان کے پتلی تماشوں پر سرمایہ کاری کرنے والے تحقیقات سے پریشان ہوگئے اور اپنی داڑھی میں تنکا دیکھ کر انہوں نے کمیشن کو ماننے سے انکار کردیا۔

سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ پاناما لیکس میں وزیراعظم نوازشریف کا کوئی حوالہ نہیں اور وزیراعظم کے خاندان کے جن افراد کے نام پاناما پیپرز میں آئے بھی ہیں تو ان کے خلاف بھی قانون کی خلاف ورزی یا بے قاعدگیوں کا کہیں ذکر نہیں لیکن پھر بھی وزیراعظم نے شفاف تحقیقات کےلئے کمیشن کا اعلان کرکے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے جس کمیشن کا اعلان کیا گیا اس کا ضابطہ کار مکمل طور پر جامع ہے جس کی تفصیل بھی بعد میں پیش کی جائے گی۔

وفاقی وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے صاحبزادوں کی جانب سے آف شور کمپنیز قانونی طور پر کاروباری مقاصد پورے کرنے کے لئے بنائی گئیں اور وزیراعظم کی ہدایت پر کمیشن آف شور کمپنیز کے حوالے سے تحقیقات کرے گا جس کے لئے فیصلہ کیا گیا تھا کہ ریٹائرڈ ججز پر مشتمل کمیشن بنایا جائے لیکن عمران خان کے رویئے نے تمام معاملے کو دشواربنا دیا، ان کا دامن صاف نہیں اس لئے وہ سپریم کورٹ کے ججز سے خوفزدہ ہیں اور پہلے بھی عمران خان نے 2014 میں کمیشن کی رپورٹ پر حاضر سروس ججز پر کیچڑ اچھالا تھا اور انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے ججز کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

وفاقی وزیرنے کہا کہ ہم ایک بار نہیں بلکہ 3 بار کڑے احتساب کی چھلنی سے گزر چکے ہیں، پہلے احتساب میں شہباز شریف اس وقت جیل گئے جب حمزہ شہباز صرف 16 برس کے تھے، ایک سیاسی مخالف نے تو نواز شریف اور ان کے خاندان کو 7 سال وطن سے دور رکھا جب کہ ایک سیاسی مخالف کوہمارا وجود ہی برداشت نہیں تھا لیکن تینوں احتساب میں ہماری جانب سے سرکاری وسائل کے استعمال کا وجود ہی نہیں ملا اور آج بھی ہم احتساب کے لئے تیار ہیں۔