کفن ہمارا جوڑا ہے اور قبر بنی سسرال

Hanging

Hanging

تحریر : جنید رضا
کراچی کے معروف علاقے اورنگی ٹائون میں پیش آنے والا یہ سچا واقعہ، میرے دوست نے مجھے سنایا ہے۔ شفیق صاحب ایک غریب گہرانے سے تعلق رکھتے تھے ان کی صرف دو ہی بیٹیاں تھی، جو اب جوانی کی عمر میں داخل ہوچکی تھیں ،باپ کو دن رات یہی بات ستاتی تھی کہ وہ اپنی ان جوان بیٹیوں کا نکاح کیسے کرے گا وہ ایک نچلے درجے کے ریلوے ملازم تھے ،گو کہ وہ ملازم تو ضرور تھے لیکن محکمہ سے اسے تھوڑی سی تنخواہ ملتی تھی ،جس سے بڑی مشکل سے وہ ان دو بیٹیوں کااور اپنی بیوی کا پیٹ پالتا تھا۔ جیسے جیسے وقت گذرتا گیا شفیق صاحب کی پریشانی دن بدن بڑھتی گئی۔بیٹیوں کے لئے رشتے پہ رشتے آتے گئے لیکن غریبی اور بے بسی کے آگے دونوں میاں بیوی بہت لاچار ہو گئے تھے، بارگاہِ الہی میں ہاتھ اٹھا کر بس یہی دعائیں کرتے رہتے تھے کہ: اے خدا ہمیں اس لائق بنا دے کہ ہم با عزت اپنی بیٹوں کا نکاح کروا کر اپنا فرض ادا کر سکیں یہی ہماری پہلی اور آخری خواہش ہے۔

مجبور باپ نے اپنے دفتر میں مدد مانگی، پھر اپنے رشتہ داروں کے پاس مدد کی امید ظاہر کی کہ میری مدد کرو، تاکہ میں باعزت اپنی بیٹوں کا نکاح کروا کر اپنے باپ ہونے کا فرض ادا کر سکوں۔لیکن سب بے سود ثابت ہو ا،سب لوگ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے ،حیلے بہانے بناتے رہے، کسی نے مہنگائی کی کہانی سنا کر نفی کر دی تو کسی نے اپنی ہی پریشانی سنا کر بے آس کر کے واپس لوٹا دیا۔

شفیق صاحب دن بھر دفتر میں حاضری دے کر ایک فرض تو پورا کررہاتھا لیکن اس کو اس بات کا غم پل پل کھائے جا رہا تھا کہ اس کی زندگی کا اصل مقصد کب پورا ہوگا، شام کو جب وہ گھر لوٹ آتا اور اپنی نوجوان بیٹیوں کا معصوم چہرہ دیکھتا اور آنسوں بہاتا رہتاکہ میری معصوم بیٹیوں کی قسمت میں خدا نے نہ جانے کیا لکھا ہو گا ۔ بیٹیاں کافی سمجھدار تھیں جب وہ اپنے مجبور باپ کی اس تکلیف کو دیکھتی تھیں تو وہ بھی تنہائی میں جاکر اپنی آنکھیں نم کر لیاکرتی تھیں۔انسان وقت اور حالات کے سامنے مجبور ہوتا ہے، ایک دن جب شفیق صا حب اپنے ملازمے سے گھرلوٹے ،کچھ وقت بیٹیوں کے ساتھ بیتایا اور پھر آرام کرنے کے لئے چلے گئے۔ تو اسی دوران حالات نے شفیق صاحب کو اس قدر مجبور کیا کہ اس کے ذہن میں ایک خطر ناک سوچ نے جنم لیا، جب وہ بستر پہ لیٹے تو سوچ میں گم ہو گئے ،سوچتے سوچتے وہ اس نتیجے پہ پہنچے کہ میں ایک ریلوے ملازم ہوں اگر میری موت ہوگئی تو میرے مرنے کے بعد میری بیوی کو پیسے ملیں گے جس سے وہ ان بیٹیوں کی شادی کر سکے گی۔

اس نے سوچا کہ صبح کام پہ نکلتے ہی میں کسی گاڑی کے سامنے آجائونگا اور اپنی جان دے دوں گا کیونکہ میری جان نہیںمیری بیٹوں کی عزت سے بڑھ کر ۔ لیکن ادھر بیٹیوں کی سوچ میں بھی ایک دم تبدیلی آگئی ،وہ ماں باپ کی اس پریشانی کا شکار ہو کر رہ گئی کہ آخر ہم اپنے ماں باپ پہ بوجھ بن کر رہ گئیں ہیں۔رات بھر چار افردپہ مشتمل یہ چھوٹا سا کنبہ اپنی اپنی پریشانی میں مبتلا رہا ۔ صبح کا سورج طلوع ہوا ،لیکن آج کا طلوع ہونے والا سورج شفیق صاحب کے گھرکے لئے روشنی لے کر نہیں ،بلکہ اندھیرا لے کر آیا تھا ۔صبح جب باپ حسب ِ معمول اپنے دفتر نکلا، تو کچھ ہی دیر بعد ان کے انتقال کی خبر آگئی، یہ خبرمحلے میں آگ کی طرح پھیل گئی۔

محلے والے اپنے گھروں سے باہر نکل کر ایک بعد ایک ان کے گھر جانے لگے، جب بیوی نے سنا تو وہ غم کے مارے اپنا سینہ پیٹنے لگی ،آہیں بھرنے لگی ، زور زور سے اپنے قسمت پہ رونے لگی اور اپنی جوان بیٹیوں کو آواز دینے لگی، آ ئویکھو تمہارے بابا کی کیا حالت ہو گئی ہے، اب آپ کے بابا آپ کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلے گئے ہیں ۔لیکن ماں کی لاکھ آوازیں دینے پر بھی بیٹیاں باہر نہیں آئیں۔ ماں نے اندر جا کر دیکھا تو دونوں بیٹیوں نے خود پھانسی دے اپنی جانوں کا خاتمہ کرلیا تھا ۔اور اپنے بابا کے نام ایک خط چھوڑا تھا ،جس میں انھوں نے یہ تحریر کیا تھا کہ کفن ہمارا جوڑا ہے اور قبر بنی سسرال۔

Junaid Raza

Junaid Raza

تحریر : جنید رضا
متعلم ,جامعہ بنوریہ عالمیہ،سائٹ کراچی
ای میل ایڈریس:junaid53156@gmail.com
فون نمبر:0310-2238341