سانحہ پشاور، مقامی اخبارات اور ادبی تنظیموں کا خراج تحسین

Terrorism

Terrorism

تحریر: رانا عبدالرب/پکار
وطن عزیز میں دہشت گردی کی عمر نصف صدی سے زیادہ ہے۔اس ناسور نے ناجانے کتنے معصوم جانوں کو لقمہ اجل بنا دیا اور نہ جانے کتنے اور اسی آگ میں جلے ہیں۔آئے روز دھماکوں نے اس سر زمین کو جو محبتوں کی امین ہوا کرتی تھی کو اس قدر داغ دار کیا کہ امن ایک علامت کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔امن اب شعراء کی شاعری میں ایک استعارہ ضرور ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔نصف صدی سے ہم اس ناسور سے پیچھا نہیں چھڑا سکے ۔

کہا جاتا ہے کہ رات چاہے کتنی طویل کیوں نہ ہو اس کی صبح ضرورہوتی ہے۔آخرش رات کی تاریکی کو صبح کا اجالا نگل جاتا ہے۔پھر وقت آتا ہے کہ لوگ تاریکی کو بھول کر صبح ِ نو میں زندگی کی کھوج لگانا شروع کردیتے ہیں۔جس طرح مندرجہ بالا سطور میں ذکر کردیا گیا ہے کہ دہشت گرد ی اپنی نصف صدی کو پار کر چکی ہے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اس سیاہ رات کی صبح نہ ہوتی۔ 16 دسمبر 2014 کا سورج ایک درد،کرب اور دکھ لے کر تو ضرور نکلا مگر وہاں سورج نے آنکھ کھولی جو قوم دکھ،درد اور کرب کو اس انداز میں خوش آمدید کہتی ہے کہ دکھ،درد اور کرب خود حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔16دسمبر کو ننھی کلیوں کو وحشیوں نے اس طرح مسل کے رکھ دیا تھا کہ درندگی بھی منہ چھپاتی پھر رہی تھی۔مگر انسانیت کبھی کمزور نہیں پڑتی ۔پھر یہ ہوا کہ وہی اس ناسور کو جو نصف صدی کو پار کرکے دھرتی پر اپنا سکہ جمائے ہوئی تھی اس کو ان ننھے معصوم بچوں کے لہو نے ثابت قدمی سے ایک ایسا باب لکھ ڈالا جسے ”ضرب عضب”کہا جاتا ہے۔”ضرب عضب”ایک عہد ہے ان معصوموں کے ساتھ جو اس دھرتی پر اپنے خون سے ایک مثالی داستان لکھ گئے۔

Local Newspapers

Local Newspapers

ایک ایسی داستان جسے ایک سال گزرنے کو آگیا مگر یہ قوم آج بھی بند مٹھی کی طرح ایک ہے۔یہ تبھی ہوتا ہے جب کسی بھی قوم کے دانشور،شاعر،ادیب اور صحافی یک زبان ہو جائیں۔کیوں کہ دہشت گردی کبھی اسلحہ کے زور سے نہیںبلکہ سوچ کی تبدیلی سے ختم ہو سکتی ہے ۔16دسمبر کے بعد مقامی اخبار خصوصاً لیہ سے نکلنے والا روزنامہ”لیہ ٹوڈے”نے جس انداز سے شہدائے پشاور کو خراج تحسین پیش کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔”لیہ ٹوڈے”نے خصوصی ایڈیشن کے ساتھ ساتھ شہدائے پشاور کے لئے ننھی کلیوں کی خوشبوئوں کی مہک صفحہ قرطاس پر اس طرح بکھیری کہ اس مہک سے معاشرہ میں امن کی مہک آنے لگی۔

اسی طرح روزنامہ ”داور” میں چھپنے والی اداریوں اور مضامین میں جہاں دہشت گردی کی پرزور الفاظ میں مذمت کی وہاں شہدائے پشاور کو امن کی کتاب کا پہلا باب بھی ثابت کیا۔روزنامہ”سنگ بے آب”نے شہدائے پشاور کے حق میں خصوصی ادبی ایڈیشن کی اشاعت کرکے دہشت گردوں کو یہ پیغام دیا کہ سانحہ پشاور جیسے واقعات ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتے۔روزنامہ”معرکہ”نے مثبت صحافت کو فروغ دیتے ہوئے حقیقی صحافت کا حق ادا کیا۔لیہ سے چھپنے والے دیگر اخبارات روزنامہ”شناور”روزنامہ”نوائے تھل”روزنامہ ”سنگ سفر”روزنامہ ”سفیر انصاف”روزنامہ ”اپنی بات”ہفت روزہ”فخر تھل،ہفت روزہ”نگران تھل”نے بھی معصوم بچوں کو بھرپور انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔

Pakistan

Pakistan

جہاں اخبارات نے اپنا حق ادا کیا وہاں لیہ بھر کی ادبی تنظیموں نے امن کے ایسے دیپ جلائے کہ ان کی وشنی سے معاشرہ روشن ہو گیا۔ان ادبی تنظیموں میں فروغ ادب لیہ کی کاوشیں بلاشبہ لائق تحسین ہیں جنہوں نے شہدائے پشاور کی یاد میں آل پاکستان ادبی اکٹھ کرکے یہ ثابت کر دیا کہ ادب ہمیشہ ان شہدائے کے ساتھ ہے جن کاتعلق اس دھرتی سے ہے۔اسی طرح بزم عارش گیلانی جمن شاہ نے مضافات میں امن مشاعرہ کرکے یہ پیغام دیا کہ امن و آشتی اشعار سے پھوٹتی ہے اور یہ امن و آشتی دہشت گردی جیسے ہتھیار کے مقابلہ میں بہت مضبوط ہتھیار ہے۔ بزم دانش اور لیہ ادبی فورم لیہ نے سماج میں مکالمہکو فروغ دے کر یہ ثابت کیا کہ مکالمہ کی کوکھ سے کبھی جھوٹ نہیں پنپ سکتا بلکہ مکالمہ سچ کو جنم دیتا ہے ۔بزم لطیف نے فتح پور شہر میں چاہت کے ایسے دیپ جلائے کہ سبھی ایک ہو گئے ۔بزم افکارو دیگر نے بھی امن کے فروغ اور دہشت کے خلاف کھلا اعلان جنگ کیا۔

اسی طرح لیہ کے ادیب،شعراء ااور دانشوروں نے قومی اور مقامی اخبارات میں سانحہ پشاور کے شہدائے کو امن کے ماتھے کا جھومر قرار دیتے ہوئے صفحہ قرطاس پر لفظوں کے ایسے موتی پروئے کہ ایک ایک دانہ اپنے اندر بے پناہ خوشبو سموئے ہوئے ہے۔ان میں ڈاکٹر افتخار بیگ،ریاض راہی،شاکر کاشف،منیر شوق،صابر عطا،ڈاکٹر گل عباس اعوان،ڈاکٹر حمید الفت ملغانی،ڈاکٹر ملک امیر محمد،مہر اختر وہاب،ایم۔بی راشد،عارش گیلانی،خالد ندیم شانی،سلیم آکاش،عمر جی تنہا،خالد خیال،ڈاکٹر مزمل حسین،ناصر ملک،جسارت خیالی،رضا کاظمی،سعید سوہیہ،عبداللہ نظامی،عبدالرحمن فریدی،محسن عدیل،مہر ارشد حفیظ سمرا،یوسف حسنین نقوی،شفقت بزدار،شفقت عابد و دیگر شامل ہیں۔