چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

Salary

Salary

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
یہ بات بلکہ فرمان بچپن سے پڑھتے اور سنتے آ رہے ہیں کہ مزدور کو مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کردو مگر ہمارے ہاں اس کے بالکل برعکس کیا جا رہا ہے یہاں پہ تو یہ حال ہے کہ مزدور کو مزدوری اس کا خون خشک کرنے کے بعد بھی ادا نہ کرو اگر وہ اپنے حق کے لئے آواز اٹھائے تو دو چار ہڈ یاں بھی توڑ دو تو کوئی مذائقہ نہیں ایسے چند واقعات میری نظروں سے بھی گزرے ہیں کہ اجرت مانگنے والا عبرت کا نشان بن جاتا ہے۔ سب سے پہلے میں بات کروں گا بہاولپور کے کانسٹیبل دین محمد کی جسے سات ماہ سے نہ کوئی تنخواہ دی گئی اور نہ ہی اسے انسان کی ہی حیثیت دینا مناسب سمجھا گیا یہاں تک کہ اس کے گھر میں فاقوں نے حکومت قائم کر لی اس کے بچوں کو فیس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے سکول سے خارج کرنے کی وارننگ دی گئی۔

ارباب اختیار کے دروازوں پر بارہا دستک دینے کے بعد جب اس کی فریاد کسی نے نہ سنی تو اس نے کسی کے کہنے پر اپنا احتجاج سوشل میڈیا پر ویڈیو کی صو رت میں چلا دیا پھر اس احتجاج کے بعد اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کرنے کی بجائے اسے لاتوں اور گھونسوں میں رکھ لیا گیا کہ تیری یہ ہمت ۔ تو نے حاکمین وقت کے خلاف زبان کھولنے کی جسارت کی تو کیوں کی تو جانتا نہیں کہ قانون کس قدر طاقتور ہے ۔جب یہ بات عام ہوئی کہ کانسٹیبل دین محمد کو پنجاب کے شیر پتروں نے خوب پھینٹی لگائی ہے اور وہاں کے ڈی ایس پی کی موجودگی میں تو ایک بار ایسا لگا جیسے میرے جسم کا تمام خون جیسے منجمد ہو گیا ہو کہ بھلے آدمیوں تم نے یہ بھی نہ دیکھا کہ دین محمد کسی مجبوری کی وجہ سے ہی واویلہ کرنے پر مجبور ہوا ہے چاہئے تو یہ تھا کہ اس کی فریاد پر اس کی ٹھکائی کرنے کی بجائے اس کی دلجوئی کی جاتی مگر دلجوئی کرنے کی بجائے اسے ذہنی مریض کہہ دیا گیا کہ جناب ہم نے تو اس پر کوئی تشدد نہیں کیا وہ تو ذہنی مریض ہے جھوٹ بول رہا ہے۔

جی ذہنی مریض ہی تو ہے جو اپنی سات ماہ کی تنخواہ مانگ رہا ہے ؟ وہ ذہنی مریض ہی تو ہے جس کے بچوں کو فیس نہ دے سکنے کی وجہ سے سکول والے نکالنے کا کہہ رہے ہیں ؟وہ ذہنی مریض ہی تو ہے جو اتنا تعلیم یافتہ ہو کر پانچویں سکیل کی نوکری کر رہا ہے ؟اگر وہ ذہنی مریض تھا تو آپ کس قانون کے تحت اس سے ڈیوٹی لیتے رہے بلکہ وہ بیچارہ تو پہلے ہی اپنی حق گوئی کی وجہ سے زیر عتاب ہو کر اس ڈیوٹی پر آیا تھا اسے ایک معزز سیاستدان کے خلاف سرعام بولنے کی وجہ سے ہی تو سولہویں سکیل کی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے تھے نہ وہ ممبر پنجاب اسمبلی چنڑ صاحب کو کرپٹ کہتا اور نہ ایجوکیٹر سے بیک گئیر لگتا اس کا اور وہ وائرلیس آپریٹر کی سیٹ پر آتا ۔سننے میں یہ آیا ہے کہ نوجوان دین محمد اعلی تعلیم یافتہ شخص ہے اس نے ایم اے ایم فل کر رکھا ہے NTS کا ٹیسٹ کلئیر کرنے کے بعد اس کی تعیناتی بطور ایجوکیٹر ہوئی بد قسمتی سے ایک جلسہء عام میں اقبال چنڑ کے خلاف زبان کھول بیٹھا یہاں سے اس کی تنزلی کی داستان شروع ہوگئی اور وہ پولیس میں پانچویں سکیل پر آ گیا اسکے واجبات نہ تو محکمہ تعلیم نے دیئے اور نہ ہی پولیس میں اس کی کوئی شنوائی ہوئی پولیس والے کہتے کہ محکمہ تعلیم دے گا اور ادھر سے بھی اسے کچھ حاصل نہ ہو رہا تھا۔

تب جا کہ اس نے یہ قدم اٹھایا کہ سوشل میڈیا پر ویڈیو چلا دی کہ شائید اس طرح اس کی داد رسی کا کوئی سبب بن جائے مگر کامیابی کی بجائے اسے تشدد کی صور ت میں انعام سے نوازا گیا شائید اسے اس جرم کی سزا دی گئی کہ اس نے خادم اعلی پنجاب کو مناظرے کا چیلنج دے دیا تھا ۔قارئین کرام میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ جب غربت اور مجبوری حد سے تجاوز کر جاتی ہے تو بندہ رب اعلی سے بھی گلے شکوے کرنا شروع کر دیتا ہے مگر کبھی یہ نہیں دیکھا کہ کائینات کا حاکم اللہ پاک اس مجبور انسان کو جواب میں سزا دیتا ہو بلکہ وہ خدائے واحد اس کی مجبوری کو بھانپتے ہوئے اس کی غربت کے خاتمے کے لیئے سبب پیدا کر دیتا ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہی اللہ سے گلے شکوے کرنے والا بندہ بعد میں پشیمان ہو کر اپنے رب سے معافی مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

Punjab Government

Punjab Government

اگر دین محمد نے اپنے سسٹم سے یا پھر پنجاب کے وزیر اعلی سے اپنی مجبوری اور غربت کا رونا رو ہی لیا تھا تو پنجاب حکومت کو چاہیئے تھا کہ اس کی شکائت کا فوری طور پر ازالہ کرتی نہ کہ اس پر دھاوا بولا جاتا اور پھر اسے ذہنی مریض قرار دینا کہا ں کا انصاف ہے ۔تعلیمی ترقی کے لئے سرگرداں وزیر اعلی کو چاہئے کہ دین محمد کو اس کی قابلیت کے مطابق کہیں ایڈجسٹ کریں اور بلا وجہ اس کے خلاف مقدمے قائم کرنے کی بجائے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیں تب تو ہوگا کہ شہباز شریف صاحب سچ مچ تعلیم میں ترقی کے خواہاں ہیں اور تعلیم یافتہ لوگوں کی قدر کرنے والے ہیں بصورت دیگر لوگوں کا یہ گمان یقین میں بدل جائے گا کہ جو حکمرانوں کہ خلاف بولتا ہے اس کا دین محمد جیسا حال ہی ہوتا ہے ۔آپ لوگ تو اسے ذہنی مریض کہہ رہے ہیں میں سمجھتا ہوں وہ ایک بہادر نوجوان ہے اگر اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو کب کا گلے میں پھندہ ڈال کر اس پہ جھول گیا ہوتا ۔ صرف دین محمد ہی ذہنی مریض نہیں اس طرح کی بیسیوں مثالیں میں پیش کر سکتا ہوں کہ جب ایک آدمی کو اس کی قابلیت کے برعکس نوکری دی جاتی ہے تو وہ سب سے پہلے احساس کمتری کا شکار ہو کر آہستہ آہستہ حقیقت میں ذہنی مریض بن جاتا ہے حکومت کو یہ چاہئے کہ نا صرف ملازمین بلکہ عوام کو بھی ذہنی طور پر آسودگی فراہم کرے جو کہ حکومت کا فرض اولین ہے دین محمد کے ساتھ مکمل انصاف کرتے ہوئے شہباز شریف صاحب خود کو حقیقی خادم اعلی ثابت کر سکتے ہیں نہیں تو وہ ذہنی مریض سچ مچ میں پاگل ہو جائے گا اور اس کی اس حالت کا ذمہ دار ازروئے دین حاکم وقت ہی ہو گا ۔اسی طرح کے ایک اور ذہنی مریض کا میں یہاں تذکرہ کروں گا جس کا تعلق شیخوپورہ سے ہے تعلیم جس کی ایم اے ، ایل ایل بی،ڈی ایچ ایم ایس ہے اور محکمہ تعلیم میں ایک چپراسی کی نوکری کرنے پر مجبور آصف رشید نامی یہ شخص٨٧۔ ١٩٨٦ء بطور نائب قاصد بھرتی ہوا مختلف پرائیمری اور مڈل سکولوں میں ایف اے ،سی ٹی اور میٹرک ،پی ٹی سی اساتذہ کے انڈر کام کرتا رہا جب ضلع ننکانہ ضلع بنا تو یہ شخص تحصیل سانگلہ ہل کے قریب ایک گائوں کے مڈل سکول میں فرائض انجام دے رہا تھا اس وقت کی ای ڈی او ایجوکیشن پروفیسر زاہدہ حسنین نے چودہ ایسے نائب قاصدوں کو جنہوں نے بی اے یا اس سے زیادہ تعلیم حاصل کر رکھی تھی انکو ترقی دے کر جونئیر کلرک بنا دیا یہ ان کا ایک لائق تحسین قدم تھا ایک سال بطور جونئیر کلرک تخواہیں بھی لیتے رہے یہ چودہ آدمی پروفیسر زاہدہ حسنین کے بعد آنے والے ای ڈی او نے ان تمام کلرکوں کو دوبارہ نائب قاصد بنا دیا۔

جن میں سے بارہ آدمی جو تنزلی کا شکار ہوئے تھے پنجاب سروس ٹربیونل میں چلے گئے تقریبا دو سال مقدمہ لڑنے کے بعد وہ دوبارہ کلرک کے عہدوں پر واپس آگئے پنجاب سروس ٹر بیونل نے تنزلی والا لیٹر ہی مسترد کر دیا ۔ جس ایک لیٹر کے تحت سارے کلرک سے نائب قاصد بنے جب عدالت نے وہ لیٹر ہی ختم کر دیا تو چاہئے تو یہ تھا نہ کہ جو عدالت نہیں گئے وہ دو آدمی بھی کلرک کے عہدے پر بحال ہو جاتے مگر ایسا ہوا نہیں یہ جو دو آدمی عدالت نہ جا سکے اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کے پاس پیسے نہیں تھے کچھ عرصہ بعد تیرہواں بندہ بھی بطور کلرک بحال ہو گیا مگر آصف رشید تا حال ہوا میں ہے وہ پی ایس ٹی اور صوبائی محتسب کے سامنے حاضریاں دے دے کر ذہنی مریض بن گیا ہے اس کی داد رسی بھی آج تک کسی نے نہیں کی ۔ میں کہتا ہوں آصف رشید ایک طرح سے عقلمندی کا مظاہرہ کر گیا جو حاکم کے سامنے بول نہیں بیٹھا ورنہ اس کی حالت بھی دین محمد سے مختلف نہ ہوتی جب حق تلفیاں ہوں گی ،کسی کو دبایا اور کچلا جائے گا تو یاتو وہ دین محمد کی طرح پھٹ پڑے گا یا پھر آصف رشید کی طرح چپ رہ کر ذہنی مریض بن جائے گا جب قابلیت کو ایک طرف رکھ کر اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش کی جائے گی تو معاشرے میں عدم توازن پیدا ہو گا اور یہی عدم توازن دو چیزوں کو جنم دے گا ایک باغی پیدا کرے گا دوسرا خود کشی کے رجحان کو فروغ ملے گا ۔ اگر اسی طرح حق تلفیاں ہوتی رہیں تو جرائم کی شرح میں بھی کمی آنے کی بجائے جرائم کو فروغ ملے گا لوگ ذہنی مریض یا مخبوط الحواس معاشرہ پروان چڑھے گا اور اللہ پاک نے اگر موجودہ حاکمین پر اپنی رحمت سے انہیں قوم کی خدمت پر مامور کیا ہے تو اپنے دور حکومت میں ایک ذ ہنی طور پر تندرست اور خوشحال معاشرے کی بنیاد رکھ ہی دیں ورنہ جو بھی اپنے حق کے لئے آواز اٹھائے گا اسے پاگل ، دیوانہ یا ذہنی مریض جیسے القابات تو ملتے ہی رہیں گے کوئی ایسا کام کر جائیں اپنے دور حکمرانی میں کہ لوگ آپ کو یاد کرتے ہوئے کہیں کہ یار ان جیسا مثالی حاکم ملکی تاریخ میں کوئی نہیں ہوا ورنہ یہ سوچ تو عام ہے ہی کہ جو حکومت کے خلاف بولے گا پھر اس کی نسلیں بھی یاد کریں گی کہ آئیندہ نہیں بولنا ۔برداشت کے رجحان کو فروغ دیں نا کہ انتقام کے ۔کہیں یہ نہ ہو جس کو آپ کے دربار سے انصاف کے لئے کہا جائے تو وہ جوا ب میں یہ کہہ دے کہ

ہم کو تو عدل کی شاہوں سے توقع ہی نہیں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں

M.H BABAR

M.H BABAR

تحریر : ڈاکٹر ایم ایچ بابر
Mobile ;03344954919
Mail; mhbabar4@gmail.com