تھر کی آغوش میں فاقوں کا نوالہ بن کر

Thar

Thar

تحریر:اختر سردار چودھری ،کسووال
جب بر صغیر میں جس میں تھر پاکر کا علاقہ بھی شامل یہاں انگریز کی حکومت تھی تو ایسی قحط کی صورت حال میں جو کہ بارشیں نہ ہونے کے سبب ہوتی تھی ،حکومت وقت پر امداد ی سامان مثلاََ پانی اورخوراک کا انتظام کر دیا کرتی تھی ۔اس کے بعد پاکستان بن گیا تو تھر کا آدھا حصہ پاکستان کے حصے میں آیا، یہ دنیا کا نواں بڑا صحرا ہے، اس علاقے میں کوئلے ،کرینٹ پتھر ،نمک کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں ،پاکستان کے حصے میں آنے والے تھر کے حصے میںسکھ ، مسلم اور ہندو آباد ہیں ،مارواڑی اور سندھی بولی جاتی ہے ،میں نے کسی جگہ پڑھا ہے کہ 1970 ء تک تھر میں تقریبا ہر سال بارش ہو جایا کرتی تھی۔ اس طرح تھری لوگوں کو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے میں کسی حد تک آسانی رہی لیکن اس کے بعد موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں کا سلسلہ کم ہوتا گیا یا کم بارشیں ہونے لگیں ۔لیکن گذشتہ تین سال سے تھر میں بارش ہوئی ہی نہیں اس لیے یہاں قحط نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔

حکومت کی طرف سے تھر کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا۔ جب وہاں غذائی قلت سے اموات ہونے لگیں اور میڈیا اس جانب متوجہ ہوا تو حکومت کے وزیروں ،مشیروں نے وہاں کا ایک ایک چکر لگا کر کچھ امداد کا اعلان فرما کر اپنا فرض پورا کر دیا ۔تھر میں بھوک ناچتی رہی ،بچے مرتے رہے ،پھر میڈیا پر شور اٹھا تو ۔۔تو پھر وہی حل جو ہر حکومت کے پاس ہوتا ہے کہ جو کام لٹکاناہو اس کی تحقیقاتی کمیٹی بنادی جاتی ہے ۔اب تک قحط زدہ علاقے تھر کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے گذشتہ دو سالوں میں تیسرا عدالتی کمیشن بن چکا ہے ۔ ان کے علاوہ تین وزارتی کمیٹیاں اور ایک پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی بھی بن چکی ہے ۔

Government Ministers

Government Ministers

لیکن ایک بات پر حیرت ہوتی ہے ایک کمیٹی کی رپورٹ آگئی تھی ۔جس میں بتایا گیا تھاکہ تھر میں مرنے والے بچوں کے ذمہ دار حکومتی وزرا ہیں۔اب ایک نیا کمیشن بن چکا ہے ۔جس کی رپورٹ نہ جانے کب آئے گی ۔تھر میں جو بچے غذائی قلت ،بیماری ،سے جان کی بازی ہار رہے ہیں یہ بھی قتل ہے ،لیکن اس کی کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا بچوں کو بھوکے رکھ کر مارنا دہشت گردی نہیں ہے ؟بچوں کے علاج کے سہولیات مہیا کرنا ،ان کی خوراک کا انتظام کرنا ،کس کی ذمہ داری ہے ؟اور جن کی یہ ذمہ داری ہے ان سے پوچھنا کس کی ذمہ داری ہے آیا کہ وہ اپنی ذمہ داری کو کیوں پورا نہیں کر رہے ؟اور اس کی کوئی سزا بھی ہے کہ نہیں ہے؟ تھر میں بچے مرتے رہیں گے ۔یہ ان کے نصیب ہیں ۔موت برحق ہے ،مرنے کے بعد حساب ہو گا وہاں ذمہ داروں کا تعین ہو جائے گا ۔اس وقت بھی تھر کے علاقے مٹھی کے سول ہسپتال میں درجنوں معصوم پھول زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ۔

تھر میں غذائی قلت اتنی ہے کہ جو وہاں گئے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ بچے بھوک سے کمزور ہوتے جاتے ہیں اور سوکھ سوکھ کر جان سے گزر جاتے ہیں ۔تھری عوام کے جان و مال کی ذمہ داری صوبائی اور وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔کیونکہ اتنے بڑے پیمانے پر ،اور اتنے عرصے تک کوئی فلاحی ،خیراتی،این جی اوز،ادارے مدد نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے ۔

Drinking water

Drinking water

ایک طرف این جی اوز فنڈ لیتی ہیں ،بڑے ہوٹلز میں بیٹھ کر اس فنڈ کو کھا جاتی ہیں ( بے شک کہ سب این جی او ایسا نہ کرتی ہوں گی، لیکن اکثر ایسا ہی کرتی ہیں )دوسری طرف تھر ی جن کے نام پر جن کی غربت دکھا کر فنڈ اکھٹے کیے جاتے ہیں، وہ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہوتے ہیں ،گندم کے دانے دانے کو سسک رہے ہوتے ہیں ۔تھر میں زندگی کا انحصار بارش کے پانی پر ہے ،یہاں پر نہر دریا نہیں ہیں ،ریت میں کنویں کھودے جاتے ہیں ،جن میں سے اکثر کڑوا پانی نکلتا ہے ،پانی کے لیے تھر کے باسیوں کو کئی کئی میل کا سفر کرنا پڑتا ہے ،تھر پارکر میں گزشتہ چار سال سے موت کا رقص جاری ہے۔کئی سال پہلے تھر کے اک شاعر نے کہا تھا ۔ ”مھنجے تھر جو حال جے پچھندیں روئی پوندیں روئی پوندیں”(میرے تھر کا حال جو پوچھو گے رو پڑو گے رو پڑو گے ) رواں سال کے دو ماہ میں تھر میں غذائی قلت سے جان کی بازی ہارنے والے کمسن بچوں کی تعداد 200 کے قریب پہنچ چکی ہے ۔ یہ وہ تعداد ہے جو اخبارات میں شائع ہوئی ہے اور صرف بچوں کی ہے۔

اصل میں مرنے والوں کی تعدا د کہیں زیادہ ہو گی ۔اس کے علاوہ تھر میں سسک سسک کر مرنے کی بجائے بہت سے افراد نے خود کشی کر کے جان دینا آسان خیال کیا ہے۔ان کی تعداد ہمارے میڈیا میں بتائی نہیں گئی ۔بیماری جو کہ بھوک کا ہی دوسرا نام ہے، اس سے مرنے والے بھی اس میں شامل نہیں ہیں ۔ہر روز چار سے سات بچے بھوک ،پیاس ،بیماری کی وجہ سے جان کی بازی ہار رہے ہیں ۔اس کا تصور ہی رونگٹھے کھڑے کر دیتا ہے کہ بھوک سے ،پیاس سے اور بیماری سے بچے کیسے سسک سسک کر مر رہے ہیں ،کتنے کرب سے تڑپ تڑپ کر جان نکلتی ہو گی ،اس دوران ماں ،باپ کس بے بسی سے گزرتے ہوں گے ۔

تھر کی آغوش میں فاقوں کا نوالہ بن کر
یہ تڑپتے ہوئے بچے نہیں دیکھے جاتے

اے خدا! چھین لے بینائی میری آنکھوں کی
مجھ سے مرتے ہوئے بچے نہیں دیکھے جاتے

حکومت سے التجا ہے کہ اول یہ کہ فور ی طور پر اپنی ذمہ داری کا احساس کرے ،تھری عوام کو بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرے ۔نہ صرف مہیا کرے بلکہ مہیا کی گئی اشیاء عوام تک پہنچانے کی بھی نگرانی بھی کرے ۔اس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں تھری عوام کی جان بچانے کے لیے ان کی مدد کو پہنچیں صرف اعلان اور نعرے کی بجائے عملی اقدامات کریں ۔

Akhtar Sardar CH

Akhtar Sardar CH

تحریر:اختر سردار چودھری ،کسووال