بھارت کے خلاف ہماری زبانیں آخر کب کھلیں گی؟

Narendra Modi

Narendra Modi

تحریر: علی عمران شاہین
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے تو بنگلہ دیش پہنچ کرپاکستان دشمنی کی انتہا ہی کر دی۔ پاکستان توڑنے میں اپنے ،اپنے ملک اور اپنی مسلح افواج کے کھلے اور بدترین کردارر کا جس طرح اعتراف کیا ،وہ کم حیران تھا لیکن جس طرح پاکستان میں اس پر کوئی خاص ردعمل نہیں ہوا، وہ ضرور حیران کن رہا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کا ایک سال مکمل تو کر لیا لیکن 12 ماہ کے عرصہ میں ان کا سب سے بڑا ہدف پاکستان رہا۔ سرحدوں پر حملے ہوئے تو پاکستان کے اندر دہشت گردی کو بڑھاوا دیا گیا، مودی نے 12 ماہ کے عرصہ میں 18 ممالک کے دورے کئے۔ اکثر دوروں کا مقصد عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنا اور ساری دنیا کو پاکستان کے خلاف ابھارنا رہا۔

بھارت نے جہاں اقتصادی راہداری کی کھل کر مخالفت کی تو اس منصوبے کی منظوری کے ساتھ ہی پہلے فوری چین پہنچ کر چینی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ اگر وہ ممبئی کی بندرگاہ کو استعمال کرے تو وہ راستہ دینے کو تیار ہیں لیکن پاکستان کے راستے سڑک نہیں بننی چاہئے۔ اس کے لئے گلگت بلتستان کے کشمیر کا حصہ اور متنازعہ ہونے کا واویلا بھی کیا جا رہا ہے تو چین کو نئے سے نئے راستے بھی دکھائے جا رہے ہیں۔ مودی کی پاکستان مخالفت میں تو بنگلہ دیش کے دورے میںیہ تک کہہ گئے کہ بنگلہ دیش کا بننا ہر بھارتی کی خواہش تھی کہ بھارت اور اس کی افواج نے بنگلہ دیش بنانے میں ہر لحاظ سے بھرپور کردار ادا کیا ہے اور انہیں اس پر فخر ہے کہ ان کا بھی بنگلہ دیش بنانے میں کردار ہے۔ اس موقع پر حسینہ واجد نے جہاں مودی کو خصوصی ایوارڈ دیا وہیں پاکستانی جنرل اے کے نیازی کے جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی تصویر خصوصی یادگار کے طور پر دی۔

قبل ازیں جب امریکی صدر سال رواں ماہ جنوری میں بھارت آئے تھے اس وقت بھی نریندر مودی نے پاکستان کے حوالے سے شکایتوں کے انبار لگائے تھے۔ اس سے پہلے نریندر مودی نے ہی دورۂ امریکہ میں باراک اوبامہ کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ پاکستان کو پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم بنانے میں کوئی مدد و تعاون نہ دیں اور یہ کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو جنگی سازوسامان کی فراہمی پر انہیں اعتراض ہے۔ اس دوران میں جب وہ کینیڈا اور فرانس پہنچے تو وہاں بھی مودی کا سب سے زیادہ زور اور توجہ اس بات پر ہی رہی کہ یہ ممالک پاکستان سے کوئی تعاون نہ کریں۔

Pak China

Pak China

نریندر مودی کے اس بیان سے پہلے بھارتی سرکار نے پاک چین اقتصادی راہداری کو کھلے لفظوں میں ناقابل قبول کہہ کر اپنی اصلیت اچھے طریقے سے ظاہر کر دی جس کے جواب میں پاکستانی وزیراعظم جناب نواز شریف کو کہنا پڑا کہ بھارت خطے پر قابض اور غالب ہونا چاہتاہے جو انہیں قبول نہیں۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے چینی صدر کے دورہ پاکستان کے فوراً بعد چین کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے میں نریندر مودی نے چین کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ چین پاکستان کے راستے اس اقتصادی راہداری کے منصوبے کو مکمل نہ کرے۔ اس کے لئے بھارت نے پہلے تو یہ کارڈ کھیلا کہ اقتصادی راہداری خطہ گلگت بلتستان سے گزر کر جائے گی اور چونکہ یہ خطہ جموں و کشمیر کا ایک حصہ ہے لہذا چین کو اس کے متنازعہ حصے پر کوئی تعمیراتی کام نہیں کرنا چاہئے۔ بھارت پہلے بھی اس بنیاد پر چین کے ساتھ الجھتا رہا ہے کہ اس کے انجینئرز آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں کیوں ترقیاتی کاموں میں مصروف ہیں، بلکہ بھارت تو یہ پروپیگنڈا کرتا رہا ہے کہ لگ بھگ 15 ہزار چینی فوجی اس خطے میں تعینات ہیں۔ جب بھارت کا یہ گھٹیا وار ناکام ہوا اور چین نے اس معاملے پر بھارت کو صاف اور سیدھے جوابات دیئے تو اس نے پینترا بدلا۔

بھارت کی جانب سے اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ناکام بنانے کا کھلا اعلان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بھارت کا ہمیشہ کی طرح اب بھی پاکستان کے حوالے سے کسی قسم کا رویہ یا مزاج تبدیل نہیں ہوا۔ بھارت کی جانب سے ہمارے اس عظیم الشان ترقیاتی منصوبے کی یوں کھلی مخالفت کے باوجود ہماری سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اس بات کی ضرورت نہیں سمجھی کہ وہ بھارت کی مذمت ہی کر دیتیں۔ آج تک یہ سمجھ میں نہیں آ سکا کہ ہماری سیاسی اور بیشتر مذہبی پارٹیوں کو بھارتی سے ایسا کون سا خوف یا لالچ ہے کہ وہ اس کے خلاف زبان کھولنے کو تیار نہیں ہوتیں۔ پارلیمان میں کھڑے ہو کر اچھے سے اچھے دوست ممالک خاص طور پر سعودی عرب کو تو لتاڑنا سب کو آتا ہے… نکتہ چینیاں بھی سب کے پاس ہوتی ہیں لیکن بھارت کے معاملے میں سب ہی کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔

کیا یہاں سے ملک میں اقتدار دینے بلکہ اس سے بھی آگے زندگی کی سانسیں دینے کا اختیار بھارت کو حاصل ہے کہ اس کی بڑی سے بڑی دشمنی، حملے، سازش، دہشت گردی اور پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے کوششیں ہمارے لوگوں کے سروں کے اوپر سے گزر جاتی ہیں؟ آخر وہ کون سا دن ہو گا کہ ہمارے ملک کا کھانے والوں، یہاں رہنے والوں اور سرزمین پر حکومت کے خواب دیکھنے والوں کو بھارت کی دشمنی نظرآئے گی ا ور وہ اس کے خلاف لب کشائی کی جرأت و جسارت کریں گے۔

Raheel Sharif

Raheel Sharif

بہرحال اس موقع پر پاک سرحدات اور ملک عزیز کے محافظ اعلیٰ آرمی چیف جناب راحیل شریف نے اعلیٰ فوجی افسران کے اجلاس میں بھارت اور کشمیر کے حوالے سے بہت کھل کر بات کی۔ ان کا یہ کہنا کہ کشمیر ایک نامکمل ایجنڈا ہے اور یہ عالمی تنازع ہے جسے حل کرنا پڑے گا۔ ہمارے سیاستدانوں کے لئے اب راہ عمل ہونا چاہئے۔ آرمی چیف نے کھل کر کہا کہ پاکستان نے کسی ملک کے خلاف کوئی پراکسی وار (خفیہ جنگ) نہیں لڑی اور نہ اس کی اجازت دیں گے۔ ان کا یہ بیان اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ ملک کا اصل محافظ ادارہ ملک کی سرحدات اور معاملات کی صحیح معنوں میں نگرانی کر رہا ہے۔ بھارت کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ہمیں کشمیر کے معاملے میں ہر سطح پر نیچے لگائے اور دفاعی پوزیشن میں رکھے۔

بھارت نے اس پالیسی کے تحت یہ بیان جاری کیا کہ وہ کارگل جنگ کے معاملے کو عالمی عدالت اور عالمی فورمز پر لے کر جائے گا، حالانکہ یہ وہی بھارت ہے جو اپریل 1984ء میں ہمارے سیاچن پر چوروں کی طرح قابض ہوا اور آج تک وہاں قابض ہے تواسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ آرمی چیف راحیل شریف کا بیان اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ ہمارے وطن کی اصل محافظ پاک فوج مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو ہر لحاظ سے جائز اور درست سمجھتی ہے۔ کسی ملک میں کبھی مداخلت نہ کرنا یہ ہمارے ملک اور ہماری فوج کا طرئہ امتیاز رہا ہے لیکن اس کے لئے دشمن کی نیت سمجھنا بھی ضروری ہے۔ آرمی چیف نے بھارت کے حوالے سے یہ کہہ کر کہ ”بھارت سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، ہم اس سے نمٹناجانتے ہیں، ”قوم کا حوصلہ بڑھایا ہے جس پر وہ لائق تحسین ہیں۔

بھارت کی یہ کوشش ہے کہ وہ پاکستانی قوم کو اپنا ذہنی غلام بنائے رکھے۔ انہیں یہ باورکرائے کہ بھارت اتنی بڑی قوت ہے کہ اس کے سامنے کھڑا ہونا یا مقابلہ کرنا پاکستان کے بس کی بات نہیں۔حالانکہ ایسا نہیں ہے، ہم اس بھارت کو کئی محاذوں پر شکست دے چکے ہیں اور بھارت تو سری لنکا جیسے ایک چھوٹے سے ملک سے تامل باغیوں کی جنگ کی سازش میںمنہ کی کھا چکا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں بھارت کی ہر نیت، ہر حرکت کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنا اور ملک و قوم کا دفاع کرنا ہے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین