ہندوستان کے خطرناک عزائم اور خطے پر اس کے منفی اثرات

Humanity

Humanity

تحریر: سعیداللہ سعید
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ دور جنگ و جدل کا نہیں۔ بلکہ یہ دور ہے افہام و تفہیم کا، بین المذاہب ہم آہنگی کا اور سب سے بڑھ کر انسان کو انسان تسلیم کرنے کا۔ لیکن افسوس اور صد افسوس کہ بعض عالمی قوتیں طاقت، تکبر اور غرور میں اس قدر مبتلاء ہیں کہ وہ انسان کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ اب جبکہ وہ انسان کو انسان نہیں سجھتے اور خود کو سب سے اعلیٰ اور ممتاز تصور کرتے ہیں بلکہ اس سے ایک قدم آگے یہ کے وہ پوری دنیا اور خطے پر بالادستی کو اپنا حق سمجھتے ہیں تو ایسی قوتوں سے محتاط رہنے میں ہی عافیت ہے۔

یہ صرف ہماری ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی بدقسمتی ہے کہ اس وقت عالمی سپرپاور امریکہ اور خود کو علاقائی سپر پاورسمجھنے والا ہندوستان مکمل طور پر درجہ بالا مرض میں مبتلاء ہے جس سے نہ صرف علاقائی امن بلکہ عالمی امن بھی دائو پر لگا ہوا ہے۔ حالانکہ مذکورہ دونوں ممالک اگر اپنی موجودہ روش ترک کردیں۔ تو یقیناً دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے اس نے دنیا کو بزور قوت زیر کرنے کے بجائے علم و ترقی کا راستہ اپنایا تو آج ہمارے سامنے ہے کہ پوری دنیا اس کی دست نگر ہے۔ آج دنیا کا کون سا ملک اور کون سا گھر ایسا ہے جہاں چینی سائنسی ایجادات اور چینی مصنوعات موجود نہیں۔ لیکن کیا کیجیے انڈیا اور امریکہ کا انہیں یہ سب کچھ نظر ہی نہیں آتا۔

India

India

یا اگر نظر آتا بھی ہے تو طاقت کے نشے میں چور دونوں ممالک اس سے صرف نظر کردیتے ہیں باالخصوص بات کی جائے اگر ہندوستان کی تو صورتحال وہاں اس قدر خراب ہے کہ آدھی آبادی کو مناسب خوراک میسر ہے، نہ پینے کا صاف پانی۔ حتیٰ کہ کئی لوگ بیت الخلاء جیسی سستی اور انتہائی ضروری شے سے بھی محروم ہیں۔ میڈیا کی بعض رپورٹوں کے مطابق ممبئی جیسے چکاچوند والے شہر میں کئی لوگ ایسے موجود ہیں جن کو فٹ پاتھ کے سوا رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ میسر نہیں۔ ایسے حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہندوستانی عوام ایسے افراد کو بطور حکمران منتخب کرتے، جو نہ صرف سیکولر ہندوستان کے معیار پر پورے اترتے بلکہ ہندوستانی عوا م کو غربت کی دلدل سے نکالنے کے لیے بہتر اور جامع منصوبہ بندی کرتے۔ کیونکہ جس ملک کے اندر بااثر طبقات کے ظالمانہ رویوں اور غیرمنصفانہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے غریب عوا م بالخصوص اقلیتیں جانی، مالی اور آبرو کے لحاظ سے غیر محفوظ ہو۔
.
اس ملک کو یہ قطعی طور پر زیب نہیں دیتا کہ نریندر مودی جیسا انتہا پسند ان کا وزیر اعظم اور سشما سوراج جیسی تنگ نظر اور محدود سوچ کی حامل عورت ان کی وزیر خارجہ ہو۔ بہر حال یہ تو ہندوستان کا ذاتی مسئلہ ہے۔ لیکن جو تشویش ہمیں لاحق ہے وہ ہے بھارت کا جنگی جنون۔ کیونکہ بھارت نہ صرف جنگی صلاحیتوں میں اضافے کے علاوہ ہتھیاروں کی دوڑ میں پیش پیش ہے بلکہ دیوانہ وار بھاگتا جارہا ہے۔ اس حوالے سے روزنامہ جنگ نے یکم نومبر کے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ”دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے اس امر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی جنگی جنون علاقائی امن کے ضامن اسٹریٹجک توازن کو تہہ و بالا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

Defense Budget

Defense Budget

ترجمان نے بھارت کے دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافے، بڑے پیمانے پر جدید ہتھیاروں اور تیاری اور بھارت کی جانب سے جنگی تیاریوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے پاس جنگ کے خطرے کو ٹالنے کے لیے اپنی جوہری صلاحیت پر انحصار بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ان کے مطابق بھارت اور پاکستان کے درمیان روایتی جنگی صلاحیت میں بڑھتا ہوا یہ عدم توازن علاقائی استحکام کو کمزور کرنے کے علاوہ اسٹریٹجک ڈیٹرنس پر بھی منفی اثرات مرتب کررہا ہے۔ انہوں مزید کہا کہ پاکستان ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہ ہونے کی پالیسی پر کاربند ہے تاہم اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔”

دفتر خارجہ کا یہ ہفتہ وار بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جہاں ایک جانب پاک چین اقتصادی راہداری پر کام جاری ہے تو دوسری طرف ہماری فورسز غیر ریاستی عناصر کے خلاف مسلسل مگر کامیاب کارروئیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جس سے نہ صرف وطن عزیز میں امن واپس لوٹ رہا ہے۔ بلکہ ملک کا معاشی حب کراچی پھر سے روشنیوں کا شہر بننے جارہاہے۔ ایسے میں ہندوستان کا چیں بہ جبیں ہونا کوئی اچھبمے کی بات نہیں۔ اب یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہندوستان کو سمجھائے۔ یہ وقت دوسرے ممالک میں مداخلت، وہاں پر دہشت گردوں کو سپورٹ اور بزور قوت کسی پر قبضہ جمانے کا نہیں۔ بلکہ اس وقت کسی بھی ملک اور وہاں کی حکومت کی اولین تر جیح یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے عوام کو بنیادی انسانی حقوق مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے معیاری زندگی بلند کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔

انڈیا کو یہی کا م جنگی بنیادوں پر کرنا چاہیے، نہ کہ پاکستان کے خلاف جنگی اقدامات۔ لیکن اگر ہندوستان امن اورمحبت کی زبان نہیں سمجھتا تو پھر اسے یاد رکھنا چاہیے کہ دفاع وطن میں یہ قوم نہ کل پیچھے تھی اور نہ آج ۔ بلکہ وقت آنے پر یہ قوم میدان کارزار میں اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی۔ انشاء اللہ۔ عالمی برادری کو یہ بات سوچنا ہوگی کہ اگر ہندوستان کو آج ان کے خطرناک عزائم سے روکا نہ گیا تو وہ کل کو خطے کے کسی کمزور ملک پر دست درازی بھی کرسکتا ہے۔ سری لنکا کے باغی تنظیم تامل ٹائیگرکو سپورٹ کرنے کا مثال عالمی برادری کے سامنے ہے۔

Saydallh Saeed

Saydallh Saeed

تحریر: سعیداللہ سعید
saeedullah191@yahoo.com
cell.0345 2948722