بھارتی رونا اور برکس اجلاس

BRICS Summit

BRICS Summit

تحریر : اسداللہ، فیصل آباد
سرجیکل سٹرائیک سے دنیا کو بیوقوف بنانے کی ناکام کوشش کے بعد برکس اجلاس میں بھارت نے پاکستان کے خلاف اپنے پروپیگنڈا کا پورا زور لگایا۔ برکس اجلاس کے دوران بھارت کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردی کا مرکز بنا کر پیش کیا گیا۔لیکن اس موقع پر ایک دفعہ پھر سے ہمارا دوست ملک چین ہی کام آیا جس نے کمال بالغانہ انداز میں بھارتی سورماؤں کو ٹھینگا دکھایا اور بھارت کی لاکھ کوشش کے باوجود چین نے باور کروایا کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے۔

چین نے بھارتی چالبازی کو بھانپتے ہوئے محب وطن پاکستانی تنظیموں کو دہشت گرد تنظیموں کی لسٹ میں ڈالے جانے کی بھارتی خواہش ناکام کردی۔ اس وقت بھارتی تھنک ٹینکس پاکستان کے خلاف نئے نئے حربے سوچتے دکھائی دیتے ہیں جو برکس اجلاس میں بھی واضح طور پر دکھائی دئیے۔ بھارت کی کوشش تھی کہ برکس اجلاس میں آئے سربراہان کو کشمیر کے معاملے پر نہ آنے دیا جائے اور انہیں یہ باور کرایا جائے کہ اصل مسئلہ کشمیر نہیں بلکہ ’’پاکستان‘‘ ہے۔ اس موقع پر بھارت نے رو رو کر پاکستان پر دہشت گردی کی پرورش کے الزامات لگاتے ہوئے بھرپور کوشش کی کہ پاکستان کو معاشی و معاشرتی طور پر تنہا کر دیا جائے لیکن بھارت اس سازش میں ناکام رہا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ برکس اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں اسلامک اسٹیٹ ،جبہات فتح الشام اور اقوام متحدہ کی طرف سے کالعدم قرار دی گئی دیگر تنظیموں کے نام تو شامل کر لیے گئے لیکن کشمیر کی آزادی کیلئے کوشاں کشمیری مسلح حریت پسندوں کی جماعتوں کے ناموں کی شمولیت کو چین نے رد کر دیا جس پر بھارتی حکومت اور وزیراعظم نریندر مودی سٹپٹا اٹھے۔ اس ناکامی کے بعد بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ بھارت نے سرجیکل سٹرائیک حفظ ما تقدم کے طور پر کی ہے۔ ایسی بے پر کی چھوڑنے والے بھارتی حکمران سرجیکل سٹرائیک کے معاملہ میں اپنے ہی شہریوں کی تشفی نہ کروا سکنے کے باوجود ایسی اوٹ پٹانگ بیان بازیاں کر کے دنیا کو گمراہ کر رہے ہیں۔

Hafiz Muhammad Saeed

Hafiz Muhammad Saeed

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک طرف پاکستانی لیڈر جماعۃ الدعوہ اور حافظ محمد سعید پر انگلیاں اٹھانے میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری طرف بھارت پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ہم بین الاقوامی سطح پر کشمیر کا مقدمہ لڑتے لیکن ہم اسکے برعکس حافظ محمد سعید جیسی مخلص شخصیات کو ڈسکس کرنے میں مصروف ہو گئے کہ جس کی زندگی کا مشن ہی کشمیریوں کی آزادی ہے اورجنہیں پاکستانی عدالتیں باعزت بری کرچکی ہیں۔ پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے مختلف ممالک میں خصوصی ایلچی بھیجے گئے جنہوں نے کشمیر کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر اٹھانا تھا لیکن دنیا اس وقت دنگ رہ گئی کہ جب رانا افضل صاحب جیسے ناداں دوست نے یہ کہہ دیا کہ ہم باہر جا کر کشمیر کا مقدمہ کیسے لڑیں؟ ’’لوگ تو ہم سے حافظ سعید کا پوچھتے ہیں کہ اصل مسئلہ وہ ہے‘‘۔ میرا سوال رانا صاحب سے یہ ہے کہ 1947ء سے اب تک کی جو تمام جنگیں لڑی گئیں اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے جو ’’کشمیر ہماری شہ رگ ہے ‘‘والا بیان دیا تھا کیا اس سب کے پیچھے بھی حافظ سعید کا ہاتھ تھا؟ حافظ سعید کو منظر عام پر آئے تو ابھی دو دہائیاں ہوئی ہیں لیکن ہم مسئلہ کشمیر پر سرکاری سطح پر آواز 1947ء سے اٹھاتے آ رہے ہیں۔

کیا اس وقت بھی کشمیر کے حل نہ ہونے کی وجہ حافظ سعید ہی تھے؟ ہرگز نہیں! اصل مسئلہ حافظ سعید نہیں بلکہ بھارتی ہٹ دھرمی اور ہماری نادانیاں ہیں، حافظ سعید تو تھرپارکر، بلوچستان سمیت ملک بھر میں انسانیت کی خدمت میں لگا ہوا ہے اس نے وہ کام کر دکھائے ہیں جو پاکستانی حکومت بھی نہیں کر پائی۔ آرمی کے بعد سیلابوں میں ڈوبتوں کو بچانے والی سب سے بڑی واٹر ریسکیو ٹیم،2005کے زلزلہ میں ان کاکام جسے اقوام متحدہ تک نے سراہاتھااوربلوچستان میں بھارتی سازش کو فلاحی ورفاہی کاموں سے ختم کرنے میں اسی جماعۃالدعوۃ کا ہاتھ ہے ۔کلبھوشن یادیو،براہمداغ بگٹی اور لندن میں بیٹھی بوری والی سرکار کے پیچھے کون ہے؟ کس فورم پر آپ نے ان معاملات کو بھارت کے کھاتے میں ڈالا؟تکفیری سوچ کے آگے علمی دلائل کا انبار لگانے والے کون لوگ تھے ذرا دیکھ لیں ۔جب پاکستان میں مساجد،مدارس،درگاہ ،امام بارگاہیں ،گلیاں ،بازار اورہماری فوجی تنصیات تک محفوظ نہیں تھیں اور ہم سب خوارج کے نزدیک مرتد ہوکرواجب القتل ٹھہرے تھے توکون لوگ تھے جنہوں نے یہ محاذ سنبھالاتھا؟ حکمرانوں کوچاہئے کہ کشمیر کے معاملہ میں پاکستان کی نمائندگی کیلئے ایسے افراد کو منتخب کریں جو کم از کم کشمیر کا محل وقوع اور پاک بھارت تعلقات کی نوعیت و تاریخ تو جانتے ہوں۔

Pakistan

Pakistan

دوسرے ممالک میں ایسے سفیر لگائیں جو بھارت میں تعینات سفیر عبد الباسط صاحب کی طرح پاکستان کی طرف اٹھنے والی ہر میلی آنکھ کو پھوڑنے کی جرات و استعداد رکھتے ہوں ناکہ ایسے ناپختہ ذہن کے مالک افراد جو پاکستان دشمنوں کا شکار کرنے کی بجائے خود ان کیلئے تر نوالہ ثابت ہوں۔ ہماری تاریخ میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب ہماری کمزور خارجہ پالیسی اور کمزور سفارت کاری کے سبب پاکستان کو شدید نقصان اٹھانا پڑا اور کشمیر پر ہمارا اصولی قومی موقف بھی کمزور پڑنے کا تاثر پیدا ہو گیا۔ اگر دیکھا جائے تو برکس اجلاس میں بھارت نے پاکستان کو ایک مضبوط سفارتی و خارجہ پالیسی کے ساتھ ہر ممکن نقصان پہنچانے کی کوشش کی یہاں یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں کو ہم حقائق کے زور پر ٹھکراتے آئے ہیں لیکن حقیقت میں ہمارے اپنے حکمرانوں کی کوششوں میں چین کی مدد بھی کارفرما رہی اور یہ بھی ایک مصدقہ بات ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے کشمیر سمیت بہت سے معاملات میں جان لیوا حد تک غلطیاں کی گئیں اور ایسی غلطیوں سے ملک و قوم کو بڑے نقصان کا اندیشہ بھی ہے لیکن ہماری قسمت اچھی ہے کہ ہمیں چین جیسا مخلص پڑوسی ملا ہے جو پاکستان کے بہت سے معاملات میں دنیا کے سامنے ڈٹ کر پاکستان کو بھارت و امریکہ کی سیاہ سازشوں سے بچا لیتا ہے وگرنہ ہمارے حکمران تو شاید ابھی سن بلوغت کو نہیں چھو سکے کہ دنیا کے سامنے ایک مضبوط خارجہ پالیسی ہی بنا لیتے۔ بھارت ایک مضبوط خارجہ پالیسی کے ساتھ ہر موقع پر پاکستان کے خلاف اپنی حیثیت مضبوط بنانے میں لگا ہے لیکن ہم ابھی تک وزارت خارجہ کا قلم دان کسی کو دینے کا فیصلہ ہی نہیں کر پائے۔

کشمیری ساڑھے تین ماہ سے کرفیو کے باوجود ’’پاکستان پاکستان ‘‘کہتے ہوئے اپنی جان و مال قربان کر رہے ہیں اب وقت ہے کہ پاکستان بھی آگے بڑھ کر کچھ کر گزے اور کچھ کر گزرنے کی اس گھڑی میں پاکستان کو ایک ٹھوس حکمت عملی اور مضبوط خارجہ پالیسی کی اشد ضرورت ہے, اور یہ وقت کی ضرورت ہے کہ امریکہ, برطانیہ فرانس جیسے اہم ممالک میں عبدالباسط صاحب جیسے نڈر سفیر تعینات کئے جائیں اور مضبوط خارجہ پالیسی کے ساتھ دوسرے ممالک میں ایسے نمائندے بھیجے جائیں جو ملک کا بروقت دفاع ممکن بنانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ امید ہے کہ جلد ہمارے حکمران ہوش میں آئیں گے اور بھارت کا اصل چہرہ بین الاقوامی سطح پر بے نقاب کریں گے۔

Asad Ullah

Asad Ullah

تحریر : اسداللہ، فیصل آباد