بھارت اور پاکستان کے لیے ’ایس سی او‘ کی مستقل رکنیت

Meeting

Meeting

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان اور بھارت ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ یعنی ’’ایس سی او‘‘ کے مستقل رکن بن گئے ہیں۔

قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی کونسل کے اجلاس میں جمعے کو پاکستان اور بھارت کو تنظیم کا مستقل رکن بنانے کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔

سربراہ اجلاس میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی بھی شریک ہیں۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف

وزیراعظم نواز شریف نے اجلاس سے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’آج کا دن، پاکستان، بھارت اور شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے ایک تاریخی دن ہے۔ فخر اور بہت سی توقعات کے ساتھ پاکستان اس باوقار اور اہم تنظیم میں بطور مستقل رکن ملک شامل ہو رہا ہے۔‘‘

اُنھوں نے پاکستان کی مستقل رکنیت کے عمل کی حمایت پر تنظیم کے بانی رکن ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ 10 برسوں کے دوران بطور ایک مبصر ملک ’ایس سی او‘ کے تمام اجلاسوں میں بھرپور شرکت کی۔

وزیراعظم نے کہا کہ تنازعات کے بجائے بطور رہنما ’’ہمیں آئندہ نسل کے لیے امن اور ہم آہنگی کی میراث چھوڑنی چاہیے۔‘‘

وزیراعظم نریندر مودی

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ’ایس سی او‘ کے رکن ممالک کے درمیان تعاون پر زور دیا۔

نریندر مودی کا کہنا تھا کہ اُنھیں مکمل اعتماد ہے کہ ’ایس سی او‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ آگے بڑھائے گا۔

’ایس سی او‘ کا مستقل رکن بننے کی اہمیت

بین الاقوامی اُمور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ اس تنظیم کی رکنیت پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ان کے بقول پاکستان کافی عرصے سے کوشش کر رہا تھا کہ اس تنظیم کا ممبر بن جائے کیوں کہ جو ہمارے مستقبل کے مقاصد ہیں یہ اس سے منسلک ہے۔

رسول بخش رئیس کا کہنا تھا کہ پاکستان کی یہ کوشش رہی ہے کہ چین، روس اور وسطی ایشیا سے تعلقات کو مضبوط بنایا جائے اور رابطوں کے لیے مواصلاتی ڈھانچے تعمیر کیے جائیں۔

’’ان ممالک کی جو منڈیاں ہے جب تک وہ آپس میں مربوط نہیں ہوں گی تو نہ لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار ہوں گے اور نہ ہی باہم انحصار بڑھے گا۔۔۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک رجحان ہے اور اس سلسلے میں شنگھائی تعاون تنظیم کا ممبر بننا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘

پشاور یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے شعبے کے سربراہ اور تجزیہ کار ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی طویل عرصے سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے اقتصادی روابط کو وسطی ایشیا تک بڑھائیں۔

’’پاکستان اور بھارت اس دوڑ میں رہے ہیں کہ اُنھیں ایس سی او کی مستقل رکنیت مل جائے تاکہ اس میں جو بڑے صنعتی ملک یعنی چین اور روس ہیں، اُن کے تعاون سے اسلام آباد اور نئی دہلی فائدہ اٹھائیں۔‘‘

بھارت اور پاکستان کے دوطرفہ تعلقات پر ممکنہ اثرات

ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا مقصد یہ ہے کہ علاقائی تعاون برائے ترقی کو کیسے آگے بڑھایا جائے، اس لیے اُن کے بقول یہ تنظیم یا اس کے رکن ممالک پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔

’’شنگھائی تعاون تنظیم کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ فساد اور دہشت گردی کو بھی ختم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں بھی تمام ممالک کے درمیان جو رابطے ہوں گے، جو منصوبہ سازی ہوگی۔ پاکستان اور بھارت اُس کا حصہ ہوں گے۔”

اُن کا کہنا تھا کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان مسائل اگر حل ہو جاتے ہیں تو بھارت کی بھی وسطی ایشیا تک رسائی بڑھ جائے گی۔

’’بھارت بھی پاکستان اور افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیا اور روس کے ساتھ براہ راست جڑ سکتا ہے۔۔۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات جو دباؤ کا شکار ہیں اُن میں کمی آ سکتی ہے اور تنظیم کے دیگر ممالک (دونوں ملکوں پر) مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔‘‘

پشاور یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی کہتے ہیں کہ ’ایس سی او‘ کا مستقل رکن بننے سے پاکستان اور بھارت تعلقات میں بہتری کی راہ کھل سکتی ہے۔

’’پاکستان اور بھارت کے درمیان جو تنازعات ہیں، چین اور روس ملک کر اُن کو حل کروانے میں کردار ادا سکتے ہیں اور اپنا اثر استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘

’ایس سی او‘ رکن ممالک اور انسداد دہشت گردی کے شعبے میں ممکنہ تعاون

شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک میں آباد افراد دنیا کی کل آبادی کا لگ بھگ 40 فیصد ہیں جب کہ عالمی معیشت میں اُن کا ایک اہم حصہ ہے۔

اس تنظیم کا رکن ملک بننے کے بعد پاکستان اور بھارت تاشقند میں قائم انسداد دہشت گردی کے مرکز ’’ریجنل اینٹی ٹیررازم اسٹرکچر‘ کے تحت مشترکہ فوجی مشقوں میں بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم کب وجود میں آئی

یہ تنظیم 1996ء میں قائم ہوئی تھی اور ابتدا میں اس کے پانچ رکن ملک تھے جن میں چین، کرغزستان، قازقستان، روس اور تاجکستان شامل تھے لیکن 2001ء میں اس تنظیم میں ازبکستان بھی شامل ہو گیا تھا۔

بھارت اور پاکستان 2005ء میں بطور مبصر شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ہوئے تھے۔

پاکستان کی طرف سے 2010ء میں شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقل رکن بننے کی درخواست دی گئی تھی۔ 2015ء میں روس کے شہر اوفا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ’ہیڈز آف اسٹیٹ کونسل‘ کے اجلاس میں اصولی طور پر پاکستان اور بھارت کو اس تنظیم کا رکن بنانے کی منظوری دی گئی۔

اب 16 سال بعد پاکستان اور بھارت اس تنظیم کے رکن بن گئے ہیں، جس سے ’ایس سی او‘ کے مستقل اراکین کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے۔