پاکستان اسٹیل کے واجبات و خسارے کی مالیت 375 ارب پر پہنچ گئی

Pak steel

Pak steel

کراچی (جیوڈیسک) ملک کے 9 ویں وزیر اعظم اور قائد عوام کا لقب پانے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو کا نام اور جمہوری فلسفہ زندہ ہے تاہم قوم کو دیے گئے ان کے اثاثے ڈوب چکے ہیں۔

ان کے ہاتھوں لگائی جانے والا قومی ادارہ پاکستان اسٹیل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 23دسمبر 1973کو پاکستان اسٹیل کا سنگ بنیاد رکھا اور مہمانوں کی کتاب میں تاثرات درج کرتے ہوئے تحریر کیا کہ دفاعی اہمیت کے حامل اس ادارے کا سنگ بنیاد رکھنے سے زیادہ اسے قومی مفاد میں بھرپور طریقے سے چلانا اور ملکی ترقی کے لیے استعمال کرنا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ان تاریخی تاثرات کی طرح یہ بات بھی تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ جس کتاب میں یہ تاثرات درج کیے گئے تھے وہ خود پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی غائب کردی گئی۔

پاکستان اسٹیل کے واجبات اور خسارے کی مالیت 375ارب روپے تک پہنچ چکی ہے جسے پورا کرنے کے لیے اگلے سو سال تک 3.75ارب روپے کا منافع کمانا ہوگا۔ پاکستان اسٹیل کے قیام کا مقصد اسٹیل مصنوعات کی درآمد پر خرچ ہونے والے زرمبادلہ کی بچت کرتے ہوئے پاکستان میں انجینئرنگ سیکٹر کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتے ہوئے عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا تھا۔ پاکستان اسٹیل کے قیام کا مقصد ملک کے دفاع کو بھی مضبوط بنانا تھا۔ حیرت انگیز طور پر آمر حکمرانوں نے پاکستان اسٹیل کو زیادہ بہتر طریقے سے چلایا تاہم جمہوری حکومتوں بالخصوص سابقہ اور موجودہ دور حکومت میں پاکستان اسٹیل پہلے سفید ہاتھی اور اب ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

جس میں غفلت، بدعنوانی اور نااہلی کے ساتھ خود پاکستان اسٹیل کے ملازمین کی گروہ بندیاں اور مفاد پرست ٹولے کی نام نہاد قیادت کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ سابقہ اور موجودہ حکمران مل کر بھی پاکستان اسٹیل کو بحران سے نہ نکال سکے حکمرانوں کے اپنے کاروبار پھل پھول رہے ہیں لیکن قومی اثاثے بربادی کی تصویر بن چکے ہیں۔ پاکستان اسٹیل کو بحران سے نکال کر بحالی اور منافع بخش بنانے کے عزم کے ساتھ مقرر کیے گئے سی ای او کی مدت چند روز میں پوری ہورہی ہے تاہم اربوں روپے کے بیل آئوٹ کے باوجود ادارے کی بحالی کے وعدے پورے نہ ہوسکے اور پاکستان اسٹیل کے واجبات اور خسارے کی مالیت 375ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔

پاکستان اسٹیل کو گیس کی فراہمی جون 2015سے بند ہے پاکستان اسٹیل دنیا کا پہلا ادارہ ہے جو خود حکومتی اداروں کی سخت اور بے رحمانہ پالیسیوں کا شکار ہے۔ پاکستان اسٹیل کے امور کی انجام دہی کے لیے مقرر کردہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کی فعالیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان اسٹیل کے پروفیشنل بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس ایک بار پھر ملتوی ہوگیا ہے ۔

اجلاس کے لیے یکم اپریل کی تاریخ مقرر کی گئی تھی جو تبدیل کرکے 4اپریل کردی گئی تاہم بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چھ میں سے دو اراکین کی عدم دستیابی کی وجہ سے کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس ایک بار پھر ملتوی کردیا گیا ہے۔بورڈ کے اجلاس میں ملازمین کو چار ماہ کی تنخواہوںکی ادائیگی، تیار مصنوعات کی فروخت سے حاصل آمدنی خرچ کیے جانے، اثاثوں (اراضی) کی ری ویلیو ایشن، نیشنل انڈسٹریل پارکس کو سپرد کی جانے والی 930ایکڑ زمین کی قیمت، پورٹ قاسم کو دی جانے والی 150ایکڑ زمین سمیت دیگر اہم امور زیر غور لائے جانے تھے۔