انڈین ہاکی ٹیم کے سابق کپتان محمد شاہد چل بسے

Mohammad Shahid

Mohammad Shahid

ممبئی (جیوڈیسک) انڈین ہاکی ٹیم کے سابق کپتان محمد شاہد 56 برس کی عمر میں دہلی میں انتقال کر گئے ہیں۔ شاہد کا تعلق بنارس سے تھا اور وہ ایک عرصے سے گردوں اور پھیپھڑوں کی بیماری میں مبتلا تھے چند روز قبل انھیں علاج کے لیے بنارس سے دہلی منتقل کیا گیا تھا جہاں بدھ کی صبح انھوں نے آخری سانس لی۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ پروین شاہد، ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ جن لوگوں نے سنہ 1970 اور 80 کے عشرے کی ہاکی دیکھی ہوگی، انھیں محمد شاہد کے ہنر کا جادو یاد ہوگا۔

حالانکہ ہاکی کو کبھی انڈیا میں وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جس کی وہ مستحق تھی لیکن میدان میں ان کی چستی اور ’جادوئی‘ ڈربلنگ نے انھیں بہت کم عمر میں ہی سٹار بنا دیا تھا بطور فارورڈ کھیلنے والے شاہد سنہ 1980 کے ماسکو اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے والی ٹیم کے رکن تھے اور اس کے پانچ سال بعد انھیں قومی ٹیم کی کپتانی کرنے کا بھی اعزاز ملا۔ ماسکو اولمپکس میں گولڈ جیتنے والی ٹیم میں سابق کپتان ظفر اقبال بھی شامل تھے۔

حال میں ٹائمز آف انڈیا سےبات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’شاہد ایک عظیم کھلاڑی تھے، ہم نے گولڈ میڈل بڑی حد تک انھیں کی بدولت جیتا تھا، وہ اتنے تیز رفتار تھے کہ حریف ٹیمیں انھیں مارک کرنے کےلیے دو کھلاڑیوں کی ڈیوٹی لگاتی تھیں، لیکن ان کے کھیل میں وہ جادو تھا کہ انھیں کوئی روک نہیں پاتا تھا۔ میں چاہ کر بھی ویسا نہیں کھیل سکتا تھا۔‘ شاہد ریلویز کے ملازم تھے لیکن ہاکی کو خیر باد کہنے کے بعد انھوں نے اپنی باقی زندگی گمنامی میں ہی گزاری۔ وہ بڑے سٹار بنے لیکن کبھی انکساری کا دامن نہیں چھوڑا۔ ان کے سابق کپتان بھاسکرن نے ان کے بارے میں لکھا تھا کہ جب ’میں نے انھیں پہلی مرتبہ دیکھا تو وہ بہت شرمیلے تھے، لیکن اس وقت وہ بہت چھوٹے تھے۔‘

یہ سنہ 1979 کی بات تھی جب شاہد کو ٹیم کے ساتھ ملائیشیا بھیجا گیا تھا اور اسی ٹورنامنٹ کے بعد یہ کہا جانے لگا تھا کہ چھوٹے سے قد کا یہ نوجوان ہی انڈین ہاکی کا مستقبل ثابت ہوگا۔ ہاکی کے ماہرین مانتے تھے کہ شاہد خدا داد صلاحیت کے مالک تھے، اور ان کے کھیل کا انداز کچھ ایسا تھا کہ کسی کوچنگ اکیڈمی میں نہیں سکھایا جاسکتا۔ ان سے بال چھیننا مشکل تھا اور ان کے ’ڈاج‘ سے دفاعی کھلاڑی پریشان رہتے تھے۔

ملائیشیا میں پاکستان کے خلاف میچ کا ذکر کرتے ہوئے بھاسکر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میچ کے بعد پاکستان کے سینٹر ہاف اختر رسول میرے پاس آئے اور بولے: ’یہ لڑکا کون ہے؟۔۔۔بہت ڈاج مارتا ہے۔‘ اس ٹورنامنٹ میں شاہد کو بہترین کھلاڑی کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔