بھارتی مسلمانوں کے رستے زخم

Babri Masjid

Babri Masjid

تحریر: محمد عتیق الرحمن
دسمبر کی 6 تاریخ کو بابری مسجد کو شہید ہوئے 23 سال گذرچکے ہیں لیکن اتنا لمباعرصہ گذرنے کے باوجود بھارتی عدالتوں میں چلائے جانے والے مقدمات پرفیصلے ابھی تک زیرالتوا ہیں ۔مسجد کی شہادت کی تحقیق کے لئے بنایا جانیوالا کمیشن ’لبرہن کمیشن ‘کئی بار توسیع وتنسیخ کے مراحل سے گذرتا رہا،لیکن سچ تو یہ ہے کہ ابھی تک بیل کسی منڈھے نہیں چڑھ سکی ۔بھارتی سپریم کورٹ میں بابری مسجد کی شہادت کا فیصلہ زیرسماعت ہونے کے باوجود ایودھیامیں ہندو رام مندر کی تعمیر کے لئے ملک بھر سے پتھر اکٹھے کررہے ہیں ۔

اترپردیش کے ضلع فیض آباد کے ایک مقام ایودھیامیں بابری مسجد 1527ء میں مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کے حکم پر درباربابری سے منسلک ایک شخص میرباقی نے تعمیر کروائی ۔بابری مسجد کے اوپر تین گنبد تعمیرکئے گئے ۔ایک گنبد بڑا جودرمیان میں تھا اور دو گنبد چھوٹے تھے ۔اندرونی تعمیر میں ایک خاص بات یہ تھی کہ محراب میں کھڑے شخص کی سرگوشی کو مسجد کے کسی بھی کونے میں باآسانی سنا جاسکتا تھا ۔قصہ مختصر یہ مسجد اسلامی تعمیرات کا ایک شاہکار تھی جو انتہاپسندہندوؤں کے ہاتھوں 1992ء میں شہیدہوگئی ۔تین سو سال تک کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس مسجد کی جگہ پہلے ہندوؤں کے رام کاجنم ہوا تھا ۔

یہ واقعہ 1853ء میں اس وقت شروع ہوا جب کچھ شرپسند ہندوؤں نے مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں فسادات شروع ہوگئے ۔جس کی وجہ سے 75 کے قریب افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔جس کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان ایک فیصلہ ہوا کہ مسجد کے گرد ایک دیوار کھینچ دی جائے جس کے باہر ہندوؤں کو اپنے مخصوص اوقات میں عبادت کرنے کی اجازت ہو ۔مقدمات چلتے رہے یہاں تک کہ 1946ء میں فیض آباد کے سول جج نے فیصلہ دیا کہ بابری مسجد ظہیرالدین بابر نے تعمیر کروائی تھی اور مسلمان ہی اس میں عبادت کرتے آرہے ہیں ۔ہندوؤں نے اس فیصلے کو تسلیم نہ کیا یہاں تک کہ 1949ء میں بابری مسجد سے رام کی مورتی ’’کرامت یاچمتکار ‘‘کے طور پر برآمد ہوئی ۔(میں یہاں اس چمتکارکا ذکر کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ یہ چمتکارکیسے ہواتھا ۔2012

india

india

ء میں ایک کتاب شائع ہوئی تھی جسے کرشنا جھااوردھیریند رجھا نے لکھا ہے ان کے مطابق رام کی مورتی بابری مسجد میں رکھنے میں ان لوگوں کا ہاتھ تھا جو مہاتما گاندھی کے قتل کے شک کے دائرے میں آتے تھے ۔)اور اسے رام جنم بھومی قرار دے دیا جس کے نتیجے میں حکومت نے مسجد کوتالا لگوادیا ۔بعد میں کانگرس اوردیگر ہندوجماعتوں نے اسے سیاسی طورپراستعمال کرناشروع کردیا ۔1950ء کے ایک فیصلے کے باوجود متعصب ہندوؤں نے مسجد سے بت اٹھانے سے انکار کرکے سیکولر بھارت کا چہرہ دنیاکے سامنے بے نقاب کردیا۔ بابری مسجد کو شہید کرنے کے لئے کانگرس کے ایک لیڈر راؤدیال کھنہ کی زیرقیادت 1982ء میں ایک باقاعدہ تحریک کی بنیاد رکھی گئی ۔جس میں ہندوؤں کے مسلح دستے بھی بنائے گئے ۔بی جے پی کے رہنماء ایل کے ایڈوانی نے رام مندر کے لئے ایودھیا کی رتھ یاترا کی ۔یہ رام مندر کی رتھ یاترا کم اور خون مسلم کی ارزانی کی یاترا زیادہ تھی ۔

جہاں جہاں سے ایڈوانی گذرتا وہاں کے مسلمانوں کے لئے گویاقیامت صغریٰ بپا ہوجاتی ۔1991ء میں بی جے پی کی حکومت میںآنے کی سب سے بڑی وجہ بابری مسجد کوسیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا تھا ۔حکومت میں آنے کے بعد ایڈوانی نے ہندوانتہاپسندوں کو کھلی چھوٹ دے دی اور یوں6 دسمبر 1992ء میں سولہویں صدی کی تعمیرکردہ مسجد کو ہندوؤں نے شہید کردیا ۔شہادت کے بعد ہندومسلمان فسادات پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں 3,000سے زائد افراد ہلاک ہوئے ۔یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ پیراملٹری اور پولیس کے دستوں نے انتہاپسندوں کو روکنے کی بجائے انہیں شہ دی تھی۔ ایک طرح سے یہ صرف ہندوؤں کی بدیانتی کو ظاہرکرتی ہے لیکن دوسری طرف یہ ایک گریٹ گیم تھی جسے پلان کسی اورجگہ کیا گیا اور کھیلا کسی اورجگہ گیا۔ عرصہ دراز گذرجانے کے باوجود آج تک انتہاپسند ہندوؤں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوسکی بلکہ ان کے حوصلے مزید بلند ہوچکے ہیں ۔

Indian Muslims

Indian Muslims

بی جے پی کی حکومت میں ہی بابری مسجد کو شہید کیا گیا اور اب پھر بی جے پی کی حکومت میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لئے 20 ٹن پتھر بھارت کی مغربی ریاست راجھستا ن سے لایا جاچکا ہے ۔خیا ل رہے کہ ریاست اترپردیش میں قائم الہ آباد ہائی کورٹ نے 2010ء میں بابری مسجد اوررام مندر کے قدیمی تنازعہ پر فیصلہ سنایا تھا کہ بابری مسجد کی جگہ کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کیاجائے گا ۔فی الحال معاملہ بھارتی سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے اور متنازع جگہ پر کسی بھی قسم کی تعمیرکی اجازت نہیں ہے۔بھارت کے سرکاری خبررساں ادارے کے مطابق ہندوؤں کے رہنما ء مہنت نرتیہ گوپال داس نے کہاہے کہ ایودھیا میں رام مندر بنانے کا وقت آگیا ہے۔ہندو تنظیم وی ایچ پی کے کارسیوک پورم کے انچارج شروشرما کے مطابق مندرکی تعمیر کے کام میں بہت سے پتھروں کی ضرورت ہے۔ابھی 20ٹن پتھر آئے ہیں لیکن رام مندر کی تعمیر کے لئے کم وبیش 2لاکھ ٹن پتھر چاہیءں ۔ہمیں امید ہے کہ آئندہ لوگوں کی طرف سے ہی پتھروں کاعطیہ آئے گا ۔

بابری مسجد کی شہادت سے قبل بھی بھارت میں انتہا پسندی عروج پر تھی اورہندوستا ن بھر میں بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ مہم چلائی گئی تھی ۔اب پھر ہندوانتہاپسندی عروج پر ہے جس کے باعث مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتیں اور پڑھے لکھے باشعورہندوؤں کے لئے بھارت میں زندگی گذارنا مشکل سے مشکل ہوتا جارہاہے ۔دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو جبری مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جارہاہے ۔اسی انتہا پسندی کا نتیجہ ہے کہ بھارت میں گجرات کا قصائی وزیراعظم بن چکاہے ۔نریندرمودی نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا اعلان سرعام کیا تھا ۔

جس کو عملی شکل دینے کے لئے تعمیراتی سامان ایودھیا پہنچنا شروع ہوچکا ہے اور ہندوؤں کی انتہاپسند تنظیم وشواہندوپریشد کی جانب سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ رام مندر کی تعمیر کا کام بہت جلد شروع کردیا جائے گا ۔گجرات کا قصائی بھارت کا وزیراعظم اور وشواہندوپریشد جیسی تنظیمیں بھارت کے سیاہ وسفید کے مالک ہوں تو بابری مسجداورگجرات جیسے واقعات ہوتے رہیں گے ۔ یہاں عالمی امن کا دعویٰ کرنے والے اور انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کی چشم پوشی پررونے کو دل کرتاہے جو ممبئی حملوں کی آڑ میں پاکستان پرالزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں لیکن بھارت کے باشندوں پر ظلم وستم جو ان کی اپنی حکومت کی مرضی سے ہوتا ہے اس پر کوئی ایکشن لینا تو کجاکبھی حرف غلط بھی زبان پر نہیں آتا ۔

Muhammad Attique Logo

Muhammad Attique Logo

تحریر: محمد عتیق الرحمن
03216563157