بھارتی ریاست اور ہمارا معاشرہ

 India

India

تحریر: محمد عرفان چودھری
پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت کی مشرقی ریاست بہار کے 243 اراکین قانون ساز اسمبلی کے شراب نوشی کے خاتمے کے بل پر دستخط کے بعد صوبہ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے صوبے میں شراب کی خرید و فروخت اور استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے جو کہ یقیناََ قابل ستائش ہے اور ہمارے ملک میں جو کہ اسلام کے نام پر دو قومی نظریے کے تحت ایسی قوم سے الگ کیا گیا جن کا رہن سہن ، رکھ رکھائو، تہذیب و تمدن، معاشرتی ثقافت ، مذہب غرض کسی بھی طرح سے مسلمانوں کے رہنے کے لئے موزوں نہیں تھا وہاں ایسی خرافات پر پابندی نہ لگنا سمجھ سے بالا تر ہے بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بے شمار واقعات رونما ہو چکے ہیں جس میں شراب نوشی کی وجہ سے لوگوں کو اپنی قیمتی جانوں سے بھی جانا پڑا جیسا کہ اکتوبر 2014 میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صوبہ سندھ میں عید کے موقع پر 29 افراد شراب پینے سے ہلاک ہو گئے تھے جن کو سائیں سرکار نے (نعوذ باللہ) شہید کا درجہ دے دیا تھا اِسی طرح چند دن پہلے صوبہ سندھ ہی کے علاقے ٹنڈو محمد خان میں کچی شراب پینے سے ہلاکتوں کا واقع رونما ہوا جس میں ذرائع کے مطابق 37 لوگ متاثر ہوئے جن میں سے 15 افراد ہلاک ہو گئے، 11کو طبی امداد کے بعد گھر بھیج دیا گیا جبکہ 15 افرا د اب بھی ہسپتال میں زیرعلاج ہیں جبکہ بعض ذرائع کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 55 ہے مگر سائیں سرکار کے سر پر جوں تک نہ رینگی اور اس خرافات کے خاتمے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے،

بعض نام نہاد لبرل لوگ اپنے اپنے مذہبی عقائد کی نسبت سوسائٹی و سائنسی نقطہ نظر کو زیادہ فوقیت دیتے ہیں تو اُن کو معلوم ہونا چاہیئے کہ سائنسی معلومات کے مطابق شراب نوشی کے بے تحاشہ نقصانات ہیں جن میں چند قابل ذکر لبلبہ میں درد، ہائی بلڈ پریشر، دل کا دورہ، گُردوں کا ناکارہ ہو جانا اور دماغی شریان پھٹنے کا اندیشہ لاحق ہونا ہے اس کے علاوہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں شراب نوشی سے ہلاکتوں کی شرح 2.5 ملین سالانہ ہے، قرآن پاک میں سورة المائدہ کی آیت نمبر 90-91 میں ارشاد پاک ہے کہ ” اے ایمان والو!شراب اور جُوا اور بُت اور پا سے (یہ سب) ناپاک کام اعمال ِ شیطان سے ہیں سو اِن سے بچتے رہنا تا کہ نجات پائو” پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ” شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جُوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش ڈلوا دے اور تمہیں خُدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو تم کو (اِن کاموں ) سے باز رہنا چاہئے ” یہ تو صرف مثال کے لئے دو آیات کا ترجمہ بیان کیا گیا ہے تا کہ بھُولے ہوئے مسلمان کچھ ہوش کے ناخن لیں وگرنہ کبھی سیف الماری یا اوُنچی جگہ سے قرآن پاک کو نکال کر دوبارہ کھول کر دیکھیں آپ مُسلمانوں کو بیسیوں مقام پر شراب کی ممانعت کے متعلق اللہ تعالیٰ کے ارشاد ات اور وعیدیں نظر آئیں گی سینکڑوں احادیث مبارکہ میں رسُول اکرم ۖ کے ارشادات نظر آئیں گے تو کیا حکومت ِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یہ سب نظر نہیں آتا ؟ بالکل آتا ہے مگر حکومت ہماری اِس بات کا جواب بڑی کمال ہوشیاری سے دیتی ہے کہ حکومت صرف اقلیتی برادری کو شراب پینے کی اجازت دیتی ہے

Wines

Wines

یہاں ذرا حکومتی ایوان کے گوش گزار کرتا چلوں کہ اقلیت میں بھی شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے جیسا کہ مسیحیوں کی مقدس کتاب ” انجیل” میں بیان ہے کہ ” شراب میں متوالے نہ بنو کیونکہ اِس سے بد چلنی واقع ہوتی ہے” (افسیوں: 18:05 ) اِسی طرح ایک اور جگہ پہ بڑا واضع بیان ہے جہاں پر شراب کے علاوہ دوسری خرافات سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ انجیل مقدس میں 1کرنتھیوں میں بیان ہے کہ “نہ حرام کار خُدا کی بادشاہی کے وارث ہوں گے، نہ بُت پرست نہ زنا کار، نہ عیاش نہ لونڈے باز، نہ چور، نہ لالچی ، نہ شرابی اور نہ ہی گالیاں بکنے والے ظالم “(09,10:06)۔ اِس ضمن میں حکومتی ایوان میں ایک یاد داشت بھی دائر کی گئی ہے جس میں جمعیت علماء اسلام (ف) کی رکن قومی اسمبلی آسیہ ناصر نے مورخہ 06 مئی 2014 ء کو دیگر 15 ارکان کے ساتھ مل کر قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جن میں مسلم لیگ (ن) کی مسیحی رُکن قومی اسمبلی نیلس عظیم ، مسلم لیگ (فنکشنل) کی ہندُو رُکن ریتا ایشوراور مسلم لیگ (ن) کے رکن ڈاکٹر رمیش کمار بھی شامل تھے (جی جی وہی پی۔آئی۔اے والے رمیش کمار صاحب جو کہ با کمال لوگوں کی لاجواب سروس سے مستفید ہو چکے ہیں) اس بل میں آئین کے آرٹیکل 37 کی ذیلی شِق H میں ترمیم پیش کی گئی جس کے تحت آئین کی اس شِق سے غیر مسلم اور مذہبی مقاصد کا لفظ حذف کرنے کے لئے کہا گیا تھا

یہ بل وزیر مملکت برائے پارلیمانی امُور آفتاب شیخ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے سپُرد کیا مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی غیر اسلامی پارلیمنٹ جس کے ماتھے پہ کلمہ طیبہ لکھا ہوا ہے نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ایسا کرنے سے پاکستان کی بدنامی ہوگی ۔ تو میرا ان نام نہاد مسلمان پارلیمنٹیرینز سے سے صرف اتنا کہنا ہے کہ کیا جان بھی دُنیا والوں کو دو گے؟ آپ کا حساب کتاب بھی دنیا والے کریں گے؟ آخرت میں بھی آپ دنیاوالوں کے سامنے پیش ہوں گے؟ کیا سعودی عرب والے دنیا والے نہیں ہیں ؟ کیا اُن کو دنیا کا ڈر نہیں ہے جو ایسی خرافات رکھنے کے جُرم میں سر قلم کر دیتے ہیںاور کن دُینا والوں سے ڈرتے ہو ؟ کیا فرانس کا خوف ہے جو اپنے معاشرتی اقدار کی وجہ سے مسلمان خواتین کو برقع پہننے سے روکتے ہیں یا چین سے ڈرتے ہیں جو کہ مسلمانوں کو ڈاڑھی رکھنے سے روکتے ہیں یا ہندوستان کا خوف ہے جو گائے کو اس وجہ سے ذبح کرنے پہ پابندی لگاتا ہے کہ وہ اس کو پُوجتے ہیں؟ جب سب دُنیا والے اپنے اپنے مذہب کا دم بھرتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جو کہ لیا ہی اسلام کے نام پہ گیا تھا میں بسنے والے لوگ اپنا دین اسلام چھوڑ کر کس دُنیا ئے بے مروت کی خوشنودی حاصل کرنے پہ تُلے ہوئے ہیں؟

Allah

Allah

یہ دین اللہ تعالیٰ نے خود پیارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کے لئے چُنا ہے اور امتِ محمدی ۖ ہونے کے ناطے اس دین کی حفاظت ہماری اولین ذمہ داری ہے اِس لئے ہم ان حکمرانوں اور ایوانِ بالا میں رہنے والے پارلیمینٹیرینز سے پُر زور اپیل کرتے ہیں کہ اگر آپ میں کچھ شرم کچھ حیا باقی ہے تو اللہ تعالیٰ کے احکامات، بھارتی صوبے بہار کے اراکین اسمبلی کی طرح اور پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 37کی ذیلی شِقH کے تحت بنا کسی اقلیتی رعائیت کے شراب نوشی ، شراب کشیدگی، شراب کی خرید و فروخت اور شراب کے پرمٹ پر فی الفور پابندی لگائی جائے تا کہ پاکستان جس نام پہ لیا گیا ہے اسکا مقصد پورا ہو سکے اور ہماری اور آپ کی آئندہ کی نسلیں فلاح پا سکیں ورنہ اِقبال کا یہ مصرعہ تو پھر ہے ہی!
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دِلوں نِگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں

Mohammad Irfan Chaudhry

Mohammad Irfan Chaudhry

تحریر: محمد عرفان چودھری