بھارتی دھمکی اور کشمیر میں پاکستانی پرچم

Kashmir Protest

Kashmir Protest

تحریر: مہر بشارت صدیقی
بھارت نے دھمکی دی ہے کہ آزاد کشمیر کو بھی واپس لیا جائے گا۔ بھارتی وزیراعظم کے ترجمان نے جمعہ کے روز ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ آزاد کشمیر سمیت تمام کشمیر بھارتی اٹوٹ انگ ہے۔ بھارت کو کشمیر کی ملکیت کا اختیار ہے۔ بھارت پورا کشمیر حاصل کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریگا۔

دو روز قبل پاکستان نے بھارت کو خبردار کیا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب بگاڑنے کیلئے ہندوئوں کی خصوصی بستیاں آباد کرنے کا منصوبہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی اور قابل مذمت ہے۔کشمیر کے عوام بھارت کے ان منصوبوں کی بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔جموں و کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں اس کی حیثیت واضح کرتی ہیں ہم اس حوالے سے کشمیری عوام کے رد عمل پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی حکومت کے اس بیان کے بعد بھارت نے دھمکی لگا دی۔

بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے نئی دہلی میں ”بی ایس ایف” کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کبھی بھی پہلے حملہ نہیں کرے گا لیکن اگر حملہ ہوا تو پیچھے بھی نہیں ہٹے گا اور سرحد پار سے ہونے والی گولہ باری اور فائرنگ کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔بھارت کی طرف سے دھمکی کے بعد مقبوضہ کشمیر میں ہندوئوں کی الگ بستیاں بسانے کے خلاف احتجاج ہوا جس میںمقبوضہ کشمیر کے علاقے ترال میں حریت رہنما سید علی گیلانی کی قیادت میں کشمیریوں کی ریلی میں بڑی تعداد میں ایک بار پھر پاکستانی پرچم لہرا دیئے گئے، ریلی میں پاکستانی پرچموں کی بہار دیکھ کر بھارتی میڈیا ایک بار پھر غصے میں آپے سے باہر ہو گیا اور ریلی کی لائیو کوریج دکھاتے ہوئے ہرزہ سرائی کرتا رہا۔ ریلی میں پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے بھی لگائے گئے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پولیس نے جموں وکشمیر ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے چیئرمین شبیر احمد شاہ کو سوپور چوک میں عوامی اجتماع سے خطاب سے روکنے کے لئے گرفتار کر لیاجس پر سوپور میں لوگوں نے زبردست احتجاج کیا۔

پاکستان اور کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ڈیموگرافی کی تبدیلی کی کوششوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی فورمز پر اس صورتحال کو اجاگر کرنے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوششیں تیز کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفرالحق نے کہا ہے کہ بھارت کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ بتائے کہ کس تاریخ کو بھارت کا کشمیر اٹوٹ انگ بنا تھا، ہم نے اپنے موقف کو نہیں چھوڑا، یہ حق خودارادیت کشمیریوں کو اقوام متحدہ کے ذریعہ ہی مل سکتا ہے۔ حریت کانفرنس کے زیراہتمام کشمیر ہائوس میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر ہماری آنے والی نسلوں اور برصغیر کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے، ہندوستان نے جس راستے کا انتخاب کیا وہ اس کیلئے بھی نقصان دہ ہے، ناانصافی پر مبنی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا، ہندوستان کے اندر سے ایسی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں جو اور کسی جگہ نہیں، بھارت نے کشمیریوں پر تسلط کیلئے جتنے اخراجات کئے اس سے کئی کشمیر خرید سکتا تھا۔

Kashmiris

Kashmiris

کشمیریوں کی آبادی کو کم کرنے کیلئے یہاں پر بھارت ہندوئوں کو لا کر آباد کر رہا ہے، عالمی فورم پر کشمیری جس طرح اپنا کیس پیش کر سکتے ہیں کوئی پاکستانی نہیں کر سکتا، وہ مظالم کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، ہماری پالیسیوں اور بعض الفاظ کی وجہ سے ان کی دل آزاری ہوتی ہے لیکن پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں کشمیر کے مسئلہ پر کوئی اختلاف نہیں ہے، کشمیریوں کی مدد سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم کرنے کیلئے بھارتی اقدامات پر اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی فورمز پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، پاکستان کے بیرون ملک سفارتخانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کیا جانا چاہئے، او آئی سی میں ہم کشمیریوں کو اپنے موقف بیان کرنے کیلئے بھیجتے ہیں، مسئلہ کشمیر کو کس طرح آگے لے کر چلنا ہے اس کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، اس میں پاکستان اور کشمیر کی نمائندگی ہو جو پروگرام آف ایکشن ترتیب دے، اس میں آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کا بڑا کردار ہو گا، اس مسئلہ کے اصل فریق کشمیری ہیں جو فیصلے ان کیلئے قابل قبول ہوں وہ پوری دنیا اور پاکستان و بھارت کیلئے قابل قبول ہونے چاہئیں۔مسئلہ کشمیر دوبارہ اقوام متحدہ میں لے جانے کی ضرورت ہے، اقوام متحدہ کی کشمیر پر 23 قراردادیں ہیں، بھارت کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل نہیں کر سکتا، اقوام متحدہ کی اس حوالہ سے قرارداد واضح ہے۔

یہ پوری دنیا کی متفقہ قراردادیں ہیں، بھارت کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ بتائے کہ کس تاریخ کو بھارت کا کشمیر اٹوٹ انگ بنا تھا، ہم نے اپنے موقف کو نہیں چھوڑا، یہ حق خودارادیت کشمیریوں کو اقوام متحدہ کے ذریعہ ہی مل سکتا ہے، اقوام متحدہ کی بنیاد اور چارٹر ہی یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ اقوام کو حق خودارادیت دلایا جائے۔ صرف تقریریوں سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔اسلام آباد میں مقبوضہ کشمیر میں بڑھتے ہوئے مظالم اور پنڈتوں کی آباد کاری کے حوالے سے گول میز کانفرنس طلب کی گئی جس میں پاکستان کی تمام جماعتوں کے رہنمائوں نے شرکت کی مگر چیئرمین کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمن کی عدم شرکت پر حریت کانفرنس سمیت آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوںکے رہنمائوں سردار صغیر چغتائی’ الطاف احمد بٹ’ رشید ترابی’ سردار یعقوب خان ، شاہ غلام قادر ‘ سید سلیم گیلانی و دیگر نے مولانا فضل الرحمن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے شرکت نہ کرکے ثابت کردیا ہے کہ انہیں مسئلہ کشمیر سے کوئی سروکار نہیں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تحریک آزادی کشمیر تسلسل و تواتر کے ساتھ گذشتہ 67 سال سے جاری ہے، بھارتی تسلط کے خلاف کشمیر مختلف طریقوں سے جدوجہد کر رہے ہیں،کشمیریوں کی تحریک آزادی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں تاہم انہوں نے یہ تحریک آزادی کی جدوجہد ترک نہیں کی، ظلم و جبر انہیں راہ حق سے نہیں ہٹا سکتا، تحریکوں میں طوالت سے مایوسی پیدا ہوتی ہے تاہم کشمیر میں ایسا نہیں ہے، کشمیری تحمل سے کام لے رہے ہیں،، بی جے پی دستور میں تبدیلی، 10 لاکھ مہاجروں کو بسانے کا ارادہ رکھتی ہے، 20 سال قبل کشمیر جوڑنے والے پنڈت اب کشمیری نہیں رہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے آر پار اتفاق رائے ہے اور حق خودارادیت اور استصواب رائے ہے، کشمیر میں بسنے والے ہر شہری کو یہ حق ملے گا کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے، اہل پاکستان کا نکتہ نظر ایک ہے تاہم سیاسی جماعتوں کو متفقہ نکتہ نظر کیلئے ایک پارلیمانی بورڈ تشکیل دینا چاہئے۔ کانگریس کی حکومت اقوام متحدہ میں کشمیر کے توڑ کیلئے ایل کے ایڈوانی کو بھجوا سکتی ہے تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا، آر پار کی قیادت متحد ہو کر آگے بڑھے۔کشمیری قدرتی طور پر پاکستانی ہیں، بھارت مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر سلامتی کونسل کا مستقل رکن نہیں بن سکتا۔کشمیر کانفرنس میں ایک قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے طویل حل طلب مسئلہ ہے۔

اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ اور دیگر اہم ممالک کو کشمیریوں کی قربانیوں اور ان کی خواہشات کے حوالہ سے آگاہ کیا جائے، یہاں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا جائے، پنڈتوں کو آباد کر کے کشمیر کی ڈیمو گرافی تبدیل کرنے کی کوششیں بند ہونی چاہئے، کالے قوانین ختم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کی جائیں، سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، انسانی حقوق کی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر میں رسائی دی جائے۔مسئلہ کشمیر تمام سیاسی جماعتوں کے منشور میں اولین نمبر پر ہونا چاہئے، تعلیمی اداروں کے نصاب میں کشمیر کے مسئلہ کے بارے میں ابواب شامل کئے جائیں تاکہ آنے والی نسلوں کو اس کا علم ہو، کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔

Mehr Basharat Siddiqi

Mehr Basharat Siddiqi

تحریر: مہر بشارت صدیقی