مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار لئے بجٹ آ گیا

Budget

Budget

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
لیجئے ، ہماری ن لیگ کی لولی لنگڑی جمہوری اور کہنے کو عوام دوست مگر زیادہ تر مراعات یافتہ طبقے کی حکومت کا مہنگا ئی اور اضافی ٹیکسوں کی بھر مار کے ساتھ ساتھ غریب کا خون نچوڑنے والا بجٹ آگیاہے، جس میں غریب اور تنخواہ دار طبقے کے ہاتھ سوا ئے کفِ افسوس اور آنسووں کے کچھ نہیںآیا ہے، بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخوا ہوںمیں اُونٹ کے منہ میں زیرے جتنا اضافہ کیا گیا ہے ، جس کی وجہ سے سال بھر سرکاری اور نیم سرکاری کم آمدنی والے تنخوادہ دار اور غریب طبقے کے لئے مہنگا ئی بے لگام رہے گی ، او ر بالخصو ص ٹیکس کی وصولی کے معاملے میں تو بیچارہ تنخواہ دار طبقہ اپنی ماہانا تنخواہ ہاتھ میں آنے سے قبل ایف بی آر والوں کی چھید اور سوراخ والی جھولی(جو تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی کے معاملے میں ہمیشہ خالی ہی رہتی ہے یہ طبقہ اِس میں اپنی تنخواہ سے جتنا بھی ٹیکس ڈالے یہ بھرتی ہی نہیں ہے الغرض یہ کہ جنہوں نے 2013-2014ءکے ٹیکس گوشوارے جمع بھی کرادیئے ہیں تو آج FBRاِن لوگوںپر ہزاروںاور لاکھوںکی پالنٹی لگا کر نوٹسسز جا ری کررہاہے کہ گوشوارے لیٹ کیوں جمع کرائے گئے ہیں، لا حا نکہ تنخواہ دار طبقے کی تنخواہ سے تو انکم ٹیکس پہلے ہی جمع کرایا جا چکا ہے اَب اگر کسی وجہ سے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے میںدیر ہو گئی ہے تو ہمارا ضرور سے کہیں زیادہ شارپ اور صرف تنخواہ دار سرکاری طبقے سے ٹیکس وصولی کے معاملے میں باز جیسی تیز نگاہ رکھنے والا FBRتنخواہ دار طبقے کو لاکھوںاور ہزاروں کی پالنٹی لگا کر نوٹسسز کیوں جاری کررہاہے؟؟ اِس پر نظر ثانی کرنے کی اشدضرورت ہے )میں ٹیکس ڈالنے کے بعد تنخواہ کی مد میں چند ہزار روپے وصول کرکے پورا مہینہ ہاتھ جھاڑتے منہ پھاڑتے گزارے گا اور میرے مُلک کا شاطر حکمران و سیاستدان اورامیر طبقہ ٹیکس چوری میںپہلے سے زیادہ متحرک ہوکر اپنی دولت دن رات دوگنی سے چگنی کرتا رہے گا اور غریب مزدوراور سرکاری و نیم سرکاری تنخواہ دار طبقہ مہنگا ئی اور ٹیکسوںکے بوجھ تلے دب کر زندہ درغورہوتا رہے گا جیسا کہ یہ غریب اور تنخواہ دار طبقہ ستر سالوں سے مہنگا ئی اور مسائل و پریشانیوں اور طرح طرح کے بحرانوں کا شکار ہوکر کسمپرسی کی زندگی گزارتا آیا ہے اِس بجٹ میں بھی اِس کے حصے میںیہی کچھ آیا ہے، کیو نکہ ہمیشہ ہی سے ہر بجٹ میں تنخواہ دار اور مزدور طبقے کے حصے میں محرومیاں ہی آئی ہیں۔

بہر حال ، دنیا کی تا ریخ گواہ ہے کہ مثبت اور تعمیری سیاست سے مثالی حکمرانی تک کے سفر کا اپنا ہی ایک سب سے علیحدہ اور منفرد و اعلیٰ رنگ ڈھنگ ہوتا ہے، جس سے ہرزمانے کی ہر تہذیب کے ہر مُلک اور معاشرے کے اِنسانوں پر مثبت اور تعمیری رنگ چڑھتاہے۔ بیشک اچھی اور مثبت سوچ وفکراور تعمیری رجحان کی حا مل سیاست کا دائرہ جس قدر وسیع ہوگااور اِس کے ثمرات جہاں تک جا ئیں گے اور پھیلیں گے وہاں تک اچھا ئی سے لبریز اور تعمیری سوچ سے ترسیاسی سوتِ پھوٹیں گے ،اقوام ترقی کریں گیں اور دنیا میں اپناایک ایسا مثبت رول اداکریں گیں کہ دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن جا ئے گی یہ بھی دنیا خوب جا نتی ہے کہ مثبت اور عفوودرگزراور برداشت کرنے اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے والی سیاست کی رسی تھام کر جو آگے بڑھااِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ سیاست کی تمام ظاہر و باطن اچھا ئیوں سے ضرورفیضیاب ہوا اوروہی ایک اچھا سیاستدان کہلایا، جبکہ اِس کے برعکس جس پر سیاست کا کچھ اور رنگ چڑھا یعنی کہ جو سیاست کے منفی رجحان کے جادوئی اثر میں گرفتار ہوااِس کی حیثیت ہمیشہ سیاستدان کے بجائے ایک بدبودار اگلدان کی سی رہی ہے۔

سقراط کا کہنا ہے کہ” مملکت کی باگ ڈورنیک، قا بل اور اِنصاف پسند تربیت یافتہ دانش وروں کے ہاتھوں میں ہونی چا ہئے“ مگر افسوس کی بات ہے کہ آج شاید میں اور میری سرزمینِ پاکستان سقراط کی ایسے اچھی اور تعمیری سوچ و فکرکے حامل مذہبی، اخلاقی ، سیاسی، سماجی اور اقتصادی دانش وروں سے عاری ہے،میں موجودہ صورتِ حال کا جا ئزہ لینے کے بعد حتمی طور پر اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے یہاں روزِ اول سے ابتک چاہئے جتنے بھی سول اور آمرحکمران آتے رہے ،اور یہ جس طرح بھی حکمرانی کے مسند پرقابض ہوئے، یقینا اُن کے پللے سے سقراط والی دانش وری کبھی چھوکربھی نہیں گزری ہے،اگر کسی کے پاس ذرا سی بھی دانش وری ہوتی تو عین ممکن تھا کہ آج میری قوم کے پاس بھی تھوڑی سی عقل اور دانش مندی ضروی ہوتی ،نہیں توآج کم از کم میرے مُلک کا کوئی فرد بھی ایک مٹھی بریانی اور ذراسے گُڑ والے میٹھے چا ول کھا کر اور ایک لسی کا چھوٹاگلاس یا ٹوٹے پھوٹے کپ میں بغیر چینی اور بغیر دودھ کی چا ئے پی کرکبھی بھی کسی سیاستدان کو اپنا ووٹ نہ دیتا اور عقل سے پیدل ، سرپھوڑ، سینہ زور،بداخلاق اور اپنے مخالف اور بسا اوقات اپنے ہی ووٹرز پر قینچی کی طرح زبان چلانے والوں کوکبھی بھی مُلکی ایوانوں سے مقدس ہاو ¿سز(صدراور وزیراعظم ہاو ¿س )تک نہ پہنچاتا اور اقتدار کے اِن پوجاریوں سے اپنی قسمت اور اپنی لاچارگی کا کھلواڑکرانے کے بعد اپنی عزت کا جنازہ کیوں نہ نکلواتا جیسا کہ موجودہ صورتِ حال میں ایک ووٹر مسا ئل اور پریشانیوں اور بجلی و گیس اور توانا ئی کے مختلف بحرانوں کے بدبودار دلدل غرق ہو کر رہ گیا ہے۔

آج راقم الحر ف کو (یعنی کہ مجھے )انتہا ئی دُکھ اور افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہاہے کہ نصف صدی سے میرے دیس اور میری زمین پر حکمران وہ بنے جن کے پاس دولت کے انباراور شارپ ذہن اور لومڑی جیسی چالاکی تو بہت ہے مگر اُن کے گوشت اور ہڈی کے جسم کے پنچرے میں جوروح قیدہے وہ ذخیرہ دانش مندی تو درکنار دانش مندی کی اکائی سے بھی خالی ہے قوم کے لٹیروں (سیاستدانوں اور حکمرانوں )کو یہ تو معلوم ہے کہ حکمران بننے کے لئے سیاست کی سیڑھی کا استعمال کیسے کیا جا ئے؟؟ اور جھوٹ و فریب اورمکاری وعیاری سے اپنااور اپنے جا ننے اور چا ہنے والوں کا ٹیکس کیسے چوری اور بچا یاجا ئے؟؟ اور جب ایسے اِنہیں کامیابی نصیب ہوجا ئے تو اِنہیںسیاست سے آگے بڑھتے ہوئے قومی ٹیکس چوری اور سیاسی سیڑھی کی افا دیت اور اِس کے درست استعمال کا طریقہ بھی آ جا تا ہے اور پھریہ بیدریغ ہوکر عوامی خواہشات کو کچلتے ہوئے تیزی سے حکمرانی کے اہداف عبور کرتے ہوئے حکمران بن جا تے ہیں جہاں پہنچ کرپھر یہ جیسی چا ہیں حکمرانی کریں اور چا ہئے جیسے بھی اپنے حقِ حکمرانی کے تیر چلا ئیں ،کوئی اِن کے آگے بندباندھنے والا نہیںہوتا جیسا کہ نظرآرہاہے ۔سویہی سوچ کر میرے مُلک اور میرے دیس کے سیاستدان انتخابات میں اپنی کالی پیلی رنگ برنگین حرام و حلال کما ئی ہوئی دولت میں سے کثیر رقوم انتخابات میں انویسٹ کرتے ہیں یعنی کے اِس میں سواور ایک ہزار فیصد اضافے کے لئے آنکھیں بند کرکے رقم لگاتے ہیں اور پھر جب یہ اپنی اِسی دولت کے بدولت انتخابات میں کامیاب ہوجا تے ہیں تو تب یہ قومی خزا نے سے پاناما لیکس کی طرز کی چا ہئے جتنی دولت لوٹنا چا ہتے ہیں لوٹتے ہی چلے جا تے ہیں کوئی اِن سے ٹکرانے والا نہیں ہوتا ہے۔

اگرچہ اِس سے انکار نہیں کہ میرے مُلک اور میرے دیس میں آج جتنے بھی اگلے پچھلے سیاستدان اور حکمران موجود ہیں سب ہی قومی خزا نے کو لوٹ کر ہی دولت مند ہوئے ہیں اِن کی ہٹ دھرمی یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ دولت کے انبار میں منہ چھپانے والے اِن ہی سیاستدانوں اور حکمرانوں کا ایک ننگا پن یہ بھی ہے کہ یہ ٹیکس چوری میں بھی اُتنے ہی ماسٹر مائنڈ ہیں جتنے کہ کسی بھی دہشت گردی کے پیچھے پوشیدہ کوئی ما سٹر مائنڈ ہوتا ہے الغرض یہ کہ جس طرح دہشت گردی کا ماسٹر ما ئنڈ مجرم ہے یکدم ایسی طرح سیاستدانوں اور حکمرانوں کی شکل میں ٹیکس چور چا ہئے جو کوئی بھی ہو وہ بھی قومی مجرم ہے اُسے بھی قوم اُسی طرح دیکھے جس طرح دہشت گردی اور بم دھماکے کے پیچھے چھپا ہوا ماسٹر مائنڈ ہوتا ہے۔میری اِس بات سے میرے دیس کے ہر فرد کو یقینا متفق ہونا پڑے گا کہ سیاسی مکروہات و غلط بیانیوں اور دیدہ و دانستہ ظاہر و باطن بڑے اور چھوٹے گناہوں کی دلدل میں لت پت ہمارے سیاستدان اور حکمران خود کو تو سب سے اعلیٰ اور بالا سمجھتے ہیں کیونکہ اِن کی نظرِ بد میں عوام کی حیثیت رینگنے والے حشرات الارض اورکسی کچرے دان اور کچرا کُنڈی کے اور کچھ نہیں ہے یقین جا نیئے کہ آج مُلکِ پاکستان کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کے سامنے عوام کی حیثیت اِس کے سوا کچھ نہیںہے کہ عوام کیڑے مکوڑے ہیں اوروہ صدق دل سے یہی سمجھتے ہیں کہ اِن حشرات الارض کو مسائل اور پریشانیوں اور طرح طرح کے بحرانوں کے کچرا دانوں اور کچرا کنڈیوں تک محدود رکھا جا ئے تو یہی اِن کے حق میں بہتر ہے اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ آج اگر ایک مٹھی بریا نی اور تھوڑے سے میٹھے گُڑ کے چاول کھا کر بِک جا نے والے غریب ووٹروں کو ریلیف دے کر مسائل اور گندگی و غلاظت کے انبار سے نکال باہر کرکے اِنہیں سارے جا ئز حقوق دے دیئے گئے تو کہیں مُلک کے یہی (مانندِ حشرات الارض کی طرح زمین پر رگڑ رگڑ کر زندگی گزانے والے 95فیصد کم ظرف غریب لوگوں کے ہاتھ اِن سیاستدانوں اور حکمرانوں اور مُلک کے 5فیصد امیر مراعات یافتہ طبقے کے گریبانوں تک نہ پہنچ جا ئیں اور اِن کی عیش و طرب کی زندگیوں کا مزانہ کرکرا ہوجا ئے یہی ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی گندی سوچ ہے کہ قوم ستر سالوں سے مسائل میں پھنسی ہوئی ہے،گزشتہ جمعہ یعنی کہ کل خو د کو قومی اور جمہوری حکومت کی مالا جپنے والی حکومت نے کھربوں کے اضافی ٹیکسوں کے بوجھ کے ساتھ مُلکی تاریخ کا ایک ایسا بجٹ پیش کیا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا رہاہے کہ اِس بجٹ نے ساری جمہوری ثمرات کو دفن کرکے رکھ دیاہے اِس عوام دُشمن بجٹ میں حکومت نے ٹیکس کلچرل ایسا پروان چڑھا نے کا کھلا عندیہ دے دے ہے کہ آئندہ میرے مُلک اور میرے دیس میں غریب عوام جمہوری روایات اور جمہوری ثمرات سے یکسر محروم رہ جا ئیںگے اگر مُلک میں کوئی کلچرل راج کرے گا تو وہ صرف اور صرف ٹیکس کلچراور ٹیکس روایات ہوںگے اور ایسا لگتا ہے کہ اگلے 2018ءکے انتخابات میں اُمید وار اپنے حلقے کے ووٹرز کو یہ کہہ کر ووٹ لے گا کہ آپ مجھے ووٹ دیں تاکہ میں ایوانوں میں جا کر ٹیکس اصلاحات میں بہتری لا نے کے اقدامات کروں اور عوام کے کا ندھوں پر پڑنے والے اضافی ٹیکس کے بوجھ کو کم سے کم کراسکوں ۔(ختم شُد )

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com