ہر چند کہ زخمی ہیں قدم، ساتھ دیا ہے

Abu Bakar Siddique

Abu Bakar Siddique

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
پہلے خلیفۂ راشد حضرت ابوبکر صدیق سے امیرالمومنین کا منصب سنبھالنے کے بعد صحابہ کرام نے اُن سے سوال کیاکہ بیت المال سے اُن کی کتنی تنخواہ مقررکی جائے تو آپ نے فرمایا ” اُتنی ہی جتنی ایک مزدور کو ملتی ہے” ۔صحابہ کرام نے حیرت سے پوچھا”کیاآپ اتنی قلیل تنخواہ میںگزارا کرلیں گے”؟۔ صدیقِ اکبر نے فرمایا”اگرایک مزدور اتنی تنخواہ میں گزارا کرسکتا ہے تو میں کیوں نہیں؟ اگریہ تنخواہ میرے لیے ناکافی ہوئی تو پھر میں مزدورکی تنخواہ بھی بڑھادوںگا”۔ خلیفہ دوم حضرت عمر کے بارے میںتو ایسے بہت سے واقعات زبان زدِعام ہیں۔اُن کافرمان ہے” امیرالمومنین اُس وقت تک گیہوں کی روٹی نہیں کھا سکتاجب تک اُسے یقین نہ ہو جائے کہ اُس کی رعایا میں سے ہرایک کو گیہوں کی روٹی میسر ہے ”۔حضرت عثمان اور حضرت علی کی زندگیوں پر نظردوڑا کر دیکھ لیجئے آپ کو کہیں بھی وہ شان وشوکت نہیں ملے گی جو قیصروکسریٰ کے شہنشاہوں کا خاصہ تھا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے حکمران خلفۂ راشدین کا دَور لوٹانے کی کوشش کرتے کیونکہ ہم نے زمین کا یہ ٹکڑاربّ ِ لَم یزل سے اِسی عہد کے ساتھ حاصل کیا تھا لیکن ہمارے حکمرانوں نے تو قیصر وکسریٰ کا سا وطیرہ اپنا لیا۔ عہدیہ تھا کہ ہم زمین کے اِس ٹکڑے کو اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے ،نام بھی اسی لیے” اسلامی جمہوریہ پاکستان” رکھا اور آئین میں بھی درج کر دیا کہ دینِ مبین سے متصادم ہر آئینی شِق کو اسلامی سانچے میںڈھال دیاجائے گا۔حصولِ مقصدکے لیے اسلامی نظریاتی کونسل بھی تشکیل دے دی گئی لیکن آئین اسلامی بن سکانہ جمہوری ۔میرے رَبّ کاتو یہ فرمان ہے کہ حقوق اللہ تو معاف کیے جاسکتے ہیں (اگر اللہ چاہے تو) لیکن حقوق العباد ہرگز معاف نہیں ہونگے ۔ ہمیں حقوق اللہ یادنہ حقوق العباد کی پرواہ۔ حکمران جب ہماری ہی رگوں سے کشیدکیے گئے خون میں سے بقدرِقطرۂ شبنم ہمیں لوٹاتے ہیںتو انداز ایسا کہ جیسے ہم بھکاری و ںکووہ بھیک دے کر احسانِ عظیم کررہے ہوں۔ سچ کہا اقبال نے کہ
دستِ دولت آفریں سے مُزد یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات

ہمارے ہاں دنیاجہاں کی ساری نعمتیں اشرافیہ کے لیے مختص اورخزاں دیدہ قوم کے لیے زرد پتوںکے سواکچھ بھی نہیں۔ ایک محترم کالم نگارنے اپنے کالم میںاراکینِ پارلیمنٹ کی تنخواہوںاور مراعات کے بارے میں لکھاکہ اراکینِ قومی اسمبلی کی تنخواہ 68 ہزارسے بڑھاکر ایک لاکھ 30 ہزار روپے ماہانہ کرنے کافیصلہ کرلیا گیاہے ۔قومی اسمبلی یاسینٹ کے اجلاس میںشرکت پرہر رکن کولگ بھگ 4 ہزارروپے روزانہ ملتاہے اوریہ رقم قائمہ کمیٹی کے اجلاس میںشرکت پربھی ہررکن کوملتی ہے ۔چیئرمین قائمہ کمیٹی کوگاڑی ،پٹرول اورعملے سمیت کئی اضافی مراعات بھی ملتی ہیں۔ہر رکنِ اسمبلی کو10 روپے فی کلومیٹرٹریول الاؤنس ،3لاکھ روپے سالانہ کے ٹریول واؤچرز ،90 ہزارروپے نقد ،جہازکی بزنس کلاس میںسفرکی سہولت ،سرکاری ریسٹ ہاؤس اوربچوں اوروالدین کی طبی سہولتیںمیسر ہیں۔

Pakistan Parliament

Pakistan Parliament

شنیدہے کہ اب مرکزی حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ اگرکوئی شخص پوری زندگی میںایک بار بھی رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہواہو تواُسے اوراُس کے اہل وعیال کویہ طبی سہولتیں تا دمِ مرگ میسررہیں گی ۔ محترم لکھاری نے اپنے کالم میںدِل کے پھپھولے توخوب پھوڑے اوریہاں تک لکھ دیاکہ اگر اُن کاکہا غلط ثابت ہوجائے تو جوچور کی سزا ،وہ اُن کی سزالیکن شاید وہ نہیںجانتے کہ حکمرانوںکی نظرمیںہمارے اراکینِ پارلیمنٹ اتنے مجبور، بے کس اوربے بَس ہیںکہ اپنی جیب سے ادویات لینے کی سکت ہی نہیںرکھتے۔وہ تونانِ جویںکے محتاج ہیںپھر بھلا مہنگی ادویات کے لیے پیسہ کہاںسے لائیں؟۔ اسی لیے ہماری حکومت نے کمال مہربانی کاثبوت دیتے ہوئے اُن کی ”بماریوں،شماریوں”کا بوجھ اپنے کندھوںپر اٹھالیاکیونکہ یہ کندھے قوم کاخون چوس چوس کر بہت مضبوط ہوگئے ہیں۔بھلے ٹیکسوںکی صورت میںہمارے اپنے ہی خون سے کشیدکیے گئے پیسے سے ہمیںحکومتی ہسپتالوںسے ”پیناڈول” کی ایک گولی بھی میسرنہ ہوپھربھی ہم خوش ہیںکہ گزشتہ 18 ماہ کے دَوران اراکینِ پارلیمنٹ پرلَگ بھگ29 کروڑ روپے صرف توہوئے۔ہم سلامِ عقیدت پیش کرتے ہیںاپنے حکمرانوںکو جو”رہبرانِ قوم” کی صحت کااتنا خیال رکھتے ہیں۔یہ انکشاف توہمارے لیے واقعی حیران کُن ہے

ہماری خواتین اراکینِ پارلیمنٹ ”ہَتھ”کرنے میں مردوںسے بھی ”دوہاتھ” آگے ہیں۔ وہ اپنی صحت کابھرپورخیال رکھتے ہوئے بیماری کوقریب بھی پھٹکنے نہیںدیتیں لیکن اِس کایہ مطلب ہرگز نہیںکہ وہ ”طبی سہولیات”سے مستفیدنہیں ہوتیں۔ ”حصولِ حق” کے لیے اُنہوںنے کیاخوب راہ نکالی کہ وہ ادویات کے بدلے ”کاسمیٹکس”کی خریداری کرلیتی ہیں۔ہمیں اِن کی اِس ”واردات”پرتو کوئی اعتراض نہیںکہ ہمارا تعلق بھی طبقۂ نسواںسے ہی ہے اورہم بھی حقوقِ نسواںکے علمبردار البتہ حکومتِ وقت سے یہ گلہ ضرورکہ 20 کروڑعوام کے لیے صحت کی مَد میںجی ڈی پی کاصرف 0.7 فیصد اور انگلیوںپہ گنی اشرافیہ کی پانچوںگھی میں۔ کہناہی پڑتاہے کہ
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے

ایک طرف تواشرافیہ کے لیے دنیاجہاں کی نعمتوںکے دَرکھُلے جبکہ دوسری طرف گورنمنٹ ملازمین کایہ عالم کہ سفیدپوشی کابھرم قائم رکھنابھی مشکل بلکہ ناممکن ۔ایک طرف بُلٹ پروف گاڑیوںاورحفاظتی دستوںکے جلومیں سڑکوںپر دندناتی اشرافیہ اوردوسری طرف اُنہی سڑکوںپر احتجاج کرتے ،روتے پیٹتے ملازمین۔ ہم تویہی سمجھتے تھے کہ اب اِن ملازمین کی بھی سنی جائے گی لیکن اخباری اطلاعات کے مطابق بجٹ 2015-16 ء میںتنخواہوںاور پنشن میںپانچ سے دَس فیصدتک اضافہ کیاجا رہاہے۔پوراسال سڑکوںپر احتجاج کرنے والے ملازمین کے ساتھ ایساسلوک سمجھ سے بالاتر ہے ۔اگر یہ خبردرست ہے توہم حکمرانوںسے دست بستہ عرض کریںگے کہ وہ بقدرِ قطرۂ شبنم یہ اضافہ بھی اراکینِ پارلیمنٹ کی ادویات اوردوسری سہولتوں کے لیے مختص کردیں کیونکہ ملازمین تواِس اضافے کے بغیربھی خارزارِزیست کاسفر کاٹ ہی لیںگے لیکن ”نرم ونازک”اراکینِ پارلیمنٹ کو”تَتی ہوا” نہیںلگنی چاہیے ۔ہم اپنے مہربانوںکو یہ ہرگز نہیںکہیں گے کہ
گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بَر اندازِ چمن کچھ تو اِدھر بھی
کیونکہ
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر