انکوائری کمیشن یا تھانیدار

Panama

Panama

تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری
پانامہ لیکس ہوں یا وکی لیکس یہ صرف لیک لگانے ، پاجامہ اور انڈر وئیر کو لیک کرنے کے لیے ہی ہیں وگرنہ رحمان ملک نواز شریف زرداری جیسے اونچے پائے کے لوگوں کے لیے ایسی خبریں پرِ کاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتیں ۔انہوں نے ایسے کئی ڈراوے اعلیٰ ڈراموں کے ذریعے بھگتائے ہوئے ہیں۔ جہانگیر ترین نے اربوں روپوں کے بینک قرضے معاف کروالیے ،سیاست بھی جاری ہے۔اور عمرانی کندھا سہارے کے لیے بھی مل گیا ہے۔عمران خان کو جہاز دیکراپنا تحفظ مکمل کر رکھا ہے شریفوں کے پاس جمع شدہ سرمایہ ہی اتنا ہے کہ آپ خواہ بین الاقوامی کورٹس میں لے جائیں وہاںبھی اعلیٰ وکلاء کو بھاری فیسیں دے کر انھیں بری ہی سمجھیں۔آخر سرے محل کا کیا بنا۔اربوں ڈالر بیرونی ممالک میں جمع کروانے والے زرداری کا بال بیکا بھی ہو سکا؟دوسری طرف پاکستانی عدالتوں میں تو مقتدر افراد کے پروردوں اور تابعداروں کی ہی تعداد زیادہ ہے۔اب کسی بھی جوڈیشل کمیشن کی جگہ تمام ایسے ملزمان جن کا نام لیک ہوا ہے۔انھیں اگر تھانہ کوٹ سبزل یا تھانہ مروٹ یا کسی بھی دیہاتی تھانہ کے ایس ایچ او کے حوالے کردیویں تودو تین روز میں ہی ساری تفتیش مکمل سمجھیں اور مال بھی جتنا انھوں نے بتایا ہے اس سے د گنا چو گنا برآمدہو جائے گا اور متعلقہ ایس ایچ او کے بھی وارے نیارے ہو جائیں گے ان کو بھی اتنا مال پہنچ جائے گا کہ انھیں مزید پولیس کی نوکری کی بھی ضرورت نہ رہے گی اور تین چار پشتیں بھی آرام سے مال حرام کے حوض میں نہاتی دھوتی ڈبکیاں لگاتی اور رنگ رنگیلیاں کرتی رہیں گی۔اب قوم فیصلہ کرے کہ یہ فیصلہ ٹھیک ہے یا کمیشنوں والا ضروری ہے۔

سبھی سمجھتے ہیں کہ تھانیدار والے طریقہ سے ہمارا کوئی خرچہ نہیں ہو گا۔دوسری طرف ھینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ چوکھاآوے کے مترادف ہو گا ۔کتوں کو بغلوں میں دبا کر فوٹو سیشن کروانے والا کمانڈو ڈکٹیٹر ہی ائیر پورٹوں سے پھلانگیں بھرتا ہوا ایسے نکل گیا جیسے مکھن میں سے بال تو آپ کیسے سابقہ مقتدر رہنے والے حکمرانوں یا موجودہ میں سے کسی کو پھانس لیں گے ۔ان کے پاس تو ذاتی ائیر پورٹس سے اپنے طیارے ہروقت اڑان کے لیے تیار رہتے ہیں۔200سے زائد بچے بچیوں سے زنا کرنے کروانے والا اور گناہوں سے بھرپور ڈیرہ رکھنے والا ایم پی اے تو قابو آتا نہیں۔ غربت کے مارے لوگ نان جویں کو ترستے خود کشیاں کر رہے ہیں۔ان کے آنسو پونچھنے کے لیے اقتدار کے پاس فرصت ہی نہ ہے اور ہم چلے ہیں موجودہ وزیر اعظم کو نیچا دکھانے “سونی پڑیں گلیاں وچ رانجھا یار پھرے “سارا ملک بھی خلاف ہو گیا تو اکیلے رحمان ملک، شریفوں یا چوہدری برادران پھر بھی آپ کے قابو نہیں آئیں گے۔جس نے پاجامہ پہنا ہے وہ پیشاب کرنے کا راستہ رکھ ہی لیتا ہے جنھوں نے اربوں کھربوں لوٹے اور کھائے ہیں وہ اس جنجھٹ سے جان چھڑوانا بھی خوب جانتے ہیں ۔رومانیہ کے انتہائی دولت مند سربراہ چائو شسکو کو اس کے اپنی ہی حفاظت پر مامور سپاہیوں نے بیوی سمیت گھیر کر ہلاک کر دیا تھا۔

Wikileaks

Wikileaks

ٹنوں کے حساب سے مدفون ہیرے جواہرات اور سونے کے زیورات نہ اس کی حفاظت کرسکے اور نہ ہی اس کے کسی کام آسکے۔قارون کے خزانے کیا ہوئے اسی طرح ان کے بھی خزانے باہر مدفون پڑے رہ جائیں گے ا ور ان کے لواحقین کے ہاتھ بھی کچھ نہ آئے گا کہ”سب ٹاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا۔حکمرانوں کو تو ایسا بندہ درکار ہے خواہ وہ جج ہو یا جمعدار جو ان پر لگائے گئے الزامات پر جھاڑو پھیر سکے۔ایسا ریٹائرڈ جج تک بھی نہیں مل رہا۔کہ آخری عمر میں تو بڑے بڑے گناہ گار بھی عبادات میں مشغول ہو جاتے ہیں تاکہ قیامت کے روز سرخرو ہو سکیں وہ ایسے وقت میں کیونکرا ربوں ڈالر لوٹ کر بیرون ممالک کاروبار کرنے والوں کو کلئیرنس دے سکتے ہیں اورسپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے تو ایسی توقع رکھنا ہی عبث بات ہے۔وہ ٹھگوں کی بادشاہی کا حصہ دار بنیں گے ایں خیال است و محال است وجنوں والی بات ہے باقی رہا پاکستانی آئین ،قانون و انتظامیہ وغیرہ کا رول تو وہ پہلے ہی الف ننگا کھڑا شیطانی ناچ ناچ رہا ہے۔ اوپر بیان کردہ تھانے داروالا طریقہ ہی احسن طریقہ ہے وہاں پر یہ طوطے ایسے ٹیں ٹیں کریں گے کہ دنیا پانامہ یا وکی لیکس کے انکشافات کو بھی بھول جائے گی۔

جن جن ملکوں سے سود در سود ملکی قرضے لیکر ڈائریکٹ غیر ملکی بنکوں میں جمع کروائے گئے ہیں کہ صرف دو دن ناز و نعم میں پلے ملوک زادہ شہزادوں کوپلسیوں نے’ منجی’ لگایا،رولر یا بانس پھیرا تو چیخیں آسمان تک اور ہضم مال سار اپاکستانی بنکو ں میں جمع شدہ ملے گا۔ سانحہ مشرقی پاکستان پر بنائے گئے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ 44سال بعد بھی شائع نہ ہوسکی ہے اور اب بنائے گئے کمیشن کی رپورٹس ملزموں کے قبر میں جانے کے بعد شائع ہوئیں تو اس کا کیا فائد ہو گا؟ سانپ گز رگیا تو لکیر پیٹا کر،جب ان کی ملیں مزید بچے جن بیٹھی ہوں گی تو آپ کو کیا ملے گا۔ہوسکتا ہے حکومتی تخت پر براجمان لوگ ان ملوںکو ٹیلی فون ،پی آئی اے ،سٹیل مل کی طرح نیشنلائز یعنی ذاتی قبضہ میں کرلیں یا بیچنے کا ڈھونک رچا کر خودہی رکھ لیں تو آپ ان کا کیا کرلیں گے۔پاجامہ لیکس والو ںکو بھی ہمارے ہی تھانوں میں طلب کیا جائے کہ کرپٹ حکمرانوں اور ان کے شہزاد گان کے بارے میں ہو سکتا ہے مخالفین نے رپورٹس کچھ مال لے دے کر تیار کرکے اعلان کرڈالاہو۔

Court

Court

ہمارے شہزادے بیچارے دودھ نہائے خوامخواہ گڑ بڑ کرکے پلید سے پلید تر ہورہے ہوں یہ پہلو بھی ضرور مد نظر رہنا چاہیے تاکہ ملزمان کو جو صفائی کا موقع دیا جانا ضروری ہے اس کا بھی اتمام حجت ہوئے ۔ہماری پولیس تو اندھے قتلوں کا سراغ لگالیتی ہے حتیٰ کہ قاتل کو مقتول اور مقتول کو قاتل بنا سکتی ہے اگر چاہے تو بیسیوں چوریاں ایک ہی ملزم سے برآمد کرواڈالے۔اور مزید چاہے تو اپنی عادات کے مطابق ملزم اور مدعی دونوں سے مال بٹور کر ایسا مقدمہ جمع عدالت کروادے کہ جج خود پزل ہو کر رہ جائے کہ اب و ہ کیا کرے اس کے لیے کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ۔صرف دس بیس “اعلیٰ طبقات”کے لوگوں کو نکیل ڈال لیں خوشی کے مارے غریب عوام کے جلوس رکنے کا نام نہیں لیں گے اور ملک میں امن کی فاختہ کا مکمل راج قائم ہو جائے گا۔

Dr Ihsan Bari

Dr Ihsan Bari

تحریر: ڈاکٹر میاں احسان باری