اداروں پر بوجھ

Pakistan

Pakistan

تحریر : روہیل اکبر
پاکستان میں پسند و ناپسند کی بنیاد پرنہ صرف نوازا جاتا ہے بلکہ عہدوں کی بندر بانٹ بھی کی جاتی ہے فوجی آمریت ہو یا جمہوری آمریت دونوں ادوار میں ا یسے افراد کو ڈھونڈ کر عہدوں پر بٹھادیا جاتا ہے جو بیچارے خود اپنا وزن بھی برداشت نہیں کرسکتے انہیں پورے پورے محکمے،ادارے، صوبے یا ملک کی ذمہ داری دیدی جاتی ہے اور بعد میں انکے مزاحیہ قسم کے بیان پڑھ کر مختلف لطیفے یاد آجاتے ہیں۔

ہمارے حکمرانوں کی خوش قسمتی اور عوام کی بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کی ترقی کی راہ میں اٹکے ہوئے یہ افراد کسی مجسمے کی طرح اپنی سیٹوں پر براجمان ہوکر اپنے آقاؤں کے حقوق کے تحفظ میں مگن ہوجاتے جہاں جہاں حکومت نے ان بزرگ بوڑھوں کو ذمہ داریوں سے نواز رکھا ہے وہی پر تباہی پھیلی ہوئی ہے ہمارے ہاں کرپشن اور چور بازاری سے نہ کوئی فرد پاک ہے اور نہ ہی کوئی افسر مگر جو کھانے پینے کے ساتھ ساتھ اپنے ادارے کے وقار کا بھی تحفظ رکھیں اور اسکی بنیادوں کو بھی مضبوط کریں وہ بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں ابھی کل کے اخبارات میں چند اہم شخصیات کے بیانات چھپے جن کو پڑھ کر آپ بھی محظوظ ہونگے۔

سب سے پہلے ہمارے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا بیان ملاحظہ فرنائیں، شہریار خان نے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کی فٹنس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی ٹیم کے فٹنس کا معیار دنیا میں سب سے بدتر ہے، ہماری کوئی بھی فرسٹ کلاس ٹیم ڈومیسٹک کرکٹ کے فٹنس کے کم از کم معیار پر بھی پورا نہیں اترتی جس کی وجہ سے قومی ٹیم کے انتخاب میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، شہر یار خان صاحب جو عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں سخت فیصلوں کی بجائے آرام کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے مگر کچھ لوگوں نے اپنے مفادات کے لیے انہیں مشکل فیصلوں پر لگا دیا ہے اگر چیئرمین پی سی بی کسی ایسے فرد کو لگایا جاتا جو خود اپنا وزن بھی اٹھاتا اور پی سی بی جیسے بڑے ادارے کا وزن بھی برداشت کرلیتا مگر جس طرح عمران خان نے پرویز خٹک کو صرف دکھاوے کے لیے وزیر اعلی بنایا ہوا ہے اسی طرح شہریار خان صاحب کا بھی معاملہ ہے بلکل اسی طرح اب حکومت نے بہت مشکل سے جناب رفیق رجوانہ صاحب کو ڈھونڈ ڈھانڈ کرگورنر پنجاب کے عہدے کے لیے نامزد کردیا ہے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہونگے تو ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے عہدے کا حلف بھی اٹھا چکے ہوں۔

محترم رجوانہ صاحب بھی ہمارے سپیکر پنجاب اسمبلی کی طرح عمر رسیدہ ہیں جو زیادہ تر آرام فرماتے ہوئے ہی اپنا وقت گذاریں گے کیونکہ حکومت نے نہ تو انہیں کوئی ذمہ داری دینی ہے اور نہ ہی انہیں انکا کام کرنے دینا ہے جو کام کرنا چاہے گا اسکے کام میں خود حکومت ہی رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیگی جس طرح چوہدری سرور نے انکشافات کیے تھے ،وفاقی کابینہ میں شامل عابد شیر علی بھی بڑے کام کے آدمی ہیں وہ نہ صرف وفاقی وزیر ہے بلکہ مسلم لیگ یوتھ ونگ پنجاب کے صدر بھی ہیں گذشتہ روزجب کے پی کے کے وزیر اعلی نے اعلان کیا کہ وہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنہ دینگے تو عابد شیر علی نے فرمایا کہ پرویز خٹک نے دو سال کنٹینر پر ڈانس میں لگا دئیے ‘خیبر پختونخوا میں بجلی کا کوئی منصوبہ نہیں لگایا‘تمام صوبے اپنے بجلی کے منصوبے شروع کر سکتے ہیں ‘خیبر پختونخوا نے ایک میگا واٹ بھی بجلی پیدا نہیں کی۔

Abid Sher Ali

Abid Sher Ali

عابد شیر علی کی بات بلکل ٹھیک ہے اگر عمران خان پرویز ختک کی بجائے کسی ایسے نوجوان اور محنتی فرد کو بااختیار وزیر اعلی بناتے تو آج کے پی کے میں قدرتی چشموں پر پن بجلی گھر تو لازمی بن چکے ہوتے مگر پنجاب ،سندھ اور مرکز کی طرح کے پی کے میں طاقت کا توازن اور فیصلے کی قوت کسی اور کے پاس ہے یہی وجہ ہے ہم جتنی بھی کوشش کرلیں مگر اسکے باوجود ہمارا سفر ترقی کی بجائے پستی کی طرف جاری ہے مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت میں میاں برادران کی ڈکٹیٹر شپ میں بھی اگر کسی فرد نے کام کیا ہے تو ان میں چوہدری نثار علی خان ،عابد شیر علی اور خواجہ سعد رفیق قابل ذکر ہیں خاص کر خواجہ سعد رفیق جن پر کرپشن ،لوٹ مار اور اب نااہلی کا الزام ہے انہوں نے ریلوے کو اسکی آخری سانسوں سے واپس لاکر نئی زندگی دیدی مسلسل خسار ہ میں رہنے والا ادارہ اب منافع بخش ادارہ بن چکا ہے۔

بند ٹرینیں دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہوچکی ہیں میں نے پہلے لکھا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی کرپشن سے پاک نہیں ہے جسے موقعہ نہیں ملا یا جسکے پاس اختیارات نہیں ہیں وہی اس برائی سے بچا ہوا ہے مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کھانے پینے کے ساتھ ساتھ کام پر بھی توجہ دیتے ہیں اگر باقی کے افراد بھی اسی طرح کام کرنا شروع کردیں تو ملک ترقی کی پٹری پر چلنا شروع کردیگا اگر ملکی ترقی کی رفتار تیز کرنی ہے تو پھر ایسے افراد کو عہدوں پر تعینات کیا جائے جو نہ صرف اپنا بوجھ برداشت کرسکتے ہو بلکہ جو انہیں ذمہ داری دی جائے۔ اسکے ساتھ بھی انصاف کرسکیں اور ایسے افراد کے آرام و سکون کا خاص خیال رکھا جائے جو عمر کے اس حصے میں پہنچ چکے ہوں جہاں انہیں اپنے سواء کوئی اور نظر ہی نہ آتا ہو۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200