ایران میں پھانسیوں کا سلسلہ جاری، علماء اہل سنت سراپا احتجاج

Executions

Executions

ایران (جیوڈیسک) ایران میں ملک دشمنی کی نام نہاد سازشوں کے الزامات میں قیدیوں کو اندھا دھند پھانسیاں دینے کا سلسلہ جاری ہے۔

گذشتہ روز ایران کے صوبہ کردستان سے تعلق رکھنے والے ایک اور سماجی کارکن کو پھانسی دے دی گئی۔ ادھر دوسری جانب ایران میں قیدیوں کو پھانسی دیے جانے کے خلاف اہل سنت والجماعت مسلک کے علماء نے سخت احتجاج کیا ہے۔

جمعرات کو علی الصباح ایرانی حکام نے ضلع کرمان شاہ کے روانسر شہر میں ایک کرد قیدی کو مجمع عام میں پھانسی دی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور اہل سنت مسلک کے علماء نے ایران میں شہریوں کو دی جانے والی پھانسی کی سزاؤں کی شدید مذمت کرتے ہوئے قیدیوں کا قتل عام بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایران میں اہل سنت کے تین سرکردہ علماء نے اپنے اپنے بیانات میں کردوں، بلوچ اور دیگر سنی مسلمانوں کو پھانسیاں دیے جانے کی شدید مذمت کی ہے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ ایرانی حکام کی طرف سے مجمع عام کا اعلان کرنے کے باوجود پھانسی کے وقت کوئی عام شہری موقع پر حاضر نہیں ہوا۔ کرد قیدی حسین عبداللھی کو جب پھانسی دی گئی تو اس موقع پر صرف ایرانی حکام ہی موجود تھے۔

کردستان انسانی حقوق نیٹ ورک کی ویب سائیٹ پر پوسٹ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ حسین عبد اللھی کو پھانسی دیے جانے پر روانسر شہر میں عوام میں حکومت کے خلاف سخت غم وغصہ پایا جا رہا ہے۔ قبل ازیں اس شہر میں پوسٹر تقسیم کئے گئے تھے جن میں ایرانی حکام کی طرف سے خبردار کیا گیا تھا کہ 33 سالہ کرد قیدی کی پھانسی پر کسی قسم کا رد عمل سامنے نہیں آنا چاہیے۔

ادھر ایران کے تین سرکردہ سنی علماء الشیخ عبدالحمید اسماعیل زئی، الشیخ حسن امینی اور محمد حسن کرکیج نے اپنے الگ الگ بیانات میں 2 اگست کو 25 سنی علماء اور کارکنوں کو پھانسی کے گھاٹ اتارے جانے کی شدید مذمت کی ہے۔

سنی علماء نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے نام اپنے مکتوب میں ان سے مطالبہ کیا ہے کہ انقلاب عدالتوں کی طرف سے سنائی گئی ظالمانہ سزائوں پرعمل درآمد روکا جائے اور اہل سنت مسلک کے کارکنوں اور علماء کو دی گئی موت کی سزاؤں پر نظر ثانی کی جائے۔