اللہ نہ کرے

Iran and Saudi Arabia

Iran and Saudi Arabia

تحریر: انجینئر افتخار چودھری
یہ لڑائی ایران اور سعودی عرب کی نہیں ہو گی خطے میں آگ لگانے والوں نے کئی سال پہلے پلان بنا رکھے ہیں۔ایران تو ایک آلہ کار بنے گا اصل مقصد مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے اور میںسمجھتا ہوں ٢٠١٦ کا سال اس لحاظ سے بد بختی کا سال ثابت ہو سکتا ہے اس لئے کہ زمینی خدائوں نے اب سعودی عرب کے گرد گھیرا تنگ کر لیا ہے۔آپ نے سوشل میڈیا پر دیکھ لیا ہو گا کہ ایک طبقہ کہہ رہا ہے کہ ایران سعودی عرب کی جنگ اگر ہوتی ہے تو اس میں پاکستان کے گلیوں اور کوچوں میں لڑائی ہو گی۔کیوں اور کس لئے کیا اس طرح آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی شیعہ اسلام آباد کی بجائے تہران کی طرف دیکھے گا؟خدا را اس سازش کو ابھی سے دبا دیجئے اتحاد بین المسلمین کی اس وقت جتنی ضرورت ہے کبھی نہیں رہی نہ ہم سعودی وہابیت کے کھڑچے ہیں اور نہ ہی ایرانی شیعت کے چمچے۔ پاکستان پاکستان ہے جس کی اپنی ایک شناخت ہے ایک معتدل ملک جو ہر کسی کو جینے کا حق دیتا ہے

اس قوم کے ساتھ کوئٹہ راولپنڈی میں کوشش کی گئی کے لوگ ایک دوسرے کو ماریں مگر ہنگامہ نہ ہوا اور نہ ہی یہ سازش کامیاب ہو سکی۔قوم جیو اور جینے دو کی پالیسی پر زندہ رہنا چاہتی ہے۔ہاں ایک بات کا ڈر ہے اور وہ یہ ہے کہ سعودی عرب کو اگر توڑنے کی کوشش ہوئی تو حرمین میں مصلی ایک نہیں رہے گا جس امن و آشتی سے دنیا بھر کے مسلمان عبادات کرتے ہیں انہیں انتشار کا شکار کر دیا جائے گا۔ایک عرصے سے یہ کوشش جاری ے کہ مملکت خداداد سعودی عرب کے تین ٹکڑے کر دیے جائیں تیل سے مالا مال علاقہ منطقہ شرقیہ الگ وسطی صوبہ ریاض اور جنوبی صوبے کو الگ ملک بنا دیا جائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو آزاد شہر بنا دیا جائے جہاں دنیا بھر سے لوگ آئیں حتی کہ اسرائیلی یہودیوں کو بھی اجزت ہو کہ وہ مدینہ منورہ اپنا آباء و اجداد کی جگہ جائیں اس سازش کے پیچھے عالمی یہودی طاقتیں سر گرم ہیں۔رونالڈ ریگن کے زمانے میں سعودی فرماں روا سے بات کہی بھی گئی تھی۔انہی دنوں مدینہ ایئرپورٹ کے پاس طوب المیمنی کے پاس ایریا مقامی لوگوں میں مفت تقسیم کیا گیا تھا یہ شاہ خالد کا دور تھا۔

Pakistan

Pakistan

سعودی عرب نے ایک شدید غلطی کی کہ اس نے مسلمانوں کے لئے نیشنیلٹی کے دروازے بند کئے رکھے اور صورت حال یہ ہے کہ اس کی اپنی فوج یمن میں ناکامیوں کا سامنا کر رہی ہے۔شائد اسی لئے اسے اب پاکستان کی یاد آئی ہے جو ٢٤ اسلامی ممالک کا اتحاد سامنے لایا گیا ہے جس میں پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے کہ جس کی فوج اس قابل ہے کہ وہ سعودی عرب کی حفاظت کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکے۔باقی گنتی کے ممالک ہیں۔پاکستان کو کیا کرنا چاہئے کیا اسے سعودی عرب کو ٹوٹتا دیکھنا چاہئے ایک تماشائی کی طرح یا پھر عالمی صیہونی سازش کو روکنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔یاد رکھئے سعودی عرب میں حرمین شریفین کو سخت خطرات لاحق ہیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس موقع پر اس ملک کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو جان لیجئے امت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ایران کی تو عادت ہے وہ چند عشرے پہلے عراق کے ساتھ بھی طویل جنگ لڑ چکا ہے ،اس کا تو کام ہے دائیں بائیں شرلیاں چھوڑنا شرارتیں کرنا۔پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات شاہ ایران کے جانے کے بعد کبھی بھی اچھے نہیں رہے۔ضیاء الحق دور میں تو اس نے اسلام آباد کو بند کرانے شہر شہر بم دھماکے کرانے میں اپنا حصہ جثے سے زیادہ ڈالا ۔بہت سے لوگ تو ضیاء کی شہادت ایرانی سازش کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ایسے میں دیکھا جائے تو پاکستان کو ٢٤ رکنی اتحاد میں بھرپور حصہ لینا چاہئے اور یہ اتحاد سعودی عرب کو عالمی سازش سے بچانے کے لئے ہونا چاہئے۔

یہ غلط فہمی بھی ایرانی لابی کی پھیلائی ہوئی ہے کہ یہ فوجیں ایران کے خلاف استعمال ہوں گی۔کیا ایران ایسی کسی پلان کا حصہ ہے جو اسے ڈر ہے؟اگر نہیں تو اسے اس اتحاد سے خطرہ کیوں ہے؟اور اگر واقعتا ایسی کوئی بات ہے کہ وہ ان عالمی قوتوں کے ساتھ مل کر مملکت سعودی عرب کے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے تو پاکستان کو حرمین کو بچانے کے لئے اپنا کردار ادا کر نا چاہئے۔پاکستان کے سب لکھاری کالم نویس منہ میں گنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں ایرانی لابی جو چاہے کرے اسے کوئی نہیں روکتا لیکن جب پاکستان کے برادر ملک سعودی عرب کی بات آئے تو اسے وہابی وہابی کر کے اکیلا چھوڑنے کی بات ہوتی ہے۔بھول جائیے کہ ایران یہاں فتنہ و فساد پھیلائے گا وہ جانتا ہے کہ پاکستانی فرقوں سے بالا تر ہو کر ملک کا دفاع کریں گے۔ مجھے اس موقع پر پاکستان کے سیاسی اکابرین سے درخواست کرنا ہے کہ جب آپ بات کرتے ہیں کہ ہمیں سعودی ایران سے کیا لینا دینا اگر آپ کو نہیں لینا دینا تو ان ٢٠ لاکھ پاکستانیوں کی فیملیز کا لینا دینا تو ہے جو وہاں عزت سے روٹی کما رہے ہیں پورے خلیج میں ٥٠ لاکھ پاکستانی ہیں پانچ کروڑ پاکستانی ڈائریکٹ وہاں سے پیسے منگوا کر روٹی کھاتے ہیں۔

Iran

Iran

حکمرانوں کا تو آپ نے دیکھ ہی لیا وہ تو جو نوالہ ہے اسے بھی چھین کھانے کی فکر میں مبتلا ہیں۔ یہاں اس ملک سے لوگ لاکھوں کی تعداد میں بھاگ رہے ہیں آپ ان کے آنے کے بعد انہیں کہاں سنبھالیں گے۔آپ ٢٠١٦ کو ایک بہتر سال قرار دیتے ہیں میں سمجھتا ہوں صدام حسین کے بعد خطے میں جو قیامت آئی ہوئی اس میں ایرانی ہاتھ کو کسی طور بھی نظر انداز کیا جا سکتا۔آپ کے حج کو ایران نے لڑائی اورجھگڑے کا ایوینٹ بنا دیا ہے اور سر عام کہتا ہے کہ ہم ٣ ملین عاشورے پر اکٹھا کرتے ہیں آپ ٢ ملین نہیں سنبھال سکتے گویا حج اور یوم عاشور برابر ہے اور وہ آپ کا یہ ہمارا۔اس قسم کی انتہا پسندانہ سوچ نے پاکستان میں کیا گل کھلائے ہیں کہ لوگوں نے کافر کافر کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔یہ دو انتہائیں ہمیں نظر آتی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء سیاسی اکبرین مکالمہ کریں اور خطے میں شیعہ سنی کے نام پر بھڑکنے والی اس آگ کو بپاء ہونے سے پہلے بجھا دیں۔رہی بات سعودی عرب کو تنہا چھوڑنے کیِ پاکستان کے مشکل وقت کا ساتھ دینے والا ملک ہمارا بلد ثانی ہے۔ہم مکہ اور مدینہ سے کیسے آنکھیں موند سکتے ہیں۔پاکستان کو سعوی اتحاد میں فعال کردار ادا کرنا چاہئے۔مسئلہ امت مسلمہ کا ہے۔اللہ نہ کرے مسلمانوں کے لئے نئی آزمائشیں پیدا ہوں۔

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر: انجینئر افتخار چودھری