عراقی فورسز سنی مردوں کو قتل اور تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں

Iraqi Security Forces

Iraqi Security Forces

عراق (جیوڈیسک) انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم “ایمنسٹی انٹرنیشنل” نے کہا ہے کہ عراق کی سرکاری فورسز اور نیم فوجی اہلکار داعش کے زیر قبضہ علاقوں سے بچ نکلنے والے سنی مرد شہریوں کو مبینہ طور پر قید، تشدد اور قتل کا نشانہ بنا رہے ہیں کیونکہ انھیں شبہ ہے کہ ان کے شدت پسندوں سے تعلقات ہو سکتے ہیں۔

منگل کو شائع کردہ اپنی رپورٹ میں تنظیم کا کہنا تھا کہ “ایسے میں جب موصل کا قبضہ حاصل کرنے کی جنگ شروع ہے، یہ بہت اہم ہے کہ عراق حکام اس بات کو یقینی بنانے کے اقدام کریں کہ ایسی انتہائی خراب صورتحال دوبارہ پیدا نہ ہو۔”

ایمنسٹی کا مزید کہنا تھا کہ “ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، تشدد اور غیر قانونی حراست کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا ہے۔”

تنظیم نے یہ رپورٹ 470 سے زائد افراد سے انٹرویو کی بنیاد پر مرتب کی گئی جن میں متعدد ایسے لوگ بھی شامل تھے جو داعش کے علاقوں سے نکلے تھے اور ان پر عسکریت پسندوں کی حمایت کا شبہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔

سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے ان بعض سنیوں کو کہنا تھا کہ انھیں ایسے ویران گھروں میں بند کر دیا گیا جہاں دیواروں پر خون لگا ہوا تھا اور انھیں خوراک اور پانی سے محروم رکھتے ہوئے بیلچوں، آہنی پائپوں اور تاروں سے مارا پیٹا جاتا تھا۔

ان کے بقول سپاہی ان پر کھڑے ہو جاتے اور ان کے جسموں کو سگریٹ اور گرم موم سے داغا جاتا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ 16 مردوں کے ایک گروپ جس میں چار لڑکے بھی شامل تھے، مئی میں فلوجہ سے بھاگنے میں کامیاب ہوا تھا اور انھوں نے خود کو عراقی فوج اور پولیس کی وردیوں میں ملبوس لوگوں کے حوالے کیا تھا لیکن اس گروپ کو فوری طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

ایمنسٹی کے مطابق عراقی کردش حکام نے داعش کے زیر تسلط علاقوں سے نکلنے والے 15 سے 65 سال کے مردوں کے لیے سکیورٹی کی جانچ کا کام بھی شروع کر رکھا ہے لیکن تنظیم کے بقول یہ عمل مبہم ہے۔

عراقی حکام نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا جب کہ کردوں نے ان الزامات کو مسترد کیا۔